نئی دہلی: آر ایس ایس کے ساتھ مسلم مذہبی جماعتوں کے نمایندہ وفد کی گزشتہ 14جنوری کو ہوئی ملاقات پرکسی نے محتاط تو کسی نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ،کہیں ٹائمنگ کو لے کر سوال اٹھایا گیا ۔ بعض حلقوں سے دائرے کو مزید وسیع کرنے کی بات کہی گئی۔ بہرحال ڈائیلاگ کے پروسس کو جاری رکھنے اور غلط فہمیاں دور کرنے کی کوششوں پر کئی بڑی مسلم جماعتوں اور دانشوروں کی گزشتہ ہفتہ کیرل کے کوچین میں ہوی میٹنگ میں مہر لگادی گئی ۔اس سے عندیہ ملتا ہے کہ مستقبل قریب میں ڈائیلاگ کا نیا دور ہوسکتا ہے۔یہ ڈائیلاگ مولانا محمود مدنی کی زیر قیادت جمعیتہ کے چونتیسویں عام اجلاس کے بعد بھی ہوسکتے ہیں جو دہلی میں ہونے والا ہے۔ذرائع کے مطابق کوچین میٹنگ میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی ،سکریٹری میڈیا نیاز فاروقی ایڈوکیٹ،جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر انجینئیر محمد سلیم،سکریٹری ملی امور ملک معتصم خاں،صدر ویلفیر پارٹی ڈاکٹر قاسم رسول الیاس ،ملی کونسل کے نائب صدر مولانا انیس الرحمن قاسمی، دوسرے نائب صدرمولانا یسین عثمانی، دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چئیرمین اور سرکردہ دانشور ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں وغیرہ شریک ہوے تھے۔ جمعیت اہل حدیث کی نمایندگی بھی تھی،جمعیت میں الیکشن کی وجہ سے مولانا اصغر علی مہدی میٹنگ میں شامل نہیں ہوسکے البتہ ان کے نمائندہ ضرور شریک ہوے،مولانا ارشد مدنی کا گرچہ کوئ نمائندہ نہیں تھا لیکن ان کی زیرقیادت جمعیتہ، سنگھ سے ڈائیلاگ کی حامی ہے۔ذرائع کے مطابق مسلم جماعتوں کی میٹنگ میں دیگر امور کے ساتھ سنگھ سے شروع ہوئے مذاکرت کی اہمیت،ضرورت اور اس کے مضمرات کا جائزہ لیاگیا،بعض حلقوں کی طرف سے اٹھاے گیے اندیشوں اور سوالوں پر بھی تبادلۂ خیال ہوا۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق شرکاء کی اکثریت کا اس پر اتفاق ہوا کہ ڈائیلاگ کو جاری رکھا جائے مگر ایجنڈہ طے ہونا چاہیے جس کو مضبوطی کے ساتھ پیش کیا جائے ،ماضی کے ڈائیلاگ کے نتائج پر بھی نظر رہے ،اور یہ کہ ملت کو اعتماد میں رکھا جائے ،اس کو پیش رفت سے آگاہ کیا جاتا رہے،کیا سنگھ سے ڈائیلاگ نتیجہ خیز ہوں گے یہ سوال ضرور میٹنگ میں چھایا رہا اسی لیے پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی بات ہوئی،ملی کونسل بھی اصولی طور پر مذاکرت کی حامی ہے امید ہے کہ اگلے مذاکرت میں وہ بھی مسلم نمایندہ وفد کا حصہ ہوگی ،اگر ملاقات کا سلسلہ کسی نتیجے پر پہنچتا ہے تو پھر بھاگوت اور اعلیٰ مسلم قیادت کے درمیان میٹنگ کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے۔عام خیال یہ ہے کہ بہت عرصہ بعد غالباً یہ پہلا موقع ہے جب بڑی ،موثر مسلم جماعتیں کسی ایشو پر عملاً ایک ساتھ نظر آرہی ہیں ۔