حجاب پر کیرالہ ہائی کورٹ اور کرناٹکا ہائی کورٹ کا الگ الگ فیصلہ؟

کیرالہ ہائی کورٹ کا حجاب سے متعلق فیصلہ نظیر بنائے جانے کے قابل ہے، اور یہ بھی کہ حجاب کے مسئلہ میں جوڈیشری کیسے کام کرے بہت عمدہ ہے ۔حجاب کو لیکر کیرالہ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا ” حجاب پہنے کے لیے کے لیے اتنا کافی ہے مسلمانوں کے سماج کا ایک حصہ حجاب کو اسلام کا لازمی جز سمجھتا ہے اور اس پر عمل بھی کرتا ہے” لہذا بجائے اس کے معاملے میں شدت اختیار کیا جائے وسعت کے ساتھ کورٹ یہ کہتا ہے کہ حجاب پہنے کی آزادی ان کو حاصل ہو، لیکن اس میں دوسرے اسلامک نظریے بھی ہیں، اس پر بحث کرتے ہوے کرناٹکا ہائی کورٹ نے کہا ۔چونکہ کیرالہ ہائی کورٹ نے کہا ہے دوسری انڈر اسٹینڈنگ اور نظریہ بھی ہے تو ہم دوسرے نظریہ کی طرف جائیں گے ۔۔۔۔

کرناٹکا ہائی کورٹ کا صاف لفظوں میں یہ کہنا بتاتا ہے. کہ فیصلہ سے پہلے ججز نے اپنا رخ صاف کردیا تھا کہ وہ حجاب مخالف فیصلہ سنائیں گے یہ بہت افسوس ناک ہے. پھر ایسے کیسیز میں نہایت آسان اور سادہ سا اصول ہے کہ آپ فیصلے کے لیے کس طرح کی دلیل کا انتخاب کرتے ہیں، عدالت ہمیشہ ایسی دلیل پر اپنے فیصلے کی مہر لگاتی ہے جو وسعت کے ساتھ مسئلوں کو دیکھتی ہو نہ کی اس دلیل پر فیصلہ سنائے جس میں وسعت کے بجائے تنگی ہو، لیکن کرناٹکا ہائی کورٹ جان بوجھ کر ایسی دلیل پر مہر ثبت کردی جو عدالتی اصولوں کے خلاف ہے. کیرالہ ہائی کورٹ نے یہ بھی کہاتھا کہ حجاب سے متعلق دوسرا نظریہ بھی ہوسکتا ہے ۔ لیکن وہ عدالت کے لیے اہم نہیں ہے ۔۔ کیرالہ ہائی کورٹ لے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ کون سی چیز اسلام کا لازمی حصہ ہے اور کون سی چیز نہیں ہے یہ عدالت کا سوال سرے سے نہیں ہے ۔

اب کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو دیکھیں ۔سوال یہ ہے کیا یہ عدالتی فیصلہ ہے؟ یا جہاں مسلمان اپنے معاشتری مسائل اور حلال و حرام کے فیصلے دار الافتاء سے حاصل کرتے ہیں اب یہ کام کورٹ کر رہا ہے. کیا کورٹ بتائے گا کہ کون سی چیز اسلام کا لازمی جز ہے یا نہیں ؟

یہ فیصلہ یکطرفہ ہے ۔

 مسٰلہ کا اہم پہلو یہ ہے۔کہ اگر مسلمان بڑے پیمانے پر عدالتی فیصلے کے خلاف سڑکوں پر آتے ہیں تو ہندووادی سیاست کو نفرتی کھیل کھیلنے کا نیا، موقع فراہم ہوگا اور نئی دھار ملے گی ۔

اسی طرح اگر اس کے خلاف مسلمان سڑکوں پر نہ آئیں تب بھی اس فیصلہ کو نظیر بنا کر مزید مسلم خواتین/ اور لڑکیوں کو جگہ جگہ پریشان کیا جائے گا، میرا خیال یہ ہے کہ مسئلے کا دورس حل سے پہلے فوری ایکشن یہ ہوسکتا ہے کہ سیکڑوں پٹیشن سپریم کورٹ میں ایک ساتھ فائل کیے جائیں.اور خاموشی کے ساتھ کیس لڑا جائے اسی طرح اب کسی بھی نئے حجاب ڈسکرمنیشن کے خلاف مل۔گیر سطح پر ایف آئی آر کے ساتھ بھر پور لڑائی لیے تیار رہنا چاہیے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com