ترکیہ اور شام میں 6 فروری کو آئے تباہناک زلزلہ میں مہلوکین کی تعداد 21 ہزار کے پار پہنچ چکی ہے اور ہزاروں زخمی افراد کا علاج اسپتالوں میں چل رہا ہے۔ اس درمیان ترکیے میں ملبہ سے لاشوں کا نکلنا اب بھی جاری ہے۔ ایسے میں ان لاشوں کی تدفین کے لیے جگہ کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تدفین کے لیے لاشوں کی بڑھتی تعداد کے سبب عارضی قبرستان بنانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ترکیے میں مہلوکین کی تعداد لگاتار بڑھ رہی جس سے آخری رسومات میں کئی طرح کے مسائل پیدا ہونے لگے ہیں۔ پہلے سے موجود قبرستانوں میں جگہ کی ایسی کمی پیدا ہو گئی ہے کہ عارضی قبرستان بنا کر میتوں کی تدفین کی جا رہی ہے۔ ملبہ کے ڈھیر سے سینکڑوں لاشوں کو دفنانے کے لیے ترکیے کے کہارنمارس شہر میں جمعرات کو دیودار کے جنگلوں کے کنارے لمبا گڈھا تیار کیا گیا۔ یہاں پر قبر تیار کرنے والے، مردہ گھر کے ملازمین اور دیگر لوگوں کی ایک چھوٹی سی ٹیم کو دیکھا گیا جو عارضی قبرستان تیار کر رہے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ آئندہ ہفتوں میں مہلوکین کی تدفین کے لیے بڑے پیمانے پر کوششیں کی جا سکتی ہیں اور کہارنمارس میں تیار عارضی قبرستان اس کا ایک نمونہ ہے۔
واضح رہے کہ ترکیہ میں راحت اور بچاؤ کا کام تیزی کے ساتھ جاری ہے، لیکن ٹھنڈ کی وجہ سے کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی امدادی ٹیم بھی سرگرمی کے ساتھ ترکیے میں کام کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی ٹیم نے جمعرات کو ترکیے سے باغیوں کے قبضہ والے شمال مغربی شام میں داخلہ حاصل کیا، جہاں لاکھوں زلزلہ متاثرہ افراد منتقل ہوئے ہیں۔ خانہ جنگی سے متاثر شام میں مدد کی کوششیں کافی حد تک رخنہ انداز ہوئی ہیں جس نے ملک کو ‘حکومت’ اور ‘اپوزیشن’ کنٹرول والے علاقوں میں تقسیم کر دیا۔ حالانکہ ترکیے اور شام کے باغیوں کے قبضے والے دونوں علاقوں میں بچاؤ و راحت ٹیم کے اہلکاروں نے چھوٹے بچوں سمیت زندہ بچے لوگوں کو ملبہ سے باہر نکالنا جاری رکھا۔