دہلی القاعدہ مقدمہ میں فریقین کی بحث مکمل عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا، ۱۰فروری کو فیصلہ متوقع

نئی دہلی: ممنوع دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے تعلق رکھنے کے مبینہ الزامات کے تحت گرفتار دارالعلوم دیوبند کے فارغ مولانا عبدالرحمن (کٹکی)عبدالسمیع، محمد آصف اورظفر مسعودکے مقدمہ میں فریقین کی بحث مکمل ہوچکی ہے جس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا اور فیصلہ ظاہر کرنے کے لیئے 10/ فروری کی تاریخ متعین کی ہے، ایڈیشنل سیشن جج پٹیالہ ہاؤس کورٹ سنجے کھانگوال نے فریقین کو کہاکہ 10/ فروری تک اگر فیصلہ تحریر ہوگیا تو وہ اسے ظاہر کردیں گے ۔ یہ اطلا ع آج یہاں ممبئی میں ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علما ء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے دی۔گلزار اعظمی کے مطابق اس مقدمہ میں تاخیر ہورہی تھی جس کے خلاف سپریم کورٹ آف انڈیا میں ملزم مولانا عبدالرحمن کی جانب سے ایک پٹیشن داخل کی گئی تھی، سپریم کورٹ نے پٹیشن پرسماعت کرتے ہوئے سیشن عدالت کو مقدمہ کی سماعت پہلے چھ ماہ میں مکمل کرنے اور پھر اس میں دو ماہ کی توسیع کیئے جانے کا حکم جاری کیا تھا، سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں اس مقدمہ کی بقیہ سماعت برق رفتاری سے انجام دی گئی۔ ملزمین 14/ دسمبر 2015 سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے مقید ہیں۔اس مقدمہ کا سامنا کررہے چاروں ملزمین کو جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی نے قانونی امدادفراہم کی ہے اور ان کے دفاع میں ایڈوکیٹ صارم نوید، ایڈوکیٹ کامران جاوید کو مقرر کیا ہے۔اس مقدمہ میں استغاثہ نے 75 / سرکاری گواہوں کو عدالت میں پیش کیا جن سے دفاعی وکلاء نے جرح کی تھی، گواہوں سے جرح کرنے کے بعد حتمی بحث کئی ماہ تک چلتے رہی، خصوصی جج کی ہدایت پر دفاعی وکلاء نے عدالت میں تحریری بحث بھی پیش کی۔دوران حتمی بحث ایڈوکیٹ ساریم نوید نے عدالت کو بتایا کہ چند ملزمین پر الزام ہیکہ انہوں نے غیر قانونی طریقے سے دوبئی سے پاکستان کا سفر کیا تھا اور پاکستان سے دہشت گردانہ ٹریننگ حاصل کی تھی لیکن ٹرائل کے دوران استغاثہ یہ نہیں بتا سکا کہ ملزمین دبئی سے پاکستان کیسے گئے تھے کیونکہ ملزمین کے پاسپورٹ پر کوئی سکہ نہیں ہے۔ ایڈوکیٹ صارم نوید نے دوران بحث عدالت کو مزید بتایا کہ ملزمین پر جہادی تقاریر کرنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے لیکن جہادی تقاریر کرنے پر یو اے پی اے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا اس کے باوجود ملزم پر یو اے پی اے قانون لگا کر مقدمہ کا سامنا کرنے پر مجبور کیا گیا نیز اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ملزمین نے مبینہ طور پر آر ایس ایس پر تنقید کی تھی تو اس کے باوجود ان پر دہشت گردی کا مقدمہ نہیں بنتا۔ ایڈوکیٹ صارم نوید نے عدالت سے گذارش کی کہ استغاثہ ملزمین کے خلاف پختہ ثبوت و شواہد عدالت میں پیش نہیں کرسکا لہذا انہیں مقدمہ سے بری کیا جائے جبکہ خصوصی سرکاری وکیل نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ ملزمین ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے تھے اور استغاثہ نے ان کے خلاف عدالت میں گواہی دینے کے لیئے سرکاری گواہوں کو پیش کیا جن کی گواہیوں کی بنیاد پر ملزمین کو سخت سے سخت سزا دی جانی چاہئے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی اس طرح کی حرکت کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔واضح رہے کہ اسی مقدمہ میں دہلی پولس کے اسپیشل سیل نے بنگلور کے مشہور عالم دین مولانا انظر شاہ قاسمی کو بھی گرفتا ر کیا تھا لیکن بعد میں انہیں نا کافی ثبوت و شواہد کی بنیاد پر مقدمہ سے ڈسچارج کردیا گیا تھا، جمعیۃ علماء کی جانب سے مولانا انظر شاہ کی پیروی ایڈوکیٹ ایم ایس خان نے تھی، سیشن عدالت کی جانب سے مولانا انظر شاہ کو مقدمہ سے ڈسچارج کیئے جانے والے فیصلہ کو استغاثہ نے دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے جس پر حتمی سماعت ہونا باقی ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com