کیا بساط پلٹ رہی ہے؟

محمد اللہ قیصر 

مولانا ارشد مدنی صاحب کا بیان آیا، توحید کا اعلان ہوا تو فطری طور شرک چیں بہ جبیں ہوا، “ابو لہب” کے چیلوں نے وہیں اعتراض کرتے ہوئے کہہ بھی دیا، ألہذا جمعتنا”

مسلمانوں کی طرف سے دو طرح کے رد عمل سامنے آئے۔

تائید کرنے والوں کی اکثریت ہے، ہر طرف سے لوگوں نے سراہا، اور فرقہ پرستوں کو ائینہ دکھانے والے اس خطاب پر خوشی کا اظہار کیا، کچھ لوگ “اللہ””اوم” “آدم”اور “منو” کی تشبیہ اور دونوں میں یکسانیت کے قضیہ میں الجھ گئے ہیں، لگے تحقیق، اور تنقیح کرنے، جس میں تحقیق سے زیادہ جماعتی اختلاف کے نتیجہ میں پیدا نے والی مخالفت کا اثر جھلکتا ہے، یا تو مسئلہ کو سمجھے بغیر رائے زنی کی جارہی ہے یا جان بوجھ کر مولانا ارشد مدنی صاحب کے بیان کی ایسی تشریحات پیش کی جارہی ہیں جو دین کے مسلمہ عقائد سے متصادم ہیں، انہیں نظر انداز کرنا ہی مناسب ہے، اسلئے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے یہاں ہر گفتگو کا محور اپنے لوگ، اپنی قیادت، اپنے علماء ہوتے ہیں، مسلم تنظیم، مدارس، علماء ، مسلم سیاسی رہنما ان کیلئے آسان شکار ہیں، “اظہار حق” اور “بے باکی” کے نام پر بدگوئی اور الزام تراشی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی، کچھ تو وہ ہیں جو کہتے ہیں”بد نام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا”، دوسروں کی طرف سے دین اور پوری قوم کے خلاف جو کچھ ہرزہ سرائی کی جاتی ہے، جو کچھ کہا اور کیا جاتا ہے، ان کے خلاف کھڑے ہونے کی جرأت نہیں ہوتی نہ بولنے کا حوصلہ ہوتا ہے، بلکہ خود سپردگی میں ذرا توقف نہیں کرتے۔

ان کے علاوہ جو اس خطاب کے اصل مخاطب تھے ان کے یہاں، میڈیا میں خوب بحثیں ہو رہی ہیں، اب وقت ہے کہ سنجید گی سے اس بیان سے پیدا ہونے ماحول کا فائدہ اٹھایا جائے،پہلے موجودہ صورتحال کا جائزہ لیجئے، جو لوگ پہلے ڈھکے چھپے انداز میں مسلمانوں کو “ہندو” کہتے تھے، اب وہ بے خوف، بے خطر ، بڑی بے باکی سے کہنے لگے ہیں کہ سب ہندو ہیں، حالات کچھ ایسے بن گئے ہیں کہ مسلمان پوری طرح سمجھوتے کی پوزیشن میں ہیں، کہیں سیاسی مفاد کی خاطر، کہیں غیروں کے دل میں نرمی پیدا کرنے کے مقصد سے اور کہیں سرکاری زیادتیوں سے بچنے کیلئے عقائد مسلمہ سے سمجھوتہ روز مرہ کا واقعہ بن گیا ہے، قومی یکجہتی کا پیغام دینے کیلئے ہولی دیوالی میں شرکت عام ہو گئی ہے، اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ “ملکی تہذیب” کے نام پر مشرکانہ رسوم و رواج میں ملوث ہورہے ہیں، دوسری طرف اسلامی تہذیب سے کنارہ کشی بلکہ ان کا انکار معمول کا واقعہ بن گیا ہے، جہاں دین اور شخصی مفاد کا ٹکراؤ ہوتا ہے وہاں مفاد کو ترجیح ملتی ہے،

اب تک توحید پر سناتن کی بالادستی کا شور مچایا جارہا تھا، ٹیوی اور اخبارات کے صفحات سے لیکر سیاسی جلسوں میں بھی سناتن کی قدامت اور اور اس کی برتری کا اظہار زور و شور سے ہو رہا تھا، کوئی اسے سمندر کہہ کر اہل اسلام کو بھی اس میں سمانے کا “آفر “دے رہا تھا، کہیں ڈرا دھمکا کر، اس کے “احترام” پر “مجبور”” کر رہا تھا، دوسری طرف کوئی ان کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں تھا، اگر کوئی جواب دینے کی کوشش بھی کرتا تو اسے ان سنا کردیا جاتا یا اس طرح مذاق اڑاکر بے اثر کرنے کی کوشش کی جاتی جیسے کوئی اچنبھی اور نامانوس بات کردی ہو، کسی عمومی مجلس میں توحید کی بات دبے دبے لفظوں میں اور اس تحفظ کے ساتھ کی جاتی کہ کہیں کسی کی دل شکنی نہ ہو جائے، دینی تعلیمات سے دور مسلمانوں کا ایک طبقہ لاشعوری طور پر سناتن کی بالادستی سے مرعوب ہو رہا تھا، اور کھلے عام اپنے “ہندو” ہونے کا اعلان بھی کر رہا تھا،

 ایک عجب ہو کا عالم تھا، خاموشی تھی، سناٹا تھا، کوئی بولنے کی جرأت نہیں جٹا پارہا تھا،

ایسے حالات میں مولانا ارشد مدنی صاحب کے اس خطاب اور جینی رہنما کے رد عمل نے ہوا کا رخ یکسر بدل دیا ہے، جو بات کرنے کیلئے تیار نہیں تھے وہ اب توحید کے متعلق سوالات کر رہے ہیں، جو اپنے “دھرم” کی برتری کے ترانے گانے میں اتنے مگن تھے کہ حقیقت کی اجلی روشنی بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی، ان کی آنکھیں توحید کی شعاعوں سے چکا چوند ہورہی ہیں، اور پوچھ رہے ہیں کہ یہ کیا ہے، “منو” کے افسانے سنا کر اپنی قدامت پر اترانے والے اب یہ سوچ کر بوجھل ہو رہے ہیں کہ ہمیں جن پر ناز تھا وہ بھی توحید کے اسیر نکلے، جو حقیقت انہیں بتائی گئی تھی پتہ چلا وہ ایک افسانہ تھا، اور درحقیقت ان کی جڑیں بھی توحید کا نغمہ گانے والے سے ہی ملتی ہیں، کائنات کے پہلے انسان کے متعلق جو تحریف شدہ کہانیاں سنارہے تھے ان کی حقیقت پیش کی گئی تو دم بخود رہ گئے، گویا وہ جس سمت میں اہل توحید کو بلار ہے تھے وہ غلط ہے، بے حقیقت ہے، بے بنیاد ہے، اور زمانے کی خرد برد سے اپنی شکل کھو چکا ہے، وہ اپنی اصل سے دور بہت دور جا چکے ہیں لہذا “اصل” کی طرف لوٹنے کی ضرورت اہل توحید کو نہیں خود انہیں ہے۔

اس خطاب کے بعد فکری میدان میں “حملہ آور کو اپنا دفاع بھاری پڑ رہا ہے”

اور اہم بات یہ ہے کہ اب وہ بات کرنے کیلئے تیار ہیں، اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر سنجیدہ اور سلیقہ مند طریقہ،سے طعن و تشنیع اور طنز گریز کرتے ہوئے، مخاطب کو حریف کے بجائے مدعو سمجھ کر،خالص داعیانہ جذبے کے ساتھ ، حقائق پیش کئے جائیں، تو منظر بدل سکتا ہے، اپنے اندر ذرا “نمی”پیدا کرلی جائے تو اس مٹی کو “زرخیز” بنا سکتے ہیں۔

جان لیجئے، ادھر سے گالیوں کی بوچھاڑ بھی ہوگی، طعن و تشنیع کے تیرو نشتر بھی چلیں گے، بد کلامی اور ہرزہ گوئی کے نیزے بھی برسائے جائیں گے، لیکن ان سب کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے وہ آپ کو فیصلہ کرنا ہے، کہ ادعوا الى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة” پر عمل کرتے ہوئے، اس نئی صورتحال سے فائدہ اٹھانا ہے، انہیں بتانا ہے کہ ہم حقیقت کی تلاش کے ساتھ تمہیں اس سے آشنا کرنا چاہتے ہیں، یا ہم چلینج ، ادعاء اور طعنوں سے مقابل کو زخمی کرکے ان کے اندر ضد ہٹ دھرمی اور عناد کی آگ مزید بھڑکانا چاہتے ہیں۔

برسوں سے جاری فکری جنگ کے میدان میں آپ پچھڑ رہے تھے، بساط پلٹی ہے، اللہ نے آپ کو موقع دیا ہے اب دیکھنا ہے کہ اس بدلی ہوئی صورتحال سے ہم کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں، یا پھر وہی مسلک اور جماعت کی لڑائی میں الجھ کر ، آپس میں دست و گریباں ہوکر، مولانا ارشد مدنی کے پیغام کے مثبت پہلو سے کنی کاٹ کر،اس سے من گھڑت اور منفی نتائج نکال کر یہ حسین موقع بھی گنوا دیتے ہیں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com