سیف الرحمٰن
(بیورو چیف ملت ٹائمس)
اُردو صحافت نے 1822 میں جام جہاں نما سے شروع کیے اپنے سفر کا 2022 میں دو سو سال مکمّل کر لیا ہے لہٰذا پوری اردو برادری نے اس سال کو جشن کے سال کے طور پر منایا ہے جس کے تحت اُردو صحافت کی تاریخ میں اہم نام رکھنے والے شہروں دہلی،لکھنؤ،کولکتہ اور پٹنہ سمیت پورے مشرق وسطیٰ و عالم اردو میں تاریخ صحافت اُردو سے متعلق بہت اہم سیمینار و دیگر طرح کے اجتماعات منعقد کئے گئے مگر ایک ضرورت اس بات کی بھی تھی کہ اردو صحافت کے تابناک ماضی پر گفتگو کرنے کے ساتھ ہی اس کے حال کا احتساب و مستقبل کے لئے موجود مثبت امیدوں پر غور و خوض کرکے منصوبہ بندی کا عمل بھی انجام دیا جائے یا کم سے کم منصوبہ بندی کے لئے ایک لکیر کھینچ دی جائے ، چنانچہ اس بات کا احساس کرتے ہوئے ملک ہند کی واحد اردو یونیورسٹی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے شعبہ صحافت و ترسیل عامہ نے اس جانب اقدام کیا جس کے تحت فروری 2022 میں کاروان اُردُو صحافت کے نام سے ایک سالہ مہم کا اعلان کیا اور اسی کے تحت سال کے اخیر میں ایک 03 روزہ عالمی سیمینار بعنوان ” اُردُو صحافت کا ماضی حال اور مستقبل” کرنے کا بھی اعلان ہوا چنانچہ اس مہم میں اُردُو صحافت سے متعلق 200 سے زیادہ ویڈیوز ملک بھر کے اہل اُردُو اور اہل صحافت کے جاری کیے گئے،طلباء صحافت کو اُردُو صحافت سے روشناس کرانے کے مقصد سے کئی طرح کے مقابلے بھی منعقد کرائے گئے پھر 13 نومبر سے 15 نومبر تک تین روزہ عالمی سیمینار ہوا جس میں لگاتار اُردُو صحافت اور عمومی صحافت سے متعلق اہم ترین نکات پر مبنی الگ الگ سیشن منعقد ہوئے جس سے سامنے آنے والا خلاصہ اُردو صحافت کیلئے ایک لائحہ عمل کی حیثیت رکھتا ہے ، اُس کا خلاصہ اُردو کی نئی نسل کے اندر سے احساس کمتری کو ختم کرنے کا ایک مثبت پیغام ہے ساتھ ہی اس موقع پر الیکٹرانک میڈیا و پرنٹ میڈیا میں مثبت امیدوں اور مستقبلِ کے لائحہ عمل پر بات ہونے کے ساتھ ہی ڈیجیٹل میڈیا میں اُردو صحافت کی ضرورت و مواقع اور اس میں اُردو صحافیوں کیلئے موجود چیلنجز اور اس کے حل پر بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی اور ان تمام سیشن میں ملک بھر کے اُردو میڈیا کے اکابر صحافی حسن کمال،عزیز برنی،شکیل شمشی،عارفہ خانم شیروانی ،شاہد لطیف،اعظم شاہد،شمیم طارق،اطحر فاروقی، سہیل انجم،یامین انصاری،سرفراز آرزو،اسعد مرزا،شافع قدوائی،مظفر حسین غزالی،فرحت رضوی،وحید نقوی،خورشيد ربّانی،سید اسدر علی،ریحان غنی،اقبال سبا،اعظم شاہد،مہتاب عالم،زین صلاح الدین،خورشید وانی،پروفیسر جہانگیر وارثی، پروفیسر محمد سجاد،پروفیسر شاہد حسین،اشرف بستوی سمیت اُردو صحافت کے ملک بھر کے اکثر روشن ستارے شامل ہوئے (اس پروگرام کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی رہی کہ اس میں صرف صحافت و اُردو سے منسلک افراد کو ہی مدعو کیا گیا جب کہ 30 مارچ 2022 کو انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر میں مشہور صحافی معصوم مرادآبادی کے ذریعے منعقد سیمینار و ایسے دیگر کئی پروگرام میں صحافیوں سے زیادہ سیاسی افراد کو ترجیحی حیثیت دی گئی جو کہ مثبت مقصدیت کی کمی کو ظاہر کرتا ہے) ساتھ ہی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ آج اُردو صحافت کو صف اول سے پیچھے کرنے کیلئے باقی زبانوں خاص کر انگریزی و ہندی صحافت کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی سازش ہورہی ہے اس عالمی سیمینار میں ہندی و انگریزی صحافت سے منسلک سینئر صحافیوں کو بھی مدعو کیا گیا جسمیں راج دیپ سردیسائی ،این سری نواسن ،ستیش جیکب،راہل دیو،اننت وجے،پنکج پنچوری،سمیرا خانم،اننت وجے،ارملیش سمیت مین اسٹریم کے بہت سے میڈیا چینل و اخباروں کے سینئر صحافی شامل ہوئے اور نہ صرف اُردو صحافت کی قربانیوں اور اس کے تاریخی کردار پر تفصیلی گفتگو کی بلکہ اردو صحافت کے مستقبل کےلئے بھی مثبت امیدوں کا اظہار کیا اور اُردو کے طلباء کو اُردو صحافت کیلئے بہتر مشوروں سے نوازا، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کا عالمی سیمینار اُردُو صحافت کیلئے اتنا پر اُمّید ثابت ہوا کہ کئی سارے اہم میڈیا اداروں نے جسمیں خصوصی طور پر حیدرآباد کے اہم اُردُو اخبارات سیاست ،منصف ،اعتماد اور گواہ وغیرہ شامل ہے اُنہوں نے خود کو اس عالمی سیمینار میں باضابطہ حصہ بنایا اور اس سیمینار کو کامیاب کرنے میں اپنا بھی کردار نبھایا، ان اخبارات کی نمائندگی کے ساتھ ہی ایک اہم بات یہ بھی رہی کہ ملک میں شائع ہو رہی قدیم اخباروں میں سے ایک و دکن کے سب سے قدیم اُردو اخبار رہنماء دکن نے اپنا سو سالہ جشن بھی اس عالمی سیمنار میں منایا اور اپنے سو سال مکمّل ہونے پر ایک خصوصی شمارہ بھی جاری کیا جس کی تیاری میں احقر نے بھی تھوڑا سا حصہ دیا اُس کا اجراء بھی سیمینار کے میڈیا کانکلیو میں ہوا، ان میڈیا اداروں کے علاوہ ملک بھر کے الگ الگ تعلیمی اداروں کے شعبہ صحافت و شعبہ اُردو کے طلباء و طالبات نے بھی خودکو اس سیمینار کا حصہ بنانے کیلئے 50 سے زیادہ ریسرچ پیپر بھی پیش کیے ساتھ ہی موضوع سے متعلق کئی ڈاکیومنٹری اور مونولوگ بھی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے طلباء و طالبات نے بنائے اور “غالب اور کولکتہ” سمیت کئی ادبی و صحافتی ڈرامے بھی پیش کیے گئے غرض کہ الگ الگ طریقے سے اُردو صحافت کی مکمل تاریخ کا احاطہ اس موقع پر کیا گیا لیکن سب سے اہم بات یہ رہی کہ مذکورہ درجنوں سینئر صحافیوں نے تین دنوں تک مسلسل رہ کر الگ الگ سیشن کے ذریعے اُردو صحافت کے حال کا تفصیلی تجزیہ کیا ساتھ ہی مستقبل کےلئے مضبوط و مثبت لکیر کھینچنے کا کام بھی کیا، ان سینئر صحافیوں نے اُردو صحافت کے حال پر بات کرتے ہوئے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبہ صحافت و ترسیل عامہ اور اس کے ڈین ڈاکٹر احتشام احمد خان و صدر شعبہ ڈاکٹر فریاد وغیرہ کی خوب ستائش کی کہ آج یہ شعبہ اُردو صحافت کے مستقبل کو سنوارنے کا اہم کردار نبھا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے ای ٹی وی ،نیوز 18 سمیت پرنٹ میڈیا کے اہم اُردو اخبارات کو یہاں سے بڑی تعداد میں بہترین تربیت یافتہ اُردو صحافی ملے ہیں اور مل رہے ہیں تو وہیں اگر ڈیجیٹل میڈیا کی بات کریں تو ڈیجیٹل میڈیا میں اُردو صحافت کی بنیاد ڈالنے والے نوجوان صحافی، ملت ٹائمس کے بانی ایڈیٹر و پریس کلب آف انڈیا کے سابق نائب ڈائریکٹر شمس تبریز قاسمی بھی صحافت کا کورس مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے کئے ہیں یہی نہیں بلکہ ہندی وہ انگریزی میڈیا اداروں و جامعہ ہمدرد اور عثمانیہ یونیورسٹی سمیت کئی تعلیمی اداروں کو بہترین اساتذہ مہیّا کرانے کا کام بھی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبہ صحافت نے کیا ہے- غرض کہ یہ سیمینار ہر زاویہ سے تاریخی رہا اور بہت ہی مثبت امیدوں و عزائم کے ساتھ اسکا اختتام ہوا جس میں کامیابی کی وجہ پروگرام کے کنوینر ڈاکٹر احتشام احمد خان و شعبہ صحافت مانو کے صدر ڈاکٹر محمد فریاد اساتذہ کرام پروفیسر مصطفیٰ علی سروری،ڈاکٹر معراج احمد مبارکی، پروفیسر طاہر، پروفیسر معراج احمد، پروفیسر حسین عبّاس رضوی، ڈاکٹر دانش خان کا اخلاص اور طلباء و طالبات کی محنت رہی۔