جامعہ ملیہ تشدد معاملے میں دہلی عدالت کی پولس کو زبردست پھٹکار،صفورا زرگر، آصف اقبال تنہا سمیت ۱۱؍ کو بری کردیا ، محمد الیاس کے خلاف الزام طے،شرجیل کی رہائی دوسرے معاملے میں ملزم ہونے کی وجہ سے نہیں ہوگی
نئی دہلی۔ ۴؍ فروری: جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تشدد سے منسلک معاملے میں دہلی پولس کو منہ کی کھانی پڑی ہے، مقامی عدالت نے معاملے میں شرجیل امام، صفورا زرگر، آصف اقبال تنہا اور ۸ دیگر ملزمین کو بری کردیا ہے۔ عدالت نے سنیچر کو کہاکہ دہلی پولس تشدد کے ’اصلی گناہ گاروں‘ کو پکڑنے میں ناکام رہی۔ عدالت نے کہاکہ پولس نے انہیں بلی کا بکرا ضرور بنادیا۔ پھٹکار لگاتےہوئے ایڈیشنل سیشن جج ارول ورما نے کہاکہ پولس نے من مانے طریقے سے مظاہرین کی بھیڑ سے جسے چاہا اسے ا ٹھالیا کچھ کو ملزم بنایا اور باقی پولس کے گواہ بنے۔ عدالت نے کہاکہ صرف موقع احتجاج پر موجودگی ہونے سے ملزم نہیں بنایاجاسکتا۔ عدالت نے کہاکہ ایسا لگتا ہے کہ استغاثہ ان کے پیچھے پڑ گیا ہے۔ عدالت نے کہاکہ ان لوگوں کو طویل وقت تک ٹرائل سے گزارنا ملک کے عدالتی نظام کے لیے اچھا اشارہ نہیں ہے، حالانکہ عدالت نے محمد الیاس کے خلاف الزام طے کیے ہیں۔ یہ معاملہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں دسمبر ۲۰۱۹ میں ہوئے تشدد سے منسلک ہے، ایف آئی آر میں فساد اور غیر قانونی احتجاج کی دفعات لگائی تھی ، اس معاملے میں بری ہونے کے باوجود شرجیل امام ابھی بھی جیل میں ہی رہیں گے، ان کے خلاف ۲۰۲۰ کے شمال مشرق دہلی میں فساد سے معاملوں میں بھی ایف آئی آر درج ہیں، ان ہی فساد کی سازش سے منسلک معاملوںمیں اسپیل عدالت نے تنہا اور زرگر کو بھی ملزم بنایا ہے۔ عدالت سے بری ہونے والوں میں شرجیل امام، صفورا زرگر، آصف اقبال تنہا، محمد ابوذر، عمیر احمد، محمد شعیب، محمود انور، محمد قاسم، بلال ندیم، شاہ رضا خان، چندا یادو شامل ہیں۔ بتادیں کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کررہے مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپ کے بعد دہلی پولیس نے شرجیل امام پر تشدد بھڑکانے کی سازش کا الزام لگایا تھا۔ پولیس نے الزام لگایا تھا کہ ۲۰۱۹میں جامعہ نگر میں تشدد شرجیل امام کی تقریر کی وجہ سے ہوا تھا۔ تاہم دہلی فسادات سے متعلق ایک کیس میں ضمانت کی عرضی دہلی ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔ جامعہ تشدد کیس میں شرجیل امام کے خلاف فسادات اور غیر قانونی اجتماع کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میںآئی پی سی کی دفعہ ۱۴۳، ۱۴۷، ۱۴۸، ۱۴۹، ۱۸۶، ۳۵۳، ۳۳۲، ۳۳۳، ۳۰۸، ۴۲۷، ۴۳۵، ۳۲۳، ۳۴۱، ۱۲۰ بی اور ۳۴ شامل تھیں۔ واضح رہے کہ دہلی پولیس نے شرجیل کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کے لیے چارٹ شیٹ داخل کی تھی۔ ۲۰۱۳ میں شرجیل نے جے این یو سے ماڈرن ہسٹری میں پی جی کی ڈگری مکمل کی۔ ان کا تعلق بہار کے جہان آباد ضلع سے ہیں۔ ضمانت کی درخواستوں پر سماعت نہ ہونے کی وجہ سے وہ ابھی تک جیل میں ہیں۔ادھر الزامات سے بری ہونے کے بعد آصف اقبال تنہا نے کہا کہ ساکیت کورٹ نے تمام پہلوؤں کو سننے کے بعد عدالت نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ جو الزامات ان ۱۳ لوگوں پر لگائے گئے ہیں ان پر کوئی بھی ایسا ثبوت نہیں ہے جس سے یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ یہ ملزمان مجرم ہیں۔ عدالت نے مزید کہا کہ احتجاج کرنے کا حق ان طلبا کو ملک کے آئین نے دیا ہے ایسے میں یہ کوئی جرم نہیں ہے۔بات چیت میں انہوں نے بتایا کہ تین سالوں کے بعد ہمیں انصاف ملا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ۱۳دسمبر کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پر امن احتجاج کر رہے تھے اسی دوران دہلی پولیس نے احتجاجی مظاہرہ کو ختم کرنے کے لیے طلباء پر پانی کی بوچھار کی ان پر لاٹھی چارج کیا اور اس کے بعد پولیس نے ایف آئی آر درج کی، انہوں نے بتایا کہ ۱۳دسمبر ۲۰۱۹ میں احتجاج کے دوران جامعہ کے طلبا نے بس کو آگ نہیں لگایا تھا بلکہ جو بس نذرآتش ہوئی تھی وہ دراصل نیو فرینڈز کالونی علاقہ میں تھی حالانکہ پولیس نے یہ الزام ان ۱۳ ملزمان کے خلاف لگایا تھا۔آصف اقبال تنہا نے بتایا کہ دہلی پولس نے جامعہ احتجاج کے دوران ۴۲طلباء کوگرفتار کیا تھا لیکن پولیس نے ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں کیا گیا بلکہ ان لوگوں کو نشانہ بنایا جو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں پیش پیش تھے۔