ذات پر مبنی مردم شماری

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
(نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ)
حکومت بہار نے مرکزی حکومت کے انکار کے باوجود بہار میں ذات کی بنیاد پر مردم شماری کا فیصلہ اپنے صرفہ سے لے لیا ہے،تیاری چل رہی ہے، خاکے بنائے جا رہے ہیں، جب ہر طرح سے تیاری مکمل ہوجائے گی تو تمام سیاسی پارٹیوں کی میٹنگ میں اسے آخری اور حتمی شکل دی جائے گی، اس سلسلے میں حکومت کو کسی دقت کا سامنا نہیں ہے، کیوں کہ اس معاملہ میں حزب مخالف بھی حکومت کے ساتھ ہے، جدیو ارکان پارلیامنٹ نے وزیر داخلہ کے توسط سے وزیر اعظم کو اس سلسلے میں مکتوب روانہ کیاتھا،اس کے باوجود ۲۰؍ جولائی ۲۰۲۰ء کو مرکزی حکومت نے پارلیامنٹ میں بیان دیا کہ ۲۰۲۱ء کی مردم شماری ذات کی بنیاد پر نہیں ہوگی، ۲۳؍ اگست کو تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کی ملاقات وزیر اعلیٰ کی قیادت میں وزیر اعظم سے ہوئی، اس ملاقات میں بہار سے بی جے پی کے وزیر معدنیات جنک رام نے بھی نمائندگی کی تھی، لیکن وزیر اعظم اپنی جگہ اٹل رہے، اور انہوں نے بہار ہی نہیں مہاراشٹر اسمبلی کی پاس شدہ تجویز کو بھی یہ کہہ کر رد کر دیا کہ دستور میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
اس سے قبل ۲۰۱۰ء میں پارلیامنٹ میں ذات کی بنیادپر مردم شماری کا سوال اٹھا تھا، اصولی طورپر حکومت نے اسے مان لیا تھا، لیکن یہ مردم شماری معاشی طورپر کمزور طبقات کے حوالہ سے کرائی گئی اوراس کے اعداد وشمار آج تک عام نہیںکئے گئے، وزیر اعظم نریندر مودی نے ۲۰۱۷ء میں روہنی کمیشن کی تشکیل کی، کمیشن نے پایا کہ دو ہزار چھ سو تینتیس(۲۶۳۳)پس ماندہ برادری میں سے ایک ہزار (۱۰۰۰)کو منڈل کمیشن کی سفارش کا فائدہ نہیں ملا ہے، اس کمیشن نے ۲۷؍ فی صد رزرویشن کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔
ذات کی بنیاد پر مردم شماری کاکام نوے(۹۰) سال قبل ۱۹۳۱ء میں ہوا تھا، اس کے مطابق ہندوستان میں اونچی ذات کے برہمن ۷ئ۴، بھومی ہار ۹ئ۲، کائستھ ۲ء ۱ ؍ کل تیرہ (۱۳) فی صد تھے، اوسط معیار کی آبادیوں میں یادو ۰ئ۱۱، کوئری ۱ئ۴، کرمی ۶ئ۳، بنیا ۶ئ۰ کل ۳ء ۱۹؍ فی صد ہوا کرتے تھے، پس ماندہ برادری میں بڑھئی ۰ئ۱، دھانک ۸ئ۱، کہار ۷ئ۱، کانو ۶ئ۱، کمہار ۳ئ۱، لوہار ۳ء ۱، حجام ۶ئ۱، تتوا ۶ئ۱، ملاح ۵ئ۱، تیلی ۸ء ۲؍ فی صد تھے۔ایک فی صد سے نیچے رہنے والی پس ماندہ برادری ۱ء ۱۶، درج فہرست ذات۱ء ۱۴، درج فہرست قبائل ۱ء ۹، مسلمان ۵ئ۱۲، فی صد، اس فہرست میںدرج ہوئے تھے، منڈل کمیشن نے ذات کی بنیاد پر مردم شماری نہیں کرائی تھی، البتہ ہندوستان کی مجموعی آبادی پس ماندہ طبقات کا تخمینہ باون (۵۲) فی صد لگایا تھا، جسے ۲۷؍ فی صد رزرویشن دیا گیا تھا۔
ذات پر مبنی مردم شماری اگر ایمانداری سے کی گئی اور کسی کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں برتا گیا تو اس کا فائدہ پس ماندہ طبقات کو ہوگا، محروم طبقات کی پہچان ممکن ہو گی اور سرکاری منصوبوں کی تیاری میں اس سے مدد ملے گی ، اور اگر سرکار کی یہ کوشش کامیاب ہوگئی تو بہار پورے ملک کے لیے رول ماڈل بن جائے گا، اور نتیش کے اس اعلان کو تقویت ملے گی کہ جو ہم پانچ سال قبل سوچتے ہیں، پورا ملک اس تک پانچ سال بعد پہونچتا ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com