قطب مینار معاملے کی سماعت میں مدعی کے دعویٰ کو عدالت نے کیا مسترد

مدعی نے دعویٰ کیا تھا کہ قطب مینار جین اور ہندو مندروں کو گِرا کر تعمیر کیا گیا تھا، لہذا ٹرسٹ بنا کر پوجا کا حق دیا جائے
اس معاملہ میں ہمارا مقدمہ ایڈووکیٹ میر اختر حسین نے کورٹ میں پیش کیا
نئی دہلی: آج ساکیت کورٹ نمبر 3 ( معزز سول جج سینئر ڈویژن نیہا شرما ) نے سوٹ نمبر 875/2020 تیرتھنکر لارڈ رشبھ دیو وغیرہ بمقابلہ سیکریٹری وزارتِ ثقافت وغیرہ کو آرڈر 7 رول نمبر 11 سی پی سی کے تحت مسترد کر دیا۔ اس معاملے میں “لیگل ایکشن فار جسٹس” ٹرسٹ نے آرڈر 1 رول نمبر 10 سی پی سی کے تحت عدالت میں فریق بنائے جانے کی درخواست بھی داخل کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ٹرسٹ نے آرڈر 7 رول نمبر 11 (a) اور (d) کے تحت دوسری درخواست بھی داخل کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ مدعی کے پاس مقدمہ دائر کرنے کی کوئی وجہ (Cause Of Action) نہیں ہے اور مقدمہ آثارِ قدیمہ ایکٹ (Ancient Monument Act 1904 اور ایکٹ 1958 کے سیکشن 39، (Place Of Worship Act 1991) اور سیکشن 9 سی پی سی کی دفعات کے خلاف ہے اور ناقابلِ برقرار ہے لیے اس مقدمہ کو مسترد کیا جانا چاہیے۔
مدعیان نے دعویٰ کیا کہ محمد غوری نے جین اور ہندو مندروں کو گرایا تھا اور بعد ازاں اس کے ملبے پر قطب مینار تعمیر کیا گیا، اس لیے ان بتوں کی پوجا کرنے کا حق دیا جائے اور ایک ٹرسٹ بنایا جائے۔
اس کے جواب میں عدالت میں ہمارا موقف یہ تھا کہ:
1. قطب مینار اور اس کے پورے کمپلیکس (احاطہ) کو حکومت ہند نے 16 جنوری 1914 کو ایک سرکاری گزٹ شائع کرکے ایک محفوظ آثارِ قدیمہ قرار دیا تھا۔ اس وقت (بلکہ اس سے 700-800 سال پہلے تک) اس عمارت میں کسی مذہب کے پیروکاروں کی طرف سے کوئی مذہبی عبادت/پوجا نہیں ہوتی تھی۔ کسی بھی شخص نے 1904 کے ایکٹ کے تحت محفوظ آثارِ قدیمہ قرار دئے جانے کے نوٹیفیکیشن کو مسترد کرنے یا اپنا پوجا کرنے کے حق کو بحال کرنے کے لیے کوئ سوٹ سن 1914 یا اس کے تین سال بعد تک داخل نہیں کیا۔
2. غور طلب ہے کہ نوٹیفکیشن 1914 میں بھی یہ نہیں لکھا گیا کہ وہاں کوئی مذہبی مقام/بت موجود ہے۔ مدعیان نے بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ مقدمہ 2020 کے آخر میں (یعنی نوٹیفکیشن کے تقریباً 106 سال بعد) ٹرسٹ بنانے، پوجا کا حق حاصل کرنے اور باقی محفوظ آثارِ قدیمہ یعنی قطب مینار وغیرہ کو ہٹانے کے نامعقول اور غیر قانونی مطالبہ کے ساتھ یہ سوٹ داخل کیا۔
3. قطب مینار کمپلیکس علاقہ میں اس عمارت کی سن تعمیر 1191 کے بعد سے اب تک کوئی مندر نہیں ہے اور اس سے قبل بھی کوئی مندر تھا، اس کا کوئی پختہ ثبوت موجود نہیں ہے۔ Place Of Worship Act 1991 بھی ایسے معاملے پر کوئی مقدمہ چلانے کی اجازت نہیں دیتا اور یہ فراہم کرتا ہے کہ 15 اگست 1947 کو حو حالت تھی وہی برقرار رہے گی اور اس کو تبدیل کرنے کے لیے کوئی مقدمہ نہیں کیا جا سکتا۔ قطب مینار 1904 کے ایکٹ کے تحت ایک محفوظ عمارت (آثارِ قدیمہ) قرار دیا گیا تھا اس لیے 1958 کے ایکٹ کی کوئی شق اس پر لاگو نہیں ہوتی اور اس پر Place Of Worship Act 1991 لاگو ہوگا۔
4. مدعی کا مقدمہ رضامندی (Acquiescence) اور حد بندی (Limitation) کے اصول کے خلاف ہے۔
5. ایک میمورنڈم مورخہ 19 فروری 2021 کو “لیگل ایکشن فار جسٹس” ٹرسٹ کی جانب سے مرکزی حکومت اور محکمہ آثار قدیمہ کے اعلیٰ حکام کو ٹرسٹ کے صدر محمد اسعد حیات اور سیکرٹری محمد انور صدیقی ایڈووکیٹ کے ذریعے بھیجا گیا تھا۔ اس کے بعد ٹرسٹ کی جانب سے عدالت میں دعویٰ خارج کرنے کی درخواست دی گئی تھی۔
عدالت میں ٹرسٹ کا فریق بنیادی طور پر سینئر ایڈوکیٹ جناب میر اختر حسین صاحب نے پیش کیا۔ ان کے معاون کے طور پر ایڈوکیٹ عادل اور مسٹر پنت بھی شامل ہوئے۔
جناب فضیل احمد ایوبی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے خصوصی طور پر اس کیس کی نگرانی کی۔
اسعد حیات
صدر “لیگل ایکشن فار جسٹس” ٹرسٹ (رجسٹرڈ)، نئی دہلی

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com