ملک کو ترقی یافتہ اور پرامن بنانے کے لیے مولانا محمود مدنی کی آرایس ایس کو متحدہ قومیت کی دعوت
نئی دہلی : جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے رام لیلا میدان نئی دہلی میں اجلاس عام کے صدارتی خطاب میں کہا کہ ہم آرایس ایس کے سر سنگھ چالک شری موہن بھاگوت جی اور ان کے متبعین کوگرم جوشی کے ساتھ دعوت دیتے ہیں کہ آئیے آپسی بھید بھاؤ اور بغض و عناد کو بھول کر اپنے پیارے وطن کو دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ، پر امن ،مثالی اور سپر پاور ملک بنائیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کے موجود ہ حالات میں جو لوگ بھی باہمی رشتوں کو استوار کرنے کے لیے ڈائیلاگ اور ایک دوسرے کے افکار و نظریات کو سمجھنے کے لیے کوشاں ہیں ، ہم ان کا استقبال کرتے ہیں اور ایسی تمام کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ باہمی گفت و شنید ہی تمام مسائل کا حل ہے یا کم از کم مسائل کو بڑھنے سے روکنے کا ذریعہ ہے ، اس لیے اس کا راستہ کبھی بند نہیں ہو نا چاہیے ۔اپنے بھائیوں اور پڑوسیوں سے قطع تعلق کی اسلام میں ہرگز اجازت نہیں ہے ، جمعیۃ کے اکابر نے برادران وطن کے ساتھ دوش بدوش چلنے اور ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کی روش اختیار کی اور جمعیۃ آج بھی اسی روش پر مضبوطی سے قائم ہے۔متحدہ قومیت اور ہندو مسلم یک جہتی کا فکر و فلسفہ جمعیۃ کے اکابر کی عطا کردہ وراثت ہیں۔
اس کے مد مقابل ہندو تو کی موجودہ دور میں جو تشریح کی جارہی ہے اور ہندوتو کے نام پر جس جارحانہ فرقہ واریت کو فروغ دیا جارہا ہے ، وہ ہرگز اس ملک کی مٹی اور خوشبو سے میل نہیں کھاتی۔ ہم یہاں یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ آرایس ایس اور بی جے پی سے ہماری کوئی مذہبی یا نسلی عداوت نہیں ہے بلکہ ہمیں صر ف ان نظریات سے اختلاف ہے ، جو سماج کے مختلف طبقات کے درمیان برابری ، نسلی عدم امتیاز اور دستور ہند کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ سناتن دھرم کے فروغ سے ہمیں کوئی شکایت نہیں ہے ، اسی طرح آپ کو بھی اسلام کے فروغ سے کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ بھارت کے تناظر میں سوامی وویکانند نے کہا تھا کہ اسلام اور سناتن دھرم یہ دونوں بھارت کی فتح مندی کے لیے ضروری ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ملک میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت پھیلائی جارہی ہے۔ نفرت کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو حکومت اور انتظامیہ اس پر کوئی کارروائی نہیں کرتی، جو انہیں کرنی چاہیے۔ انہوں نے مسلمانوں سے بھی اپیل کی کہ وہ اکثریتی طبقے کے بارے میں مٹھی بھر نفرت پھیلانے والے نقطہ نظر سے نہ سوچیں۔
انھوں نے کہا کہ ملک میں 140 کروڑ لوگ رہتے ہیں۔ ہر ایک کے کھانے، رہنے اور سوچنے کے طریقے مختلف ہیں۔ پھر بھی یہ ملک متحد ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے پاکستان لے لیا ہے تو پھر یہاں کیوں رہتے ہیں۔ اس کے جواب میں کہا کہ جو لوگ جانا چاہتے تھے وہ 1947 میں چلے گئے لیکن ہمارے آبا و اجداد کی طرح ہماری راکھ بھی یہیں دفن ہو گی۔
اجلاس عام کے پہلے دن اپنے صدارتی خطاب میں کہا تھا کہ بھارت ہمارا وطن ہے، جتنا یہ وطن نریندر مودی اور موہن بھاگوت کا ہے، اتناہی محمود کا ہے۔ نہ محمود ان سے ایک انچ آگے ہے اورنہ وہ محمودسے ایک انچ پیچھے ہیں۔ساتھ ہی اس دھرتی کی خاصیت یہ ہے کہ خداکے سب سے پہلے پیغمبر ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام یہیں آئے، یہ دھرتی اسلام کی جائے پیدائش اور مسلمانوں کا پہلا وطن ہے۔اس لیے یہ کہنا کہ اسلام باہر سے آیا ہوا کوئی مذہب ہے،سراسر غلط اور تاریخی اعتبار سے بے بنیاد ہے۔اسلام اسی ملک کا مذہب ہے اور سبھی مذاہب میں سب سے قدیم اور پرانا بھی ہے۔ اسلام کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی دین کو مکمل کرنے آئے تھے ۔مولانا مدنی نے کہا کہ جب ملک کی تعلیم کی بات آتی ہے تو یہ پورے ملک کے لیے ہے۔ ایسے میں اگر کسی ایک مذہب کی کتاب مسلط کی جائے تو یہ دستور ہند کے خلاف ہے ۔
مولانا مدنی نے پسماندہ مسلمانوں پر حکومت کی پالیسیوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی مسلم سماج میں جو بگاڑ پیدا ہوا ہے ان میں ذات پات کا نظام سب سے اہم ہے۔ اگرچہ اسلام کی واضح تعلیمات مساوات پر مبنی ہیں ، لیکن اسلام قبول کرنے والے پرانے ذات پات کے نظام اور رسم و رواج سے مکمل طور پر آزاد نہیں ہوسکے۔ اسی وجہ سے ہندوستانی مسلم معاشرہ تضادات کا شکار رہا ہے۔ آج کے اجلاس عام کے موقع پر ہم یہ اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں مسلمانوں کے ہر طبقے کو مساوی حیثیت حاصل ہے اور ہمیں ماضی میں ذات پات کے نام پر ہونے والی ناانصافیوں پر افسوس ہے۔ اسے دور کرنے کے لیے ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے درمیان معاشی، سماجی اور تعلیمی ہر لحاظ سے برابری قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی پسماندہ مسلمانوں کو چھوٹ، ریزرویشن اور سرکاری اسکیموں کی فراہمی کے لیے ہر ممکن جدوجہد کی جائے گی۔
جمعیۃ علماء ہند کے 34ویں تین روزہ عام اجلاس (10-12 فروری) میں ملک وملت کی موجودہ صورت حال پر طویل بحث ہوئی۔ اجلاس میں اس پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ ملک میں اسلامو فوبیا فروغ پارہا ہے اور مرکزی حکومت خاموش ہے، جبکہ اسے ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔ مسلمانوں کی مذہبی تعلیم، جدید تعلیم اور روزگار کے مواقع کو محدود کیا جا رہا ہے۔ ملک میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی جارہی ہے اور یکساں سول کوڈ کے ذریعے ملک کے اتحاد و سالمیت کو ٹھیس پہنچائی جارہی ہے۔ اجلاس کے دوسرے روز 11 فروری کو مقررین نے کہا کہ ہم سب کو مل کر حالات ٹھیک کرنے ہیں ۔
اجلاس عام میں منظور کی گئی ۱۷ قراردادوں میں کہا گیا کہ ایک بڑے طبقے کی جانب سے مدارس اور اسلام پر مسلسل حملے کیے جا رہے ہیں اور اس کی مذہبی، اخلاقی اور سماجی تعلیمات کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جبکہ مدارس غریب مسلمانوں کو مفت تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ مدارس سے نکلنے والے طلبہ اور علمائے کرام نے آزادی کی جنگ لڑی تھی اور آج بھی وہ ملک کی تعمیر میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ جمعیۃ علماء ہند مدارس میں اس کے نظام کو چھیڑے بغیر جدید تعلیم کے حق میں ہے اور اس کے لیے مسلسل کوشاں ہے لیکن وہ مدارس کی تعلیم میں حکومتی مداخلت کے خلاف ہے۔اجلاس عام میں تمام جماعتوں اور محب وطن لوگوں سے سیاسی اور سماجی سطح پر فاشسٹ قوتوں کا مقابلہ کرنے کی اپیل کی گئی ۔
کامن سول کوڈ کے نفاذ کو لے کر ملک میں طویل عرصے سے بحث چل رہی ہے۔ اس پر منظور شدہ قرارداد میں کہا گیا کہ سول کوڈ کا ملک کے اتحاد اور سالمیت پر براہ راست اثر پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی جمعیۃ نے مسلم کمیونٹی سے اپیل کی کہ وہ خواتین کو جائیداد میں حصہ دینے اور طلاق ثلاثہ کے معاملے میں شرعی قوانین پر عمل درآمد کریں اور مسلم کمیونٹی سے اپیل کی کہ اگر وہ اس پر عمل کریں گے توشریعت میں حکومتی مداخلت کی راہیں بند ہو جائیں گی ۔
مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی پسماندگی پر منظور کی گئی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اقتصادی سروے، کمیشن، جسٹس سچر کمیٹی اور رنگناتھ کمیٹی نے اپنی رپورٹوں میں واضح طور پر کہا تھا کہ ملک کے مسلمان دلتوں سے بھی ایک درجے نیچے ہیں۔ اس کے باوجود ملک کی معیشت، پیداوار، آمدنی اور زرمبادلہ میں مسلمانوں کی بڑی شراکت ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے ہر ماہ 6 ارب ڈالر کا زرمبادلہ حاصل کیا جاتا ہے جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ملک کے درجنوں شہروں میں تالے، چمڑے، پیتل، قالین، کپڑے کی بْنائی، کاٹیج انڈسٹریز وغیرہ میں مسلمان بڑی تعداد میں کام کرتے ہیں، لیکن موجودہ حکومت اور اس کی پالیسیاں انہیں تباہ کر رہی ہیں۔
ریزرویشن سے متعلق تجویز میں کہا گیا ہے کہ اگر غریب دلت اور قبائلی مسلمان یا عیسائی بن جاتے ہیں تو وہ ریزرویشن سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اجلاس میں پسماندہ برادری کے لیے ریزرویشن کے سوال پر زور دیا گیا۔ ریزرویشن میں آئین کے آرٹیکل 341 میں ترمیم کرکے مذہب کی حد کو ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ مسلم وقف املاک سے متعلق مسودہ میں کہا گیا ہے کہ وقف املاک پرقبضہ ہے۔ اس کے علاوہ وقف املاک کو لمیٹیشن ایکٹ 1857 سے لاگو کیا جائے تاکہ وقف املاک کی حفاظت کی جاسکے۔ جہاں وقف بورڈ کی تشکیل نہیں ہوئی ہے یا اسامیاں خالی ہیں وہاں بھرتیاں کی جائیں اور وقف املاک کا تعین کیا جائے۔
میڈیا کے اسلام مخالف رویہ پر جاری کردہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف میڈیا ایک مخصوص طبقے اور طاقت کے اشارے پر اس کی شبیہ کو داغدار کر رہا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند اس کی سخت مذمت کرتی ہے اور مسلمانوں سے اپیل کرتی ہے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر چلائے جارہے پروپیگنڈہ مہموں سے غمگین اور افسردہ نہ ہوں، کیونکہ جھوٹ اپنی موت مر جاتا ہے۔ اگر ضرورت ہو تو سائبر سیل اور پولیس میں مقدمہ درج کرائیں۔ ووٹر رجسٹریشن اور انتخابات میں شرکت کو یقینی بنانے، سدبھاونا پلیٹ فارم کو مضبوط بنانے، اسلامی تعلیم کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنے، فلسطین اور عالم اسلام کو درپیش چیلنجز، ماحولیاتی تحفظ، پسماندہ مسلمانوں کی حالت زار، کشمیر کی موجودہ صورتحال اور آسام میں انخلا کے متاثرین اور ترکی اور شام میں آنے والے زلزلوں کے حوالے سے بھی قرار دادیں منظور کی گئیں۔ جمعیۃ علما ء ہند نے اپنے محدود وسائل سے ترکی اور شام میں زلزلہ متاثرین کی بحالی کے لیے ایک کروڑ روپے کی مالی امداد کا اعلان کیا ہے۔
جن مقررین نے آج کے اجلاس میں خطاب کیا اور قرار دادوں کی تائید کیں وہ حسب ذیل ہیں ۔: مولانا حکیم الدین قاسمی ناظم عمومی جمعیۃ علما ء ہند ، مولانا ابراہیم تارا پوری، مفتی افتخار قاسمی، مولانا عابد قاسمی دہلی، مولانا زین العابدین، مفتی افتخار احمد قاسمی، مفتی حذیفہ ، پروفیسر اخترالواسع، خلیق احمد صابر، مولانا ندیم صدیقی ، پروفیسر نثار احمد انصاری، مولانا صدیق اللہ چودھری، کمال فاروقی ، مفتی راشد اعظمی دارالعلوم دیوبند، مولانا عبدالرب اعظمی، مولانا بشیر آسام ، مولانا خالد صدیقی نیپال ، مولانا عبدالمعید فتح پوری، مفتی محمد علی قاسمی رنگون، ابوبکر دیوان یوکے وغیرہ ۔اجلاس کی نظامت کے فرائض مولانا مفتی عفان منصورپوری نے انجام دیے ، قاری احسان محسن نے پروگرام میں عمدہ نظم پیش کی، اس موقع پر جمعیۃ کی کارگردی پر رپورٹس پیش کی گئیں، پروگرام میں کئی ملکی و بیرونی شخصیات کو مومنٹو بھی پیش کیا گیا ۔