یوم عاشوراء کی فضیلت اور محرم میں کی جانے والی خرافات و بدعات

مفتی محمد جمال الدین قاسمی

(رکن آل انڈیا ملی کونسل بہار)

کائنات ہنستی میں انعامات خداوند ی کا حساب وشمار نہیں عالم کا ذرہ ذرہ اور دنیا کا چپہ چپہ اس کی رحمت وعنایت کا مظہر ہے،اس کے لامتناہی احسانات میں ایک عظیم احسان یہ بھی ہے کہ اس نے بندوں کے روحانی ارتقاء کے لیے خیرات وحسنا ت کے لئے ایسے موسم عطا کیے،جس کا ہم کما حقہ شکریہ ادا نہیں کر سکتے۔

 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ محرم کا ہے جو اللہ کا مہینہ ہے اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل تہجد کی نماز ہے۔ (مسلم)

تشریح: محرم کا مہینہ نہایت ھی عظمت وتقد س کا حامل مہینہ ہے، قرآن کریم میں جن چار مہینوں کو محترم مہینہ قرار دیا گیا ہے،ان میں سے ایک محرم  ہے،باقی تین ذی قعدہ،ذی الحجہ اور رجب ہیں۔اسلامی سال کا آغاز بھی محرم کے مہینہ سے ہوتا ہے۔قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں مختلف پہلوؤں اور حیثیتوں سے اس مہینہ کی عظمت و تقدس کا ذکر موجود ہے،مندرجہ بالا حدیث سے بھی اس مہینہ کی فضیلت اور عظمت واضح ہوتی ہے.اس میں بتایا گیا ہے کہ محرم کا مہینہ اللہ کا مہینہ ہے،اللہ کا مہینہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کو خصوصی شرف اور حیثیت عطا فرمائی ہے۔اسی حدیث میں اس مہینہ کے تعلق سے یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ رمضان کے روزوں کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والا روزہ محرم کے مہینہ کا روزہ ہے.چنانچہ اس مہینہ کی کسی بھی تاریخ اور کسی بھی دن روزہ رکھنا رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل روزہ شمار ہوگا،ترمذی شریف میں ہے کہ ایک صاحب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اگر میں رمضان کے علاوہ کسی اور مہینہ میں روزہ رکھنا چاہوں تو آپ میرے لئے کونسا مہینہ تجویز فرمائیں گے،تو:آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”محرم کا مہینہ، کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے، اس میں ایک دن ایسا ہے کہ جس میں اللہ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی،اور ایک قوم کی توبہ(آئندہ بھی)قبول فرمائیں گے” یہ مہینہ تو اپنی جگہ پرمقدس و محترم ہے ہی،اس مہینہ کی دسویں تاریخ یعنی عاشورا بھی نہایت متبرک اور مہتم باالشان دن ہے.اس دن کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:ان  عاشوراء یوم من ایام اللہ” عاشورا اللہ تعالیٰ کے دنوں میں سے ایک (باعظمت) دن ہے” (مسلم) رمضان کا روزہ فرض ہونے سے پہلے عاشوراء کا روزہ فرض تھا۔اس کے بعد آپ نے اختیار دے دیا کہ جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کامعمول عاشوراء کا روزہ رکھنے کا تھا.آپ کے ارشاد کی روشنی میں یہودیوں کی مشابہت سے بچنے کے لیے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عاشوراء کے ساتھ ایک دن یعنی 9 یا 11 محرم کا مزید روزہ رکھنے کا اہتمام کیا،اس لئے اس موقع پر اسی طرح دو روزے رکھناچاہئے، یہی مستحب ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشوراء کے روزے کے متعلق دریافت کیا گیا،تو آپ  نے ارشاد فرمایا: عاشوراء کا روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ (مسلم)

علامہ نوی رح فرماتے ہیں کہ نفلی روزے رکھنے کے لئے افضل ترین مہینہ محرم ہے،اس میں عاشوراء اور اس کے علاوہ محرم کے دوسرے ایام کے روزے بھی داخل ہیں؛ ۔ (شرح مسلم للنووی)

یہ فضیلت ماہ محرم کے تمام روزوں کو شامل ہے،لہذا اگر اللہ تعالیٰ توفیق دیں تو اس پورے مہینے کے روزے رکھیں،یا اس کی ہر پیر اور جمعرات کو روزہ رکھیں۔

یوم عاشوراء سے متعلق ایک بات ذہن میں رکھیں کیاس دن روزہ رکھنے کے علاوہ اپنے اہل و عیال پر کھانے پینے یاکسی بھی اعتبار سے وسعت و فراخی بھی روایات سے ثابت ہے، جو گرچہ فرض وواجب نہیں ہے، مگر مستحسن ہے کہ اس طرح کرلیا جائے،چنانچہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ،حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ،حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ، حضرت جابر رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا فرمایا: اللہ تعالیٰ سا را سال اس پر (رزق) میں وسعت مائیں گے،(شعب الایمان والبیھقی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل وعیال کے لئے دسترخوان وسیع کرتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کو سال بھر وسعت دیں گے۔

پیران پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ”غنیتہ الطالبین”میں ایک حدیث نقل کیا ہے کہ ماہ ذی الحجہ کے آخری دن اور ماہ محرم الحرام پہلے دن روزہ رکھا یہ ایسا ہی ہے کہ گویا اس نے گزشتہ سال کو روزہ پر ختم کیا اور آئندہ اس آنے والے سال کو بھی روزہ پر شروع کیا،اللہ تعالیٰ اس روزے کو اس کے پچاس سال کے روزوں کا کفارہ بنا دیا، اگر کوئی شخص عاشورہ کے دن کسی یتیم پر شفقت سے ہاتھ پھیرا تو اللہ تعالیٰ اس یتیم کے سر کے ہرہر بال کے عوض جنت میں اس کا درجہ بلند فرمائے گا،اور جس شخص نے عاشورہ کی شام کو روزہ دار کو افطار کرایا تو گویا اس نے اپنی طرف سے سا ری امت محمدیہ کو افطار کرایا،اللہ تعالیٰ نے یوم عاشورہ کو تمام ایا م پر فوقیت وفضیلت بخشی ہے،حضرت سفیا ن ثور ی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص یوم عاشورہ کو آٹھ رکعات نماز پڑھے اللہ تعالیٰ اس نماز کے پڑھنے والے کو بے حد ثواب عطا فرماتاہے،آپ مزید فرماتے ہیں کہ ہمیں اس نماز کا پچاس سالہ تجربہ ہے، اسی طرح ماہ محرم الحرام کے پہلے دس دنوں میں روزہ رکھنے کی بھی بڑی فضیلت واہمیت ہے۔

عاشورہ کی وجہ تسمیہ

محرم الحرام کے دسویں دن کو عاشورہ کیوں کہا جاتا ھے؟ اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ چونکہ یہ ماہ محرم الحرام کا دسواں دن ھے، اور ایک وجہ یہ ہے کہ ”عشرۃ” عربی زبان میں دس کے گنتی کو کہتے ہیں،الغرض اس دن کے بارے میں مختلف اقوال ہے،بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس دن اللہ تعالی نے 10انبیاء کرام علیہم السلام کودس کراماتوں سے نوازا ہے،حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اور توبہ اسی دن قبول ہوئی،حضرت ادریس علیہ السلام کو مقام اعلیٰ اسی دن نصیب ہو ا، حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ ی پر اسی دن ٹھہر ی،حضرت داؤد علیہ السلام کی توبہ بھی اسی دن قبول ہوئی،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اسی دن آسمان پر اٹھا یا گیا،حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اسی دن فرعون سے نجات ملی اور فرعون بھی اسی دن غرق آب ہوا،حضرت یونس علیہ السلام اسی دن مچھلی کے پیٹ سے باہر آے،حضرت سلیمان علیہ السلام کو اسی دن بادشاہت ملی،ایک روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت بھی اسی دن ہوئی،حضرت ایوب علیہ السلام کو تکلیف دہ بیماری سے اسی دن شفا ملی،اسی طرح پہاڑوں سمندر وں اور لوح قلم کو بھی اسی دن پیدا فرمایا۔

 عاشورہ کے دن اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے پرہیز کریں

قر آن کریم میں جہاں پر حرمت والے مہینوں کا ذکرآیا ہے،اس جگہ پر ایک عجیب جملہ یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ” فلا تظلمو فیھن انفسکم”(سورہ توبہ)یعنی ان حرمت والے مہینوں میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو،ظلم کرنے سے مراد یہ ہے کہ ان مہینوں میں گناہوں سے بچیں،بدعات وخرافات اور منکرات سے بچیں، بہت سے اہل سنت حضرات بھی خرافات و بدعات میں برابر کے شریک نظر آتے ہیں۔یاد رہے ماہ محرم اور یوم عاشورہ کو خوشی یا غمی کے طور پر منانا بدعت اور گمراہی ہے،کیونکہ کتاب و سنت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں، اہل بیت، صحابہ کرام اور دیگر سلف صالحین سے بھی یہ عمل ثابت نھی ہے،قر آن کریم نے صاف اعلان کر دیا ہے کہ تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو،بلکہ ان اوقات کو اللہ تعالیٰ کی عبادت و ریاضت ذکر واذکار صدقات و خیرات خوب کثرت سے کرو،روزہ رکھنے میں،اور اللہ سے لو لگانے میں زیادہ سے زیادہ  وقت گزاریں، اسی طرح فسق وفجور،لڑاء،جھگڑا،قتل وغارت،فتنہ وفساد سے اپنے آپ کو بالکلیہ اجتناب کریں۔

مگر افسوس ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ جس کام کے لئے نکلے تھے،آج ہندوستان میں اس کے بالکل برعکس ہورہاہے،انہی کا تعزیہ،نوحہ، حلوہ،مالیدہ،کھچڑاچڑھاکر دین کو مسخ کیا جارہاہے،ڈھول،باجہ،ناچ،گانے اور زنجیری ماتم علم و تابوت وغیرہ کے غلط طریقہ رائج کیے گئے ہیں،جوکہ بالکل صحیح نہیں ہے۔

محرم میں تعزیہ بنانا اور لاٹھی کھیلنا کیسا ہے؟

محرم میں تعزیہ بنانا نیز حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے نام پر دیگر رسومات اور ماتم وغیرہ کرنا سب شرعاً ناجائز اور حرام ہے اور کسی مسلمان کے لئے اس میں شرکت بھی ناجائز اور حرام ہے۔تعزیہ کے ساتھ جو معاملات کیے جاتے ہیں،ان کا معصیت وبدعت بلکہ بعض کا قریب بہ کفر وشرک ہونا ظاہر ہے،اس لیے اس کا بنانا بلا شک ناجائز ہوگا اور چونکہ معصیت کی اعانت معصیت ہے،اس لیے اس میں باچھ یعنی چندہ دینا یا فرش وفروش وسامان روشنی سیاس میں شرکت کرنا سب ناجائز ہوگا اور بنانے والا اور اعانت کرنے والا دونوں گناہ گا ر ہوں گے۔ (امداد۔ج4ص 80)

دسویں محرم کو کھچڑا پکانا

بعض لوگ محرم کی دسویں تاریخ کو کھچڑا اپنے گھر وں میں خوب پکانے کا اہتمام کرتے ہیں،یہ بالکل ناجائز اور سخت گناہ ہے،البدایہ والنہایہ میں ہے کہ سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خوشی میں خوارج دسویں محرم کو مختلف اناج ملاکر پکاتے تھے۔

”فکانوا الی یوم عاشوراء یطبخون الحبوب” (البدایہ والنہایہ8/202) معلوم ہوا کہ اس دن کھچڑا پکانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے دشمنی رکھنے والوں کی اس رسم وبدعت سے بچنا نہایت ضروری ہے۔ (فتاویٰ رشیدیہ138خیر الفتاویٰ1/558)

ایصال ثواب کے لئے کھانا پکانا

  بعض حضرات محرم کے مہینے میں خصوصاً نویں، دسویں، گیارہویں،تاریخ میں خوب لوگوں کو کھانا پکاکر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی روح کو ایصالِ ثواب کرتے ہیں،یہ طریقہ بھی بالکل غلط اور کء قباحتوں کا مجموعہ ہے۔

اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے تمام امت مسلمہ کو تمام تر خرا فات وبدعات سے بچائیں اور اپنی رضا کے مطابق اس دن کو گزار نے کی توفیق عنایت فرمائیں۔آمین یارب العالمین۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com