یوم شہادت حضرت عثمانؓ کے موقع پر جامعہ محمودیہ اشرف العلوم میں جلسہ فضیلت حضرت عثمان غنیؓ کا انعقاد
کانپور: مشرقی اتر پردیش کی عظیم دینی و تربیتی درسگاہ جامعہ محمودیہ اشرف العلوم جامع مسجد اشرف آباد میں خلیفہ سوم حضرت عثمان غنیؓ کے یوم شہادت کے موقع پر جلسہ فضیلت حضرت عثمان غنیؓ کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر ناظم جامعہ و جمعیۃ علماء کے ریاستی نائب صدر مولانا امین الحق عبد اللہ قاسمی نے حضرت عثمان غنیؓ کے فضیلت و قربانیوں سے واقف کراتے ہوئے ان کی یوم وفات کے موقع پر شہر و اطراف شہر میں منعقد ہونے اجلاس کے مقاصد سے روبرو کرایا۔
ادارہ کے ناظم تعلیمات مولانا مفتی سید محمد عثمان قاسمی نے حضرت عثمان بن عفان ؓ کی ولادت سے لے کر اسلام قبول کرنے، قبول اسلام کے بعد خلافت سے پہلے تک پھر دور خلافت اور شہادت کے بارے میں تفصیل سے روبرو کراتے ہوئے کہا کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت رسول اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت کے 6 برس بعد مکہ مکرمہ میں قبیلہ قریش میں ہوئی، والد کا نام عفان اور والدہ کا نام ارویٰ تھا۔ آپ کا نسبِ مبارک پانچویں پشت پر نبی اکرم ﷺ کے نسبِ مبارک سے ملتا ہے۔ آپؓ اسلام سے قبل قریش کے باعزت لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ آپؓ نے اسلام سے قبل بھی کبھی بت پرستی نہیں کی اور شراب نہیں پی۔انہوں نے بتایا کہ حضرت عثمان غنیؓ نے قبولِ اسلام مکہ مکرمہ ہی میں بالکل ابتدائی دور میں فرمایا۔ جب نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو آپؓ مدینہ منورہ آ گئے اور وفات تک مدینہ منورہ میں رہے۔آپ ؓکے نکاح میں رسولِ اکرم ﷺ کی دو صاحبزادیاں آئیں، اِس لیے آپ کا لقب ”ذوالنورین“ (دو نور والا) ہے۔ آپؓ بڑے صاحبِ ثروت اور نہایت فیّاض و سخی تھے، صدقہ و خیرات بے انتہاء کیا کرتے اور ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتے۔ اسلام اور مسلمانوں کی مدد اور تقویت کیلئے آپ نے بے تحاشا مال خرچ کیا۔ مدینہ منورہ میں میٹھے پانی کا ایک کنواں تھا جس کا مالک یہودی تھا، آپ نے وہ کنواں خرید کر اللہ کی راہ میں وقف کر دیا۔ مسجد نبوی ؐکے قریب کی زمین خرید کر مسجدنبویؐ میں شامل فرما دی، مسجد نبویؐ کی اولین توسیع اسی زمین پر ہوئی۔ہجرت کے 24 ویں برس سیدنا عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آپؓ خلافت کے منصب پر فائز ہوئے، آپ کے ہاتھوں پر متفقہ بیعت کی گئی، بارہ سال بارہ دن کی مدت آپؓ امیر المؤمنین کے منصب پر جلوہ افروز رہے۔ آپؓ کے دورِ خلافت میں امت کو قرآنِ کریم کے ایک رسم الخط پر جمع کرنے کا کارنامہ انجام دیا گیا جسے ”رسمِ عثمانی“ کہا جاتا ہے۔
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بارے میں بات کرتے ہوئے مفتی عثمان قاسمی نے کہا کہ مصر کے تقریباً سات سو لوگ اپنے گورنر سے متعلق شکایت لے کر سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تھے، آپؓ نے اُن کی شکایت کا ازالہ کرتے ہوئے گورنر کو معزول کرنے کا فرمان اُنہیں دے دیا، مگر اُن لوگوں کو مصر واپس جاتے ہوئے راستے میں کوئی غلام ملا جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی مہر لگا ہوا ایک جعلی خط ساتھ لے جا رہا تھا، وہ لوگ اُس خط سے بہت زیادہ مشتعل ہو کر مدینہ منورہ واپس آئے، سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور اُن پر پانی بند کر دیا۔ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے اپنے فرزندان سیدنا حسن ابن علی و سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت کے لیے تلوار لے کر دروازے پر کھڑا کر دیا، حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما نے بھی اپنے بیٹوں کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت پر مامور فرمایا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ گھر کے بالاخانے پر تشریف لا کر لوگوں کو مخاطَب فرماتے تھے۔ آپ سے کہا گیا کہ حکم کیجیے ان باغیوں کو تہِ تیغ کر دیا جائے، آپ نے فرمایا: میں نہیں پسند کرتا میرے حکم سے لا الہ الا اللہ پڑھنے والے کا خون بہایا جائے، لوگوں نے کہا پھر آپ خلافت سے سبکدوش ہو جائیں، آپ نے فرمایا: یہ بھی نہیں کر سکتا کیونکہ رسول اکرم ﷺ نے مجھ سے کہا تھا، اے عثمان! اللہ تم کو ایک قمیص پہنائے گا، لوگ اُس کو اتارنا چاہیں گے، اگر تم نے لوگوں کے کہنے سے اس کو اتار دیا تو جنت کی خوشبو تم کو نصیب نہ ہو گی۔ لوگوں نے کہا: پھر آپ کو اس ظلم سے نجات کیسے ملے؟ آپ نے فرمایا: نجات قریب ہے، آج میں نے رسول اکرم ﷺ کو خواب میں دیکھا ہے، آپؐ فرما رہے ہیں: اے عثمان! آج افطار ہمارے ساتھ کرنا! آج میں نے روزہ رکھا اور انشاء اللہ افطار کے وقت رسول اکرم ﷺ کے پاس پہنچ جاؤں گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
باغیوں نے پہلے تو تیر اندازی کی جس میں سیدنا حسن ابن علی رضی اللہ عنہ خون میں نہا گئے، پھر اُن میں سے چند لوگ خاموشی سے پشت کی دیوار پھاند کر اندر داخل ہو گئے اور 18ذوالحجہ سن 35ھجری میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ جب آپ ؓکی زوجہ حضرت نائلہ رضی اللہ عنہا نے بالاخانے پر آ کر پکارا کہ اے لوگوں! امیرالمومنین شہید ہو گئے! تب لوگ اندر پہنچے اور قاتلین پشت کی دیوار سے فرار ہو گئے۔ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوں کو مارا اور کہا: تم دونوں دروازے پر کھڑے رہے اور امیرالمومنین شہید ہو گئے؟ اُنہوں نے بتلایا کہ قاتلین دروازے کے بجائے مکان کی پشت سے اندر گئے تھے۔ آپؓ کو جس وقت شہید کیا گیا آپ ؓقرآن پاک کی تلاوت فرما رہے تھے۔آخر میں مولانا نے کہا کہ ہماری دعاء ہونی چاہئے کہ اللہ رب العزت ہم سب کو امیر المؤمنین سیدنا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ و جملہ صحابہ کرامؓ کی عزت اور ناموس کے تحفظ کیلئے قبول فرمائے۔اس سے قبل جلسہ کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ نظامت کے فرائض مولانا امین الحق عبد اللہ قاسمی نے انجام دئے۔ حافظ محمد مسعود نے نعت و منقبت کا نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ جلسہ میں کثیر تعداد میں مقامی عوام و جامعہ کے اساتذہ و طلباء موجود تھے۔






