عبدالحمید نعمانی
کوئی کچھ بھی کرلے، مسلم اور دلت ، آدی واسی ، ہندستانی سیاست اور سماج میں قابل ذکر وجود رہیں گے ، گرچہ کوشش کی جارہی ہے کہ کم ازکم مسلمانوں کا رول جمہوری نظام میں بالکل ختم اور غیر مؤثر ہوکر رہ جائے، وشو ہند و پریشد کے آں جہانی اشوک سنگھل اور شیو سینا کے بال ٹھاکرے وغیرہ تو کھلے عام اس کا اظہار کرکے اس دنیا سے چلے گئے ، آئین ہند اور جمہوری نظام و قانون جاری رہتے ہوئے عملا ایسا ممکن نہیں ہوگا، مسلمانوں کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے، لیکن دلتوں اور آدی واسیوں کی حالت اور آبادی کے مد نظر انتخابی نظام اور سماجی سرگرمیوں کو ختم کردینا آسان نہیں ہوگا، اسی لیے اکثریتی سماج کی طرف سے مختلف طریقوں سے اپنے ساتھ لانے اور رکھنے کا سلسلہ گذشتہ ۸۰، ۹۰ برسوں سے جاری ہے ، اس کا کسی نہ کسی درجہ میں دلتوں کو اقتصادی مادی فوائد بھی ملے ہیں ، البتہ سماجی و تہذیبی سطح پر کوئی زیادہ بہتر تبدیلی پیدا نہیں ہوسکی ہے،اس کی ایسی بہت سی وجوہ ہیں ، جن کا سنجیدہ مطالعہ اور تجزیہ کرکے حقائق کو تسلیم کرنا، کرانا اور انصاف و مساوات کی فراہمی کا رستہ ہموار کرنا پڑے گا، ریزرویشن اس سمت میں ایک بڑا قدم ہے ، لیکن اس کے دائرے کو کتنا وسیع کیا جاسکتا ہے؟ دوسرے طبقات اور مذہبی اکائیوں کی مختلف برادریوں کو بھی کئی طرح کے مسائل و مشکلات کا سامنا ہے، ان کا تعلق اصلا اقتصادی مسئلے سے ہے، جب کہ دلتوں ، آدی واسیوں کے ساتھ ،کچھ محنت کش مسلم برادریوں کا معاملہ ، اقتصادی کے ساتھ ساتھ سماجی و تہذیبی وقار و ترقی سے بھی جڑا ہوا ہے، اس سلسلے کو جب تک دلت اور مسلم قیادت سمجھ کر حکمت عملی نہیں بنائے گی ، اور اس کے مطابق ضروری اقدامات نہیں کیے جائیں گے ، تب تک نہ تو صحیح اثرات و نتائج سامنے آئیں گے اور نہ ہی بہتر تبدیلیوں کی توقع کی جاسکتی ہے،اس سلسلے میں دلتوں اور آدی واسیوں کو اکثریتی سماج کی طرف سے مختلف قسم کی مزاحمتوں اور مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑے گا، مسلم سماج کی طرف سے امکان کے درجے میں کسی طرح کی مزاحمت کا سرے سے تصور ہی نہیں ہے، مگر ان کو عام طور پر فرقہ وارانہ فسادات اور دیگر مواقع پر مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے، گجرات فساد میں دلتوں آدی واسیوں کو استعمال کیا گیا تھا، گزشتہ کچھ سال پہلے دہلی کے فساد میں بھی ایسا ہوا تھا، اس تعلق سے یہ بات خوش آئند ہے کہ دلتوں، آدی واسیوں کی ایک بڑی تعداداب یہ دیکھنے لگی ہے کہ ہمیں غلط طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔
آئندہ ہمیں استعمال نہیں ہونا ہے،اگر دلت مسلم لیڈر سنجیدگی سے اس سمت میں پیش قدمی کریں گے تو اس میں مزید بہتری آسکتی ہے، بنیادی ذمہ داری مسلم قیادت کی ہے کہ وہ مؤثر مذہبی نظریات پر مبنی اخلاقی اور سماجی نظام کا بہتر مثالی نمونوں کے ساتھ پس ماندہ سماج میں کام کرکے حالات کو بہتر بنائے، ایسا کرنا ، سیاسی سے زیادہ ، تہذیبی و سماجی اقدار پر مبنی و منحصر ہے، لیکن اب تک سیاسی حصہ داری کے تناظر میں زیادہ تر جدوجہد کی جاتی رہی ہے،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اپنی حصہ داری اور نمائندگی کے لیے ، مؤثر ترین راستہ سیاست کا ہے، تاہم اس میں پائداری زیادہ نہیں ہے ، اس کے لیے لازما مذہبی و اخلاقی اقدار کے پیش نظر تہذیبی و سماجی بنیادوں پر زیادہ توجہ مبذول کرنی ہوگی، اس پہلو پر چاہے، بابا جیوتی با پھولے ہوں یا بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کر اور پیری یار وغیرھم نے بھی پوری توجہ دی ہے،بعد کے دلت لیڈروں بابو جگ جیون رام، کرپوری ٹھاکر، کانشی رام ، مایاوتی، جیتن رام مانجھی، رام ولاس پاسوان، ادت راج ہوں یا پھر رام اٹھاولے وغیرہم نے سیاسی ذرائع کو یقیناًاختیار کیا ہے، لیکن سب کی جدوجہد میں مذہبی و روایتی بنیاد پیش نظر ضرور رہی ہے، رام اٹھاولے کی طرف سے مایاوتی کے سامنے بدھ مت کو قبول کرنے کی تجویز اور مایاوتی کی طرف سے اسے قبول کرنے کی یقین دہانی اس با ت کا واضح اشارہ ہے کہ جڑ میں اصل کون سی باتیں ہیں، لیکن ان کو طاقتور زبان ابھی تک نہیں ملی ہے،مسلم سماج اور اس کی قیادت اس سلسلے میں ایک اہم رول ادا کرسکتی ہے ، یہ صحیح ہے کہ ایسا ایک حد تک ہی ہوگا، ہندستانی سماج کی تشکیل ایک ایسے نہج پر ہوئی ہے کہ اس میں مذہبی روایتی بنیاد پر قائم نظام جات پات سے پرے جاکر ، مساوی و منصفانہ جگہ ملنا آسان نہیں ہے، ریزرویشن کی گنجائش اور کمزور طبقات و درجات والوں کے لیے ایک انتخابی حلقے کا مطالبہ اپنے لیے جگہ نکالنے کی کوششوں کا ہی حصہ ہے،یہ واقف حال اور سیاسی تاریخ کے طالب علموں سے یہ پوشیدہ نہیں ہے کہ ۱۹۱۹ میں ہندستانی سرکاری ایکٹ تیار کرنے والی بورڈ و کمیٹی کے سامنے گواہی دینے کے لیے جب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کر بلایا گیا تھا تو انھوں نے سماعت کے دوران دلتوں اور دیگر مذہبی اکائیوں کے لیے الگ انتخابی حلقہ جات اورریزرویشن کا مطالبہ کیا تھا ، اس پر سخت رد عمل کے ساتھ ان کی بڑی مذمت کرتے ہوئے الزام لگایا گیا تھا کہ وہ ہندستانی قومیت اور اتحاد کو ختم کردینا چاہتے ہیں، بعد کے دنوں میں یہ ثابت ہوگیا کہ ڈاکٹر امبیڈ کر اپنے مطالبات کے ذریعے دلتوں وغیرہ کے لیے سماج میں جگہ بنانے کے ساتھ ، اکثریتی سماج کے جات پات کے نظام میں بڑی تبدیلی اور اس کے لیے ان لوگوں میں سنجیدگی پیدا کرنا چاہتے ہیں،جو اس میں پلے بڑھے ہیں ، اس سلسلے میں یہ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ بابا صاحب اپنے مقاصد میں بہت حد تک کامیاب رہے، یہ ہندستان جیسے ملک میں بڑا انقلاب تھا ، جس نے دلتوں ، آدی واسیوں اور دیگر کمزور طبقات کے لیے آگے کا راستہ کھولنے کا کام کیا،اگر پسماندہ درجات و طبقات کے لیڈر مقاصد و اغراض کو شخصی برتری پر ترجیح دیتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھتے ، تو اب تک حالات کچھ بدل چکے ہوتے۔یہ اہم ہے کہ پسماندہ طبقات و درجات کے ترقی یافتہ گھرانوں اور لیڈروں نے انصاف و مساوات کے مخالف نظام میں بہتر تبدیلی پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ، حاصل شخصی خاندانی برتری کو قائم رکھنے اور مزید اضافہ و استحکام میں لگادیا ، جس کی وجہ سے پارٹیوں میں تقسیم در تقسیم کا سلسلہ شروع ہوگیا، اور اشرافی و اقتداری طبقے اور ماضی کے جاری نظام کی حامی پارٹیوں کو اپنی گرفت از سر مضبوط کرنے کے سنہری مواقع مل گئے، یوپی، بہار جیسے صوبوں میں نتیش کمار اور مایاوتی وغیرھم نے اپنے گھر خاندان کے افراد کو سیاست سے دور رکھنے کی کوشش ضرور کی، لیکن لالو، ملائم، پاسوان وغیرھم ایسا نہیں کرسکے، جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں،یقینی طور پر اس میں عام رائے دہندگان میں بیداری کی کمی کا دخل ہے کہ وہ بھائی بھتیجا واد اور خاندانی نظام کو فروغ دے کر دیگر بے شمار مستحقین کے لیے ترقی اور آگے بڑھنے کی راہ میں دیواریں کھڑی کرنے میں معاون بن جاتے ہیں ، جب تک عام دلت ، آدی واسی اور مسلم عوام جمہوری اور انتخابی نظام کے تئیں سمجھ داری او ربیداری کا مظاہرہ کرکے چند گھرانوں اور جاتوں کو فائدہ پہنچانے والے نظام کو توڑ نہیں ڈالیں گے، تب تک بہتر تبدیلی اور ملک کے وسائل حیات میں منصفانہ حصہ داری کی توقع محض خوش فہمی ہوگی، بیداری و سمجھ داری کا آغاز، آنے والے پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات سے ہی کردینا چاہیے، یہ جاننا سمجھنا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے کہ کون سیاست کے ذریعے عوام کی خدمت و ترقی کرنا چاہتے ہیں ، اور کون پورے یا بڑی تعداد میں اپنے گھر، خاندان کے افراد کو سیاست میں لاکر شخصی و خاندانی تفوق و برتری چاہتے ہیں ، دوسری شکل میں خاندان سے باہر، انتخابات میں پارٹی کے کامیاب ہونے والے افراد ایسے، کوئی زیادہ مؤثر و کارگر نہیں رہ جاتے ہیں کہ ملک و قوم اور رائے دہندگان کے لیے کوئی قابل ذکر خدمات انجام دے سکیں، ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں سیاسی و سماجی لحاظ سے رائے دہندہ عوام میں بڑی ذہنی تبدیلی و تطہیر کی ضرورت ہے، خاص طور سے دلتوں ، آدی واسیوں اور مسلم عوام میں ۔(ملت ٹائمز)