احمد شھزاد قاسمی
ملک میں پارلیمانی الیکشن ہوں یا صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بلدیاتی چناؤ ہوں یا کارپوریشن کا سیاسی دنگل مسلم رائے دہندگان اپنی تعداد کے لحاظ سے ہر الیکشن کو متاثر کرنے کی پوزیشن میں ہیں، وارڈ ممبران اور گرام پنچایتوں سے لیکر ممبر پارلیمنٹ تک کو اپنی انتخابی مہم اور چناوی منصوبہ بندی میں مسلم ووٹرس کو نظر انداز کر نے کی غلطی کا خمیازہ شکست و ہزیمت کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے لیکن حیرت اور افسوس کی بات یہ ہیکہ ملکی سیاست کو متاثر کر نے والے یہ مسلمان آج تک نہ اپنی لیڈر شپ قائم کر سکے اور نہ ہی اپنا سیاسی وزن ثابت کر سکے۔
سوال یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان با وجود اپنی کثرتِ تعداد کے اپنی کوئی سیاسی طاقت کیوں نہیں بنا سکیں؟ اپنی لیڈر شپ اور اپنی قیادت کیوں نہیں پیدا کرپائے؟ سیاسی طور پہ کیسے بے وزن کردئے گئے؟ اسمبلی اور پارلیمنٹ میں مناسب نمائندگی سے کیوں محروم ہوگئے؟
یہ وہ سوالات ہیں جو ملت کا درد رکھنے والے ہر انسان کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہیں، ہر حساس انسان کا ضمیر اس سے باز پرس کرتا ہے کہ آخر ملت کی یہ سیاسی اور اسکے نتیجہ میں سماجی اقتصادی معاشرتی اور تعلیمی ذلت و نکبت کس کی پیداوار ہے، کیا اس کے ذمہ دار خود عام مسلمان ہیں یا مسلمانوں کے نام پہ بنائی گئی تنظیموں کے سربراہوں کی ناقص حکمتِ عملی نے یہ دن دکھائے یا پھر سیاسی جماعتوں مفاد پرستی اور ابن الوقتی نے مسلمانوں کو بے وقعتی کے گڑھے میں دھکیل دیا، ہمارے بیشتر مفکرین دانشوران اور میڈیا کی زبان میں “مسلم رہنما” کہلائے جانے والے افراد سارا الزام آخر الذکر (سیاسی جماعتوں) پر ہی لگا دیتے ہیں انتخابی موسم میں تو ایسے بیانات کا سیلاب امنڈ پڑتا ہے کہ فلاں پارٹی نے مسلمانوں سے کئے ہوئے وعدوں کو پورا نہیں کیا، فلاں جماعت نے مسلمانوں کی لیڈرشپ کو پنپنے نہیں دیا، مسلمانوں کی زبوں حالی کی ذمہ دار فلاں پارٹی ہے، اس طرح کے وقتی اور موسمی بیانات سے دائمی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔
یہ سچ ہے کہ مسلم قیادت کی بیخ کنی اور مسلمانوں کے سیاسی زوال کی ذمہ دار موجودہ سیکولر سیاسی جماعتیں ہیں لیکن یہ ادھورا اور ناقص سچ ہے۔ مکمل سچ یہ ہے کہ ہماری اس سیاسی پسماندگی کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں سے زیادہ ان ملی تنظیموں پر عائد ہوتی ہے جن کے قائدین عملی طور پہ تو سیاست کو شجرِ ممنوعہ سمجھتے ہیں لیکن ذاتی طور پہ سیاسی فوائد اور اقتداری آشائشوں سے لطف اندوز ہونے میں دریغ نہیں کرتے۔
ہمارے ملک میں سینکڑوں نہیں ہزاروں ملی تنظیمیں ان میں سے جمیعتہ علماء ہند، جمیعتہ اہلِ حدیث، جماعتِ اسلامی ہند، ملی کونسل، مجلس مشاورت اور چند دوسری جماعتیں ایسی ہیں جو اپنی خدمات کے حوالہ سے شناخت کی جاتی ہیں اور ان کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہی وہ مسلم تنظیمیں ہیں جو اپنے اجلاسوں میں لاکھوں کی بھیڑ اکھٹا کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں ان کے علاوہ جو سینکڑوں تنظیمیں ہیں وہ” نہ تین میں نہ تیرہ میں “ان کے سربراہوں اور بانیان کو اخبار میں ملی قائد لکھے جانے اور ٹی وی چینلوں پر مسلم نمائندہ کی حیثیت سے بلائے جانے کا شوق ہی کسی مسلم تنظیم کی بنیاد ڈالوا دیتا ہے۔
ان چھوٹی بڑی تنظیموں میں جو بات مشترک ہے وہ یہ کہ سب ہی ملت کے مفاد کا کلمہ پڑھتی ہیں لیکن ملت کے مفاد کے لئے جماعتی اور گروہی مصلحت کے حصار کو تونے کی کسی میں ہمت نہیں ہے اور نہ ہی اپنا سیاسی وزن قائم کر نے کے لئے مکمل اور دائمی منصوبہ بندی بس وقتی طور پہ اپنی اپنی ڈفلی بجادیتے ہیں۔ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ ہر جماعت کا قائد یہ کہتا ہے کہ ہماری جماعت ایک فیصد بھی سیاسی جماعت نہیں ہے لیکن بی جے پی کو ہرانے کے لئے سب میدان میں آجاتے ہیں، اپنی قیادت کی بات کی جائے تو یہ کہہ کر دامن بچالیا جاتا ہے کہ ہندوستان میں کسی مسلم پارٹی کی بنیاد برادرانِ وطن کو متحد کردیگی یہ.بات صحیح ہےکہ ہندوستان جیسے ملک میں خالص مسلم پارٹی بار آور نہیں ہو سکتی تو کیا اتنا بھی نہیں ہو سکتا کہ مسلم رہنماؤں کی زیرِ قیادت موجودہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد ان سیکولر پارٹیوں سے کرادیا جائے جن کی حمایت کے لئے آپ کے پاس کوئی جواز نہیں ہوتا تو بی جے پی کا خوف دلاکر ان کی جھولیاں مسلم ووٹوں سے بھر کر اپنے مقاصد حاصل کر تے رہتےہیں۔
ملی قائدین کے اسی سرد رویہ اور سیاسی منصوبہ بندی سے عدمِ دلچسپی کا فائدہ اٹھاکر ایسے لوگ سیاسی منظر نامہ پہ غالب ہوگئے جن کے نام تو مسلمان ہوتے ہیں لیکن مسلمانوں کے بنیادی مسائل سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، کانگریس سمیت تمام علاقائی اور صوبائی پارٹیوں کے پاس ایسے افراد موجود ہیں جو کہنے کو تو مسلم وزیر اور مسلم لیڈر ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ پارٹی ترجمان سے زیا دہ کچھ نہیں ہوتے یہ ایک رسم سی ہوگئی کہ اکّا دکّا مسمان کو ہلکی پھلکی وزارت کا قلمدان سونپ دو اور بس مسلم ووٹروں کا حق ادا ہوگیا
سیاسی پارٹیوں کے یہ مسلم و فادار اتنے مجبور ولاچار ہوتے ہیں کہ قوم کے خلاف ہونے والی ہر زیادتی کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کر جاتے ہیں حکمراں پارٹی کے مسلم ممبران تو اپنی پارٹی کے مسلم مخالف اقدامات کو بھی سراہتے ہیں اور اسکی نہ صرف تائید کرتے ہیں بلکہ اس کو قوم کے حق میں مفید اور کار گر بتاتے ہیں۔
مظفر نگر فسادات کے وقت یوپی اسمبلی میں ساٹھ سے زیادہ مسلم ممبران تھے، چالیس تو حکومت کے شریکِ کار اور باقی حزبِ اختلاف کے ہم نشیں تھے لیکن مسلم جانوں کے اتلاف معصوموں کی آہ و بکا جلتے گھروں کی راکھ بے یار و مددگار مہاجرین کیمپوں میں تڑپتی زندگیوں اور شرمسار ہوتی انسانیت کے خلاف ایک نے بھی صدائے احتجاج بلند کرنا ضروری نہیں سمجھا اور سب کی زبانوں پہ مصلحت کے ایسے قفل چڑھ گئے کہ حلق سے آواز تک نہیں نکلی، جب ہماری سیاسی نمائندگی پہ ایسی بے حسی اور ضمیر فروشی چھاجائے گی تو پچاس ساٹھ کیا سو دو سو ممبران بھی اگر اسمبلی میں پہونچ جائے تو بحیثیتِ مجموعی قوم کی پسماندگی اور احساسِ کمتری دور ہونے والی نہیں ہے، اور نہ ہی جان مال، عزت و آبرو اور مذہبی تشخص کو امان ملےگی
جب تک اپنی سیاسی طاقت نہیں ہو گی انکاؤنٹر میں مارے جائیں گے فسادات میں جلائے جائیں گے، سرکاری اداروں کی تنگ نظری میں جھلسائے جائیں گے تعلیم گاہوں میں دھتکارے جائیں گے اور تو اور عقیدہ اور عبادات کو لیکر مطعون کئے جائیں گے اور پھٹکارے جائیں گے دہشت گردی کے الزام میں گھروں سے اٹھا لئے جائیں گے۔
سیاسی بصیرت رکھنے والے کچھ مفکرین کی رائے ہے کہ ملی جماعتوں کا ایک متحدہ گروپ قائم ہو اور یہ گروپ کسی سیاسی جماعت سے اتحاد کر کے اپنی پسند کے مسلم ممبران کو میدان میں اتارے اور اس طرح منتخب ہو نے والے ممبران مذکورہ متحدہ گروپ کی حکمتِ عملی کے تحت کام کرنے کے مجاز ہوں گے اس طرح قوم کی بکھری ہوئی سیاسی طاقت متحد ہو کر قوم کے حق میں نفع بخش ہوگی، لیکن ملی قیادت آج تک اس طرح کا ایک بھی قدم نہیں اٹھا پائی … شاید اس ڈر سے کہ اس کے اس طرح کے اقدامات سے ان کی جماعت اور تنظیم پر سیاسی لیول لگ جائے گا اور ان کی مذہبی شخصیت پر سیاست کی گرد چڑھ جائےگی اگر یہی چیز مانع ہے تو یہ بات تو سیکولر وادیوں کی حمایت اور بی جے پی کی مخالفت والے بیانات پر بھی صادق آتی ہے اس وقت کیوں آپ کو سیاسی ہو نے کا خطرہ نہیں رہتا، ملی قیادت جب تک ہوش کے ناخن نہیں لے گی سیاسی پارٹیاں بھی ان کے ساتھ فریب دہی کا معاملہ کرتی رہیں گی اور عام مسلمان بھی مجبوری و لاچاری کی چکی میں پستا رہے گا اور اس کی زندگی میں اندھیرا ہی اندھیرا رہے گا۔