مسلم نوجوانوں میں پھیلتا الحاد وقت کا سب سے بڑا فتنہ 

اسلاموفوبیا: المعہد اس کیلیے کیا کرسکتا ہے؟ کے عنوان کے تحت معہد میں ایک روزہ پروگرام

حیدر آباد: (پریس ریلیز) وطن عزیز میں مسلمانوں پر دن بہ دن شکنجہ کستا جارہا ہے، ان کو ہر اعتبار سے کمزور بنانے کی حکومتی اور غیرحکومتی کوششیں جارہی ہیں، اسی کا ایک شاخسانہ ہندوستان میں اسلام کی ہر علامت سے نفرت کا اظہار اوراس کو مٹانے کی کوشش ہے، اسی صورت حال کے پس منظر میں المعہد العالی الاسلامی (حیدرآباد) میں ایک روزہ پروگرام ’’اسلاموفوبیا : المعہد اس کیلیے کیا کرسکتا ہے؟‘‘ کے عنوان پر رکھا گیا، جس میں شہر اور بیرون شہر سے چند خاص لوگوں کو ہی دعوت دی گئی ،پروگرام کا آغاز معہد کے طالب علم کے تلاوت کلام پاک سے ہوا، جس آیت کی تلاوت کی گئی،اس میں اس بات کا اظہار تھاکہ اگر مسلمان ایمان پر ثابت قدم رہیں تو حالات یقیناً بدلیں گے اور اللہ کی مدد آئے گی لیکن ثبات شرط ہے، تلاوت کلام پاک کے بعد کلیم عاجز کی پرسوز نعت’’صباکملی والے سے پیغام کہیو‘‘ پڑھی گئی، جس میں شہ مدینہ کے آگے ہندوستانی مسلمانوں کی حالت زار کا اظہار تھا اور جو آج کے حالات پر بڑی حد تک صادق آتاہے۔اس کے بعد معہد کے ایک طالب جو امریکہ کے نیوجرسی کے رہنے والے ہیں، انہوں  نے آیت پاک کا انگریزی میں ترجمہ کیا، اس کے بعد علامہ اقبال کی نعت نما غزل پڑھی گئی جس میں مومنوں کی صفات و علامات کا اظہار ہے، ’’ہرلحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان‘‘۔

تلاوت کلام پاک اورنعت شریف کے بعد معہد کے معتمد تعلیم مولانا مفتی محمد شاہدعلی قاسمی صاحب نے معہد کی تین سالہ تعلیمی رپورٹ پیش کی، جس میں معہد کے تمام شعبہ جات کا تعارف، ان میں پڑھنے والے طلبہ کی تعداد اور نتائج کا ذکر تھا، بعدازاں مفتی محمد اشرف علی قاسمی صاحب معتمد مالیات نے معہد کی تین سالہ مالی رپورٹ پیش کی، جس میں کورونائی وبا کے دوران معہد کے مالی نقصان کا بھی ذکر تھا۔

تعلیمی اور مالی رپورٹ کے بعد معہد کے طلبہ کی فکری اور ثقافتی سرگرمیوں کا تعارف معتمد ثقافت معہد مولانا و مفتی محمد اعظم ندوی صاحب نے کیا، اور اس سلسلے میں معہد کی ثقافتی سرگرمیوں کے ساتھ معہد کے ناظم ، و اساتذہ اور بیرونی مہمانوں کے محاضرات اورموضوعات کا بھی ذکر کیا، ثقافتی سرگرمیوں کے تعارف کے بعد معہد کے شعبۂ انگلش کے ایک طالب نے انگلش میں حضور پاک کی سیرت کے مختلف جہات پر مختصرتقریر کی ،جس میں حضورکے ہرشعبہ میں قائد و رہنما ہونے کا ذکر تھا، اس تقریر کے بعد اس پروگرام کے ناظم مولانا ومفتی محمد عمرعابدین مدنی قاسمی نے معہد کے فضلاء کی مختلف شعبوں میں کارکردگی تفصیل سے بیان کرتے ہوئے صحافت، وکالت اور اس کے علاوہ دیگر عصری شعبوں میں ان کی پیش رفت کا ذکر کیا اور اسی سلسلے میں معہد میں ہوئے دو سیمینار قرآن سمینار اور سیرت رسول سمینار اور اس کی ہمہ جہتی کا ذکر کیا۔

ان سب کے بعد اس پروگرام کے روح رواں حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی نے مسلمانوں کی موجودہ صورت حال اوراس سے قرآن و حدیث کی روشنی میں نبردآزما ہونے کے طریقوں کے بارے میں تفصیل سے اظہار خیال کیا، آپ نے حضرت شاہ ولی اللہ کے حوالہ سے بتایاکہ قرآن کے علوم میں سے ایک ’’جدال‘‘ بھی ہے جو معاندین اور منکرین کیلئے ہے، قرآن نے اس جدال کو باحسن وجوہ اداکرنے کی تاکید کی ہے، لہذا ہمیں ہر دور کے تقاضوں کے مطابق بہتر سے بہتر طریقے کے مطابق جدال کی کوشش کرنی چاہئے، آپ نے اس موقع پر تاریخ کے حوالہ سے یہ بھی بتایاکہ عیسائی جب عسکری میدان میں مات کھاگئے تو انہوں نے مسلمانوں کو مذہبی اعتبار سے کمزور کرنے کی کوشش کی اور اسلام کے خلاف شکو ک وشبہات کو ان کے ذہن میں پیداکرنے کی منظم کارروائیاں کیں، اور یوروپی ممالک میں استشراق کا استعماری دستہ اسی بنیادی کام کیلئے تیار ہوا، ہندوستان میں عیسائیت کی تبلیغ و ترویج کے خلاف علماء نے بھرپور کوششیں کیں، جن میں حضرت مونگیریؒ اور حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کا نام سرفہرست ہے، آج کے دور میں بھی ہندو انتہاپسندوں کی کوشش یہی ہے کہ مسلمانوں کا حوصلہ توڑاجائے،ان کے اندر خود اعتمادی کو ختم کردیا جائے تاکہ وہ اپنی نگاہ میں حقیر ہوجائیں ۔

حضرت رحمانیؒ نے مسائل کے ذکر کے بعد اس کے حل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ دعوت دین عمومی طور پر ہر مسلمان کی اپنے علم اور وسائل کے اعتبار سے ضروری ہے لیکن معاندین کے شبہات کا جواب اورعلمی طورپر ان کےد لائل کا مقابلہ یہ علماء کا کام ہے، آج مسلم نوجوان میں الحاد پھیل رہاہے، عقائد کی گرفت کمزور پڑتی جارہی ہے، وہ اسلام کو ازکار رفتہ سمجھ رہے ہیں، ان حالات میں مسلکی منافرت کے بجائے ہمیں ایک ہوکر اس الحاد کا مقابلہ کرنا چاہئے جو سرے سے دین و ایمان پر ہی حملہ آور ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے آپ نے یہ بھی فرمایاکہ کوئی ضروری نہیں کہ ہر عالم مدرسہ ہی کھولے اور مدرسہ میں ہی پڑھائے، اگر کوئی عالم انگلش اسکول میں پڑھاتا ہے تواس کے سامنے بھی دین کی خدمت کا بڑا موقع ہے کہ وہ  اسکولی بچوں کے ذہن و مزاج کو اسلامی بنائے، اس موقع پر مدعوئین کو ایک لفافہ بھی پیش کیا گیا جس میں ان سے تجویز مانگی گئی تھی مدارس اسلاموفوبیا کے خلاف کس طرح زیادہ سے زیادہ موثر کردار اداکرسکتے ہیں ،وہ اپنی تجاویز پیش کریں،ان کی تجاویز پر غور کیا جائے گا اور مناسب آراء پر عمل آوری کی جائے گی، حضرت مولانا کی دعا پر اس پروگرام کا اختتام ہوا، مدعوئین کیلئے معہد میں ہی ظہرانہ کا بھی نظم تھا۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com