ملت ٹائمز (ایجنسیاں)
چینی صدر شی جن پنگ سترہ جنوری کو داووس (سوئٹزرلینڈ) میں عالمی اقتصادی فورم کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں شی نے اس فورم کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے ملک کی زیادہ بڑا عالمی کردار ادا کرنے کی خواہش کا پُر زور انداز میں ذکر کیا، ایک ایسے وقت میں، جب امریکا عالمی منظرنامے سے نظریں ہٹا کر ملک کے اندرونی معاملات پر زیادہ توجہ مرکوز کرتا نظر آتا ہے۔ شی نے دنیا میں آزادانہ تجارت کی بھرپور وکالت کی اور دیگر ممالک کو اپنے مفادات کے پیچھے اندھا دھند بھاگنے سے خبردار کیا۔ واضح طور پر شی کا اشارہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سب سے پہلے امریکا کی پالیسی کی جانب تھا۔بیس جنوری کو امریکا کے آئندہ صدر کا حلف اٹھانے والے ٹرمپ اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ تجارت کے شعبے میں چین کا زیادہ جارحانہ انداز میں سامنا کریں گے۔ ٹرمپ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکا کے باقی دُنیا کے ساتھ پہلے سے طے شُدہ معاہدوں پر یا تو نئے سرے سے مذاکرات کریں گے یا اُنہیں سرے سے ہی ختم کر دیں گے اور باہر سے درآمدہ مصنوعات پر نئے محصولات لگاتے ہوئے غیر ملکی مقابلہ بازی میں امریکی کمپنیوں کو تحفظ فراہم کریں گے۔شی نے اپنے خطاب میں کسی بھی ملک کی جانب سے اپنی مصنوعات کو اس طرح سے تحفظ دینے کی پالیسی کو خود کو ایک تاریک کمرے میں بند کر لینے کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ اس طرح لوگ خود کو خطرے سے تو محفوظ تصور کرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ اس طرح وہ خود کو روشنی اور ہوا سے بھی محروم کر لیتے ہیں۔ نائب امریکی صدر جو بائیڈن کی موجودگی میں اپنے تقریباً ایک گھنٹہ طویل خطاب میں شی نے کہا:تجارتی جنگ میں کوئی بھی فاتح نہیں ہو گا۔چینی صدر شی جن پنگ داووس میں سوئس خاتون صدر ڈورِس لوئٹ ہارڈ کے ہمراہ سیاحت کے چینی سوئس سال کا افتتاح کر رہے شی نے ٹرمپ کی جانب سے بار بار لگائے جانے والے الزام کے جواب میں کہا کہ چین اپنی کرنسی کی قدر و قیمت کو کم کرتے ہوئے اپنی تجارتی مقابلہ بازی کو بہتر نہیں بنائے گا۔ ساتھ ہی شی نے گزشتہ سال پیرس میں تاریخی ماحولیاتی سمجھوتے پر دستخط کرنے والے تمام ممالک پر بھی زور دیا کہ وہ اُس سمجھوتے پر قائم رہیں۔ واضح رہے کہ ٹرمپ نے اس سمجھوتے کو بھی ہدفِ تنقید بناتے ہوئے عندیہ دیا تھا کہ امریکا اس سمجھوتے سے الگ بھی ہو سکتا ہے۔نیوز ایجنسی روئٹرز کے ایک جائزے کے مطابق ایک ایسے وقت میں، جب ٹرمپ امریکی مفادات پر ہی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں اور یورپ بریگزٹ سے لے کر مسلمان انتہا پسندوں کی کارروائیوں تک دیگر کئی چیلنجوں سے نمٹنے میں مصروف ہے، ایک خلا پیدا ہو گیا ہے، جسے چین پُر کرنے کی کوشش میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں ایک بڑا چینی وفد داووس میں شرکت کر رہا ہے۔