غزل
ساگر تیمی
آنکھوں میں آہی جاتی ہے عبرت کا کیا کریں
ہم سونے والے لوگوں کی غفلت کا کیا کریں
اس بار پھر امیر شہر سے ٹھنی رہی
ہم اپنی با شعور طبیعت کا کیا کریں
پیسہ کمانے والوں سے زیادہ ہیں مطمئن
ایمان والے لوگوں کی برکت کا کیا کریں
شیرں زباں ندیم کے دھوکے میں آگیا
واعظ کی تلخ تلخ نصیحت کا کیا کریں
گالی کے بدلے ہم نے دعا سے دیا جواب
آباء سے جو ملی ہے وراثت کا کیا کریں
کھایا ہے دھوکہ ہم نے اور یہ جرم ہے قبول
گھٹی میں جو پڑی ہے شرافت کا کیا کریں
پھر اس نجس نے اپنوں میں دیوار ڈال دی
تم ہی کہو ہم ایسی امامت کا کیا کریں
دیکھا جو ننگا جسم تو آنسو نکل پڑے
ہم اپنی بے پناہ مروت کا کیا کریں
اس کو نفاق، مکر و ریا سے لگاﺅ ہے
ساگرؔ تمہاری اتنی محبت کا کیا کریں