اگر پی ایف آئی پر پابندی تو آرایس ایس، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، ہندو یوا واہنی پر کیوں نہیں؟ بیداری کارواں
دربھنگہ: (پریس ریلیز) اس وقت ملک کے حالات بدسے بدتر ہوچکے ہیں۔ ہرچہارجانب مذہب اسلام اور مسلمانوں پر سیاسی حملہ جاری ہے۔ ساری سیکولر پارٹیاں صرف اپنے ووٹ بینک کو دیکھ رہی ہے۔ کسی کی بھی زبان مسلمانوں پرڈھائے جارہے ظلم و تشدد پر کھل نہیں رہی ہے۔اب جبکہ بھاجپا کو 2024 کا انتخاب جیتنا ہے تو اس نے ایک الگ مدعا کھڑا کردیا ہے وہ ہے پی ایف آئی۔ مرکزی حکومت کہتی ہے کہ پی ایف آئی ملک میں مسلمانوں کی حکومت بنانے کیلئے کام کررہی ہے۔ ملک کے خلاف مسلمانوں کے بیچ جاکر مہم چلارہی ہے۔ سمی جیسی تنظیموں سے پی ایف آئی کا تال میل ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ سارے الزامات صرف بھاجپا اور میڈیا کی جانب سے لگائے جارہے ہیں۔ حکومت نے بھلے ہی پانچ سالوں کے لئے پی ایف آئی سمیت دیگر سات تنظیموں پر پابندی عائد کردی ہے کہ لیکن اب تک کوئی ٹھوس ثبوت حکومت پیش نہیں کرپائی ہے۔ امیت شاہ کے محکمے سے جو پابندی کیلئے لیٹر جاری کیا گیا ہے اس میں بہت سارے الزمات لگائے گئے ہیں جس کے شواہد عوام تلاش رہی ہے۔ مذکورہ باتوں کا اظہارخیال کرتے ہوئے بیداری کارواں کے قومی صدرنظرعالم نے کہا کہ ایسا معلوم پڑتا ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلم تنظیموں اور مسلمانوں کو بدنام کر مرکز کی مودی۔شاہ حکومت 2024 کا انتخاب جیتنے کیلئے یہ سب کررہی ہے تاکہ ہندو اکثریتی طبقہ کا ووٹ حاصل کر 2024 میں اقتدار میں بھاجپا آجائے۔ نظرعالم نے کہا کہ ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ جب جب ملک میں اس طرح کی حکومت آئی ہے کبھی بابری مسجد، تین طلاق، شاہ بانو، دہشت گردی، مآب لنچنگ تو کبھی دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری، تو کبھی مسلم تنظیموں کو دہشت گرد بتاکر ملک کا ماحول خراب کیا جاتا رہا ہے اورہندواکثریت کو گمراہ کرکے اپنا سیاسی روٹی سینکی جاتی رہی ہے۔ مسلمان اسی سب سے خود کو بچاتے بچاتے آج اس دہانے پرپہنچ گیا ہے کہ نہ تو ان کی کوئی آواز پارلیامنٹ میں بچی ہے اور نہ ہی اسمبلی میں سوائے اے آئی ایم آئی ایم کے بیرسٹر اسدالدین اویسی اور ان کے لیڈران کے۔ نظرعالم نے کہا کہ میں ڈنکے کی چوٹ پہ کہتا ہوں کہ ہم نے جن پارٹیوں کو بھی 70 سالوں سے ووٹ دیا سب کے سب فرضی سیکولر اور مسلم سیاست کو ختم کرنے کی مہم پر کام کررہے ہیں۔ ان سبھی کو مسلمانوں کاووٹ تو چاہئے لیکن ان کے بچے نہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بنیں، نہ اعلیٰ عہدوں پر نوکری کریں اور نہ ہی لیڈر بنیں۔بس صرف ان پارٹیوں کو ووٹ دیتے رہئے یہ بھاجپا سے آپ کو بچانے کا مالا جپتے رہیں گے۔ اورہم ایسی پارٹیوں اور لیڈران کے بہکاوے میں آج بھی ہیں۔ کوئی نیتا بیان دیا اس کو سوشل میڈیا پراتنا وائرل کردیتے ہیں کہ وہ اپنی سیاسی دکان چلانے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور مسلمانوں کے مسائل جوں کا توں پڑا رہ جاتا ہے۔ نظرعالم نے پی ایف آئی اور دیگر تنظیموں پر کارروائی کوغلط ٹھہرایا اور کہا کہ حکومت اور جانچ ایجنسیوں کو چاہئے کہ ایمانداری سے جانچ کریں اور جو بھی الزامات لگائے وہ کورٹ میں یاعوام کے سامنے پیش کرے تاکہ عوام کو لگے کہ بھارت کا آئین اور جمہوریت آج بھی بچا ہواہے۔نظرعالم نے یہ بھی کہا کہ اگر حکومت اور جانچ ایجنسیوں کو لگتا ہے کہ واقعی پی ایف آئی جیسی تنظیمیں ملک کیلئے خطرہ ہے تو پھرآر ایس ایس، وشو ہندوپریشد، بجرنگ دل، ہندو یوا وہنی جیسی شرپسند اور ملک دشمن تنظیموں پر بھی فوراً پابندی عائد کر اس سے جڑے لوگوں کو جیل میں ڈالا جائے۔ کیوں کہ ماضی میں آر ایس ایس جیسی تنظیموں پر پابندیاں لگائی جاچکی ہیں۔ اگرایسا نہیں کیا جاتا ہے توملک میں نہ توانصاف ہوپائے گا اور نہ ہی ملک کا آئین بچ پائے گا۔نظرعالم یہ بھی کہا کہ پی ایف آئی ہویا ایسی کوئی بھی تنظیمیں سبھی کو ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے اور آئین کے دائرے میں کام کرنا چاہئے۔ ہرگز ایسا کوئی کام نہ کریجس سے حکومت، انتظامیہ اور ملک کی عوام کولگے کہ فلاں تنظیم ملک مخالف کام کررہی ہے۔نظرعالم نے تمام مذہبی، ملی و سماجی تنظیموں کے رہنماؤں پر بھی زوردار حملہ بولا اور کہا کہ سبھی کوحکومت اور لیڈران کی چاپلوسی چھوڑ کر کچھ اُمت مسلمہ اور ملک میں ہورہے مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے لئے بھی کھل کر عملی میدان میں آنے کی ضرورت ہے۔ صرف چندہ بٹورکر اُردو اخبار میں بیان دینے اور مسجد کے ممبر سے اعلان کر موٹی رقم اگاہی سے ملت کا بھلا ہونے والا نہیں ہے۔ آج بھی کثیرتعداد میں ہمارے نوجوان بے گناہی کی سزا جیلوں میں برسوں سے کاٹ رہے ہیں جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اس پر بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ نظرعالم نے اپنے نوجوانوں سے بھی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر بے تکی بیان بازی اور آئین کے خلاف کوئی بھی عمل کرنے سے نوجوان خودکوپرہیز کریں، روزگار سے جڑیں اور اپنے بچے اور اہل خانہ کو مضبوط بنائیں ساتھ ہی اپنی اولاد کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم سے جوڑیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سیاسی میدان میں بھی مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہوں اور اپنے رہبر اپنے قائد کو پہچانیں۔ جب ہم نے نام نہاد سیکولرپارٹیوں کو 70 سالوں تک ووٹ دے دکر اسمبلی اور پارلیامنٹ میں اپنی حصہ داری ہی ختم کرالی تو بہترہے کہ ہمیں اب اس سے آگے سوچنا چاہئے اور اس کے لئے سنجیدگی کے ساتھ اور حکمت عملی اپناتے ہوئے بغیربھاجپا کے خوف کے اپنے لیڈران کیساتھ مضبوطی سے کھڑے ہوں اور اپنے اوپرہورہے ظلم و تشد کے لئے حکومت اور انتظامیہ سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں۔