سرحد کا محافظ : ناقص غذا اور ناروا سلوک؟

محمد عمران
ہندوستان کی سرحدپر تعینات فوج کے جوانوں کاجب ذکر چھڑجاتا ہے تو بلاشبہ ان کی جوانمردی،جاں نثاری ،جانبازی اور دشمنوں کے چھکے چھڑادینے کا ان کالاثانی حوصلہ سب کی نگاہوں کے سامنے پھرجاتاہے اور پھرہرہندوستانی کاسینہ بھی بلاشبہ 56انچ کا ہوجاتاہے۔جیسا کہ ہم سب واقف ہیں کہ جوانوں کے ذریعے کی جانے والی ملک کی سرحدوں کی حفاظت سے ہی دنیا میں وطن عزیز کی شان و شوکت دوبالا ہوتی ہے۔اور بلا شبہ یہی وجہ ہوتی ہے کہ جب وطن عزیز کے جوانوں کا ذکر آتاہے تو سلام کے لئے خود بخود ہی ہمارا ہاتھ اوپر اٹھ جاتا ہے۔ یہی وہ جوان ہوتے ہیں جو اپنی ذاتی خوشیوں اور گھرکے عیش وآرام سب کوقربان کردیتے ہیں، موسم کی ہر طرح کی سنگینی کو برداشت کرلیتے ہیں اور وطن کی حفاظت کے لئے ہرلمحہ سنگینوں کے سائے میں بڑی مستعدی اور حوصلہ مندی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔جس کابراہِ راست اثرتو یہ ہوتاہے کہ ہمیں سکھ و چین اور اطمینان کی زندگی نصیب ہوپاتی ہے۔اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب کبھی بھی وطن عزیز میں دشمن ممالک کی جارحیت کوروکنے اور ان کے دانت کھٹے کردینے کی ضرورت پڑجاتی ہے تو یہی وہ جوان ہوتے ہیں جو یکلخت آگے بڑھتے ہیں اور ملک کی سرزمین کی حفاظت کرنے میں، جہاں کہیں بھی ضرورت پڑتی ہے، وہاں بخوشی اپنی جان کی قربانی تک بھی پیش کردیتے ہیں ،اور اس میں کوئی دریغ نہیں کرتے ہیں۔
لیکن گذشتہ دنوں بی ایس ایف کے 29 ویں بٹالین کے جوان تیج بہادر نے سوشل میڈیا پر ناقص غذا کے حوالے سے جوویڈیو جاری کیا ہے اس نے بلاشبہ سب کو حیرت میں ڈال دیاہے۔اس ویڈیو کے تعلق سے جنم لینے والے پریشان کن سوال نے یقینی طور پر سب کے ذہنوں کو جھنجوڑکر رکھ دیاہے کہ کیا واقعی سرحد کے محافظ بی ایس ایف کے جانباز جوانوں کے ساتھ ایسا ہی ناروا سلوک کیاجاتاہے؟کیا ان کی غذا تک بھی ناقص ہوتی ہے؟کیا سوکھی روٹی اور چائے کا ناشتہ ان کی صحت اور قوت کو بحال رکھنے کے لئے کافی ہوجاتاہے؟کیا محض ہلدی اور نمک والی دال، جلی ادھ جلی روٹی کے ساتھ کھانے سے وہ دشمنوں کے مقابلے میں ڈٹے رہنے اور ان کے حوصلے پست کردینے کے اہل ہوجاتے ہیں؟اسی طرح کے کئی اور سوال ہیں جو ذہن کے گوشوں میں رقص کرنے لگے ہیں اور ہرپل ایک نئے سوال کو جنم دینے لگے ہیں۔
اس موقع پر فطرت کے عین مطابق ہندوستان کے کم وبیش سبھی گھروں کانقشہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتاہے جس میں یہ منظر بہت ہی واضح طور پر دکھائی دیتاہے کہ گھر کے روشن چراغ یعنی جوان بیٹوں کے کھانے پینے پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے،ماں جلی ہوئی روٹی خود کھالیتی ہے اور سب سے اچھی والی روٹی بیٹے کی تھالی میں ڈالتی ہے،باپ بھی کچھ اسی طرح کی باتوں کا خیال رکھتا ہے۔یقیناً اسی طرح یہ ملک بھی ہم سب کا گھر ہے ، سرحد کے محافظ اس کے جوان ہیں، حکومت اور اعلیٰ افسران سرحد پر تعینات ان جوانوں کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔اس لیے بہت ہی سنجیدگی سے یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب ان جوانوں کو بھی گھروں کی طرح صحت بخش غذا فراہم کی جائے گی تو ان کی صحت بھی سلامتی کے ساتھ محفوظ رہے گی ،اور جب ایسا ہوجائے گا تبھی وطن عزیز کے گھروں میں آباد دیگر ایک سو پچیس کروڑ افراد کے ساتھ ہی ان کے نوجوانوں کی صحت بھی سلامتی کے ساتھ محفوظ رہے گی۔
آج جہاں ملک کا ہرشہری بی ایس ایف کے جوان تیج بہادر کے مذکورہ ویڈیو کے وائرل ہوجانے کے بعد سے حیرت میں پڑگیاہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہوگیاہے کہ کیا واقعی ایسا بھی ممکن ہو سکتاہے؟ اور بھلا یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے؟وہیں اس موقع پرحکومت کا بھی حرکت میں آجانا ایک فطری سی بات جان پڑتی ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر نے فوری طور پر وزارت داخلہ سے اس بابت رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔ یقیناًیہ امیدبھی کی جانی چاہئے کہ عنقریب ہی منصفانہ تحقیقات کے ذریعے زمینی سچائیاں سامنے آجائیں گی،تمام کمیوں اور خامیوں کو دور کرلیاجائے گا اور فوج کے وقار کو بحال رکھتے ہوئے فوجیوں کی صحت کو مستحکم اور محفوظ بنائے رکھنے کی انتہائی کوشش میں ان کی خوراک پر بھی بھرپور توجہ دی جائے گی۔
لیکن حیف ہے کہ ابھی فوج کو ملنے والی ناقص خوراک ہی ایک اہم اورسنگین مسئلہ کی صورت میں سامنے تھا اور وہی غور وخوض کا موضوع تھا کہ فوج کے دیگر شعبوں سے بھی جوانوں کے اعلیٰ افسران کے استحصال کاانکشاف کرتی ہوئی احتجاج کی صدائیں بھی سوشل میڈیا کے ذریعے بلند ہونے لگیں۔مبینہ طور پر فوج کے اعلیٰ افسران پر سنگین الزامات عائد کئے جانے لگے اورپھر پرت در پرت ایسی تلخیوں سے پُر سچائیاں بھی سامنے آنے لگیں کہ جن سے حیرت میں مزید اضافہ ہونے لگا۔غور طلب بات ہے کہ جن فوجیوں کو سرحد کی محافظت کی ذمہ داری ملتی ہے اور جن پر ساراملک اعتماد کرکے مطمئن زندگی گزار رہاہوتاہے، ان سے مبینہ طور پر ان کے اعلیٰ افسران اپنے گھروں میں کام کراتے ہیں، کچن تک میں بھی ان سے کام لیا جاتا ہے،بیگمات کے معاون بنتے ہیں ،ان سے جوتے تک پالش کرائے جاتے ہیں اور ان کوافسران کے بچوں کو اسکول لے جانے اور لے آنے کے کام پر بھی لگایاجاتاہے۔غور کیجئے اگر اس میں کچھ بھی سچائی ہے تو یقینی طور پر سوال یہی پیدا ہوتاہے کہ کیا ان فوجیوں کی خدمات کی فہرست میں ایسے کام بھی شامل ہوتے ہیں؟کیاانہیں کسی بھی اعتبار سے اعلیٰ افسران کی خدمات کے لئے سرحد پر تعینات کیاجاتاہے؟ اور اگر ایسا نہیں ہے توکیا فوجیوں کااستحصال کرنے والے افسران کے ذریعے یہ ملک کی سا لمیت اور اس کی حفاظت کی اہمیت کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کے مترادف نہیں ہے؟
مزید حیرت توتب ہوتی ہے جب یہ معلوم ہوتاہے کہ ان جوانوں سے ڈیوٹی کے متعین اوقات سے کہیں زیادہ بلا معاوضہ اضافی خدمات بھی لی جاتی ہیں اور پھر اس کے بدلے میں سہولتوں کے نام پر ان کے حصے میں استحصال کے علاوہ کچھ بھی نہیں آتاہے۔اس ضمن میں کہا تویہ جاتاہے کہ فوج میں ڈسپلن اور اصولوں کی پاسداری کرنے والے ان جانباز فوجیوں کو اپنا دکھڑا تک سنانے کی بھی اجازت نہیں ہوتی ہے اور اگر وہ ایسا کرتے بھی ہیں تو ان کی سننے والا کوئی نہیں ہوتاہے۔ان کے سامنے چھٹی روک دیئے جانے کا خوف بھی سایہ فگن ہوتا ہے، کورٹ مارشل کیئے جانے کے اشارے ان کو بڑی حد تک خوفزدہ رکھتے ہیں۔اور اپنی زبان کھولنے سے روکے رکھتے ہیں۔اب جب سوشل میڈیا میں ایک ایک کرکے ان کی دکھ کی باتیں وائرل ہورہی ہیں تو اندر کاسچ بھی باہر آرہاہے جو بلاشبہ فوج کے وقار کو مجروح کرنے والا ہے۔لیکن یہ بات سمجھنی چاہئے کہ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے ؟اور کیا بنیادی مسائل کو حل کرکے اس سلسلے کو روک دینے کو اولیت نہیں دی جانی چاہئے؟
بڑی حیرت ہوتی ہے جب مبینہ طور پرفوج کے اعلیٰ افسران پر بدعنوانی کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں اور مختلف حوالوں سے یہ انکشاف کیاجاتا ہے کہ حکومت کی جانب سے ملنے والے راشن مثلاً دال سبزی وغیرہ اور دیگر اشیاء جیسے پیٹرول،ڈیزل وغیرہ کو بھی اعلیٰ افسران بازار میں آدھی قیمت میں فروخت کردیتے ہیں اور اس کامنافع حاصل کرتے ہیں۔ الزامات تویہ بھی لگائے گئے ہیں کہ فرنیچر وغیرہ کی خریداری پر بھی ان کے ذریعے دکانداروں سے پیسے وصول کیے جاتے ہیں اور اس کے لئے کوالٹی سے بھی سمجھوتہ کرلیاجاتا ہے۔اب ان باتوں میں کتنی صداقت ہے یہ تو تحقیقات سے ہی معلوم ہوسکے گا۔لیکن اس سے انکار نہیں کہ یہ باتیں تشویشات میں اضافہ کرنے والی ضرور ہیں۔جیسا کہ ہم سب جانتے بھی ہیں کہ ایک ہندوستانی اپنی پروقار فوج میں کسی بھی طرح کی بدعنوانی کا گمان بھی نہیں کرسکتا ہے کیونکہ اس کے سامنے فوج کی جوشبیہ ہوتی ہے اس میں نظم وضبط ہوتا ہے اور ان کی قربانی کا جذبہ بھی مثالی ہوتا ہے۔لیکن فوجیوں کے لگاتار وائرل ہونے والے ویڈیو ز نے وہم وگمان سے دور جوپرتیں کھولی ہیں ان سے بلاشبہ ہرشخص متحیر ہے۔حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ جب پرتیں کھلتی ہیں تو بس کھلتی ہی چلی جاتی ہیں اور محض ایسا کرتے رہنے سے ہی مسائل کی سنگینی کم نہیں ہوجاتی ہے، اور پریشانیاں بھی دور نہیں ہوجاتی ہیں ،بلکہ اس کے لئے ضروری تویہ ہوتاہے کہ مسائل کے حل کی جانب خصوصیت سے توجہ دی جائے۔
اگر اس ضمن میں دیکھاجائے تومعلوم ہوگاکہ حکومت کی جانب سے تحقیقات کی کارروائی کااعلان بھی ہوگیاہے ،اوراس کے بعدوزارت داخلہ نے وزیر اعظم کے دفترکو اپنی رپورٹ بھی پیش کردی ہے،اوراس میں یہ واضح بھی کردیاگیاہے کہ فوج میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔ اسی موقع پرفوج کے سربراہ نے بھی فوجیوں سے براہِ راست ان کے ہی دفتر میں شکایت کرنے کی بات کہی ہے اور سوشل میڈیا پر اپنی شکایتیں وائرل کرنے سے اجتناب کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اور بلا شبہ یہ ضروری بھی ہے ۔
لیکن مبینہ طور پر یہ بھی سچ ہے کہ فوج کے اندر اٹھنے والے معاملے کی سنجیدگی کو کم کردینے کی مختلف انداز میں کوشش بھی کی جارہی ہے،اور اس کے لئے ایسے ایسے طریقے اپنائے جارہے ہیں جومزید الجھنیں پیدا کرنے والے اور کئی طرح کے سوالوں کوجنم دینے والے ہیں۔آج روٹی دال کی ناقص صورت کاویڈیو وائرل ہونے کے بعد انتقامی جذبے کے تحت ایک طرف جہاں جوان تیج بہادر کا تبادلہ کردیئے جانے اور اسے فوجی سے پلمبر بنائے جانے کی خبروائرل ہورہی ہے وہیں اسے ’شرابی‘ اور غیر متوازن ذہن کاآدمی بھی قراردیا جارہا ہے۔ جبکہ اس جوان کے گھروالے،اس کی اہلیہ اور دیگر فوجی بھی اس کی بہادری اور دلیری کی گواہی دیتے ہوئے اس کے الزامات کو صداقت پر مبنی بتارہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی یہ انکشاف بھی کررہے ہیں کہ وہ اکثر ہی حساس علاقوں میں تعینات رہاہے اوراسے مختلف مواقع پر انعامات سے بھی نواز جاچکاہے۔اس لئے اس کی باتیں یقینی طور پر قابل توجہ ہیں۔لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ اس مسئلے کے حل کی ضرورت اور اس کی سنجیدگی کو کم کرکے مذکورہ فوجی اور اس کے گھروالوں پر اپنا بیان واپس لینے تک کادباؤ بنائے جانے کی باتیں بھی مختلف حوالوں سے کہی جارہی ہیں۔ ماہرین ومبصرین مانتے ہیں کہ اگر ان باتوں میں کوئی صداقت ہے تو یہ یقیناً ہندوستان فوج کے وقار کے پیش نظر بہت ہی تشویش کی بات ہے۔
اس ضمن میں یہ کہنا ضروری معلوم ہوتاہے کہ آج بلاشبہ ان فوجیوں کی ہرلحاظ سے قدر کرنے اور ان کی جائز ضروریات کی تندہی سے تکمیل کرنے کی شدید ضرورت ہے جو وطن کی حفاظت میں جان وتن کو فدا کردیتے ہیں ۔اس حوالے سے بلاشبہ یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ ناقص غذا اور اور ناروا سلوک سے فوجی اور نیم فوجی دستوں کو ضرور نجات ملنی چاہئے۔
mohd1970imran@gmail.com

SHARE