سہیل انجم
حکومت کے ذمہ داران، آر ایس ایس اور بی جے پی کے کارکن اور بی جے پی سے ہمدردی رکھنے والے بھکتوں کی جانب سے بار بار یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہندوستان ”وشو گرو” یعنی عالمی قائد ہو گیا ہے۔ اسے اگر اپنے منہ میاں مٹھو بننا نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے۔ اگر ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے تو گزشتہ پانچ چھ برسوں کے دوران ہندوستان عالمی سطح پر مختلف شعبوں میں پچھڑتا جا رہا ہے۔ خواہ وہ انسانی حقوق کا معاملہ ہو یا مذہبی آزادی کا یا دیگر معاملات ہوں۔ وہ نچلے سے نچلے پائدان پر پہنچ گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بار بار یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مودی حکومت میں ہندوستان نے زبردست ترقی کی ہے اور اب دنیا نے اسے اپنا رہبر و رہنما مان لیا ہے۔ ایسا پروپیگنڈہ صرف اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی رہے اور وہ حقائق سے لاعلم ہی رہیں۔
اگر حکومت، بی جے پی اور آر ایس ایس کا یہ دعویٰ مبنی بر حقائق ہے تو پھر ہندوستانی شہریت ترک کرنے کا رجحان کیوں بڑھتا جا رہا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ مودی حکومت میں سب سے زیادہ لوگوں نے ہندوستان کی شہریت ترک کی ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ خود حکومت کہہ رہی ہے۔ اس کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران چھ لاکھ سے زائد ہندوستانیوں نے یہاں کی شہریت ترک کی اور دوسرے ملکوں کی شہریت اختیار کی ہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے کیرالہ سے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ہیبی ایڈن کے ایک سوال کے تحریری جواب میں لوک سبھا میں یہ انکشاف کیا۔ ان کے مطابق 2017 سے لے کر اب تک 6,07,650 افراد نے ہندوستان کی شہریت چھوڑی ہے۔ جبکہ دوسری طرف 2016 سے 2020 کے درمیان 4,177 افراد کو یہاں کی شہریت دی گئی۔ اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ 2019 میں 1,44,017 افراد نے ہندوستانی شہریت ترک کی۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ 2021 میں ہندوستانی شہریت ترک کرنے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال کے 10 ستمبر تک 1,11,287 افراد نے شہریت چھوڑی ہے۔ جبکہ شہریت ترک کرنے کے مقابلے میں یہاں کی شہریت اختیار کرنے والوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ 2016 میں ایک ہزار چھ، 2017 میں آٹھ سو سترہ، 2018 میں چھ سو اٹھائیس، 2019 میں نو سو ستاسی اور 2020 میں چھ سو انتالیس افراد کو شہریت تفویض کی گئی۔ قابل ذکر ہے کہ 2019 میں سب سے زیادہ چار ہزار دو سو بائیس افراد نے شہریت کے لیے درخواست دی جب کہ 2020 میں اس میں کمی آئی اور صرف ایک ہزار پانچ سو چھیالیس افراد نے شہریت کی درخواست دی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہندوستان زبردست ترقی کر رہا ہے اور یہاں کا ماحول رہائش، بزنس اور تجارت کے موافق ہے تو اتنی کم تعداد میں لوگ ہندوستان کی شہریت کیوں لے رہے ہیں۔ جبکہ دوسرے ملکوں کے شہریوں کو بڑی تعداد میں ہندوستان آنا چاہیے۔
حکومت کے مطابق ہندوستانی شہریت کے لیے سب سے زیادہ درخواستیں پاکستان سے آئیں۔ 2016 سے 2020 کے درمیان سات ہزار سات سو بیاسی پاکستانی شہریوں نے ہندوستانی شہریت کے لیے درخواست دی۔ 2019 میں سب سے زیادہ تین ہزار پنچانوے درخواستیں پاکستانیوں سے موصول ہوئیں۔ یکم جنوری 2017 سے رواں سال کے تین اگست تک دو ہزار تریسٹھ پاکستانیوں کو یہاں کی شہریت دی گئی۔ وزارت داخلہ کے مطابق شہریت کا ترمیمی قانون سی اے اے 12 دسمبر 2019 کو نوٹی فائی کیا گیا تاہم چونکہ اس کے ضوابط ابھی وضع نہیں کیے جا سکے ہیں اس لیے 1955 کے شہریت قانون کے تحت شہریت حاصل کرنے کے لیے درخواستیں مانگی گئیں۔
یاد رہے کہ شہریت کے ترمیمی قانون سی اے اے کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مبینہ طور پر مذہب کی بنیاد پر ستائے جانے کی وجہ سے بھارت آنے والے ہندو، سکھ، پارسی، جین، عیسائی اور بودھ برادری کے لوگوں کو شہریت دی جائے گی۔ اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ جو لوگ 2014 سے قبل آچکے ہیں انھیں اس قانون کے تحت شہریت ملے گی۔ حکومت کی جانب سے منظور کردہ اس قانون کے خلاف پورے ملک میں بالخصوص مسلمانوں کی جانب سے مہینوں تک شدید احتجاج کیا گیا تھا جو کرونا وبا کی وجہ سے ختم کر دیا گیا۔
خیال رہے کہ ہندوستانی باشندوں کی اکثریت امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں رہائش کو ترجیح دیتی ہے۔ تاہم کچھ لوگ کناڈا اور پرتگال کو بھی پسند کرتے ہیں۔ مذکورہ مدت کے دوران شہریت چھوڑنے کی سب سے زیادہ درخواستیں امریکہ میں مقیم ہندوستانی باشندوں کی جانب سے آئیں۔ اس کے بعد آسٹریلیا اور کناڈا سے۔ ان تین ملکوں سے مجموعی طور پر 30 فیصد درخواستیں آئیں۔ دوسرے ملکوں میں زندگی گزارنے کے بہتر مواقع کی وجہ سے لوگ یہاں کی شہریت ترک کر رہے ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ ہندوستان کے موجودہ سیاسی و سماجی ماحول کی وجہ سے بھی بہت سے لوگوں نے یہاں کی شہریت ترک کی ہے۔ وہ اس بارے میں 2019 کی مثال پیش کرتے ہیں جب سب سے زیادہ لوگوں نے یہاں کی شہریت چھوڑی۔ اتنی بڑی تعداد میں یہاں کی شہریت ترک کرنا حیرت انگیز نہیں ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہاں کا سیاسی و سماجی ماحول ہے۔ عوام کے ساتھ ساتھ بزنس اور انڈسٹری کو بھی پر امن ماحول کی ضرورت ہوتی ہے جس کا یہاں فقدان ہے۔ اگر جھگڑا فساد اور تنازعات یومیہ کے معمول بن جائیں، اس کی طویل مدتی حکمت عملی بنائی جاتی رہے اور وہ اسٹیٹ پالیسی بن کر رہ جائے تو اس کے نتیجے میں یہی کچھ ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ دوسرے ملکوں نے لوگوں کو اچانک بہت زیادہ سہولتیں دینا شروع کر دیں اور مراعات کا اعلان کر دیا۔ حکومت کو سوچنا چاہیے کہ آخر لوگوں کا اپنے ملک سے لگاؤ کیوں کم ہو رہا ہے۔
مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہاں کے باشندے دوسرے ملکوں میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ وہ کسی مغربی ملک کی شہریت چاہتے ہیں۔ مغربی ملکوں کی ترقی خاص طور پر نوجوانوں کو بہت متاثر کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اچانک شہریت ترک کرنے میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں۔ یہاں کا جو سیاسی، سماجی اور اقتصادی ماحول ہے وہ بہت اچھا نہیں ہے اور اگر کسی امن پسند شہری کے پاس دوسرے ملک میں جانے کے وسائل ہیں تو وہ یہاں رہنا نہیں چاہے گا۔
نیشنل کرائم بیورو کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں جرائم میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ لہٰذا جس کے پاس بھی وسائل و ذرائع ہیں وہ کسی پر امن ملک میں رہنا چاہتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ یہاں سے چلا جائے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی جرائم ہوتے ہیں مگر وہاں کی حکومتیں ان پر کارروائی کرتی ہیں جبکہ ہندوستان میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں کا جو سیاسی طبقہ ہے وہ اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔
بعض مبصرین کے خیال میں ہندوستان اب فلاحی مملکت یا ویلفئیر اسٹیٹ نہیں رہا بلکہ خیراتی مملکت یا چیری ٹیبل اسٹیٹ بن گیا ہے۔ اب یہاں کی حکومتیں اپنی بقا کے لیے عوام کو بہت سی چیزیں مفت دینے لگی ہیں۔ جیسے کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ کی جانب سے دو سو یونٹ تک بجلی مفت کر دینا لوگوں کو پسند آتا ہے۔ اسی طرح مرکزی حکومت کی جانب سے غریبوں کو دو ہزار روپے مہینہ اور پانچ کلو اناج دیا جا رہا ہے وہ لوگوں کو اچھا لگتا ہے۔ لوگ مودی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ایسی مملکت میں لوگ شہری کے بجائے ان کے الفاظ میں بھکاری بن جاتے ہیں اور کوئی بھی خوددار شہری ان خیراتوں کو لینا پسند نہیں کرے گا۔ لہٰذا ان عوامل کی وجہ سے بہت سے لوگ ہندوستان سے دوسرے ملکوں میں بس جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
Home مضامین و مقالات سدا بہارمضامین مودی حکومت میں لاکھوں افراد نے ہندوستانی شہریت چھوڑ دی: سہیل انجم