شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
گزشتہ دنوں دارالعلوم دیوبند نے داڑھی منڈانے کی بنیاد پر بعض طلبہ کا اخراج کر دیا، دارالعلوم دیوبند ایک دینی ادارہ ہے؛ اس لئے فطری بات ہے کہ اسلامی شعار کی پابندی کو دارالعلوم اور دیگر دینی مدارس نے تمام اساتذہ وطلبہ کے لئے لازم قرار دیا ہے، اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے، جو قابل اعتراض ہو، پھر یہ ہے کہ مختلف تعلیمی اداروں کا اپنا اپنا یونیفارم ہوتا ہے، داڑھی مدارس کے یونیفارم میں شامل ہے؛ اس لئے اس پر اعتراض کرنا دوسروں کے دائرۂ اختیار میں دخل دینے کے مترادف ہے، افسوس کہ میڈیا اسلام اور مسلمانوں سے متعلق ہر بات کو موضوع بحث بنا دیتا ہے؛ چنانچہ اس وقت داڑھی کے مسئلہ پر بھی ایک بحث جاری ہے، یہاں تک کہ بعض حضرات یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ داڑھی اسلام کا کوئی لازمی عمل نہیں ہے؛ حالاں کہ یہ صحیح نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں داڑھی ایک اہم عمل ہے، اور اس کا رکھنا واجب ہے، قرآن مجید میں اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ داڑھی رکھنا اللہ کے پیغمبروں کا طریقہ رہا ہے؛ چنانچہ قرآن میں اللہ کے ایک نبی حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی کا صراحتاََ ذکر آیا ہے کہ اللہ کے نبی ہارون کی داڑھی تھی (طٰہٰ: ۹۴) حدیث میں اللہ کے پیغمبر حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں صراحت کی گئی ہے کہ آپ داڑھی رکھتے اور مونچھ کاٹتے تھے (طبرانی کبیر، حدیث نمبر: ۱۱۷۲۴)
حدیثیں
احادیث میں صراحت ملتی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم گھنی داڑھی رکھتے تھے:
’’ عن جابر بن سمرۃ : کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثیر شعر اللحیۃ (مسلم، کتاب الفضائل، باب شیبہ صلی الہ علیہ وسلم، حدیث نمبر: ۴۴۳۲)
’’حضرت جابر بن سمرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی کے بہت بال ہوتے تھے۔‘‘
حضرت علیؓ سے روایت ہے:
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کث اللحیۃ (دلائل النبوۃ: ۱؍۲۱۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھنی داڑھی رکھتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےنہ صرف خو دداڑھی رکھی؛ بلکہ داڑھی رکھنے کا حکم بھی دیا؛ چنانچہ :
(۱) عن ابن عمرؓ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أنھکوا الشوارب واعفوا اللحی (بخاری، کتاب اللباس، حدیث نمبر: ۵۵۵۴)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مونچھیں چھوٹی رکھو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔
(۲) عن أبي ھریرۃ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جزوا الشوارب، وأرخوا اللحیٰ، خالفوا المجوس (مسلم، کتاب الطھارۃ، باب خصال الفطرۃ، حدیث نمبر: ۵۵)
حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مونچھیں کٹاؤ اور داڑھی چھوڑو۔
(۳) عن عبید اللہ بن عتبۃ قال: جاء رجل من المجوس الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقد حلق لحیتہ وأطال مشاربہ ، فقال لہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم: ما ھذا؟ قال: ھٰذا فی دیننا، قال: ولکن فی دیننا أن نجز الشارب وأن نعفی اللحیۃ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الادب باب ما یؤمر بہ الرجل من اعفاء اللحیۃوالأخذ من الشارب ، حدیث نمبر: ۲۵۵۰۲)
حضرت عبید اللہ بن عتبہؓ سے روایت ہے کہ ایک مجوسی (آتش پرست) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے اپنی داڑھی مونڈا رکھی تھی اور مونچھ بڑھا رکھی تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: یہ ہمارے مذہب کا طریقہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لیکن ہمارا مذہب یہ ہے کہ ہم مونچھ کاٹتے ہیں اور داڑھی بڑھاتے ہیں۔
(۴) عن ابن عباسؓ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أوفوا اللحیٰ وقصوا الشوارب، قال: وکان ابراھیم علیہ السلام یوفی لحیتہ ویقص شاربہ (طبرانی کبیر، باب العین، عکرمہ عن ابن عباس، حدیث نمبر: ۱۱۷۲۴)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: داڑھی رکھو اور مونچھیں تراشو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام داڑھی رکھتے تھے اور مونچھ کاٹتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم – جیسا کہ ذکر ہوا- خود داڑھی رکھتے تھے، آپ نے داڑھی رکھنے کا حکم دیا اور اس کو دین اسلام کا طریقہ بتایا، اور قرآن مجید میں کہا گیا ہے:
ما اٰتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا (حشر:۷)
رسول تم کو جن باتوں کا حکم کریں، ان کوکیا کرو، اور جن باتوں سے روک دیں، ان سے رُک جاؤ۔
صحابہ کا عمل
آپ کے صحابہ جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست دین سیکھا ہے، ان کے عمل کو اسلامی شریعت میں خصوصی اہمیت حاصل ہے، ان کا بھی معمول داڑھی رکھنے کا تھا؛ چنانچہ صحابہ کو دیکھنے والوں میں ایک شخصیت عثمان بن عبید اللہ رافع ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے:
حضرت ابو سعید خدریؓ
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ
حضرت عبداللہ بن عمرؓ
حضرت سلمہ بن اکوعؓ
حضرت ابو اُسید بدریؓ
حضرت رافع بن خدیجؓ
حضرت انس بن مالکؓ
کو دیکھا، یہ سب مونچھ کاٹا کرتے تھے داڑھی رکھتے تھے اور بغل صاف کیا کرتے تھے: یأخذون من الشوارب کأخذ الحلق ویعفون اللحیٰ وینتفون الاباط (طبرانی کبیر، باب الانف، صفۃ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حدیث نمبر: ۶۶۸)
ایک بڑے محدث امام طحاویؒ نے ایک اور صحابی حضرت واثلہ بن اسقعؓ کے بارے میں یہی نقل کیا ہے کہ وہ مونچھ کٹاتے اور داڑھی رکھتے تھے اور داڑھی میں زرد خضاب لگایا کرتے تھے (شرح معانی الآثار، کتاب الکراھۃ، باب حلق الشارب، حدیث نمبر: ۶۵۶۵)
ماہرین شریعت کا نقطۂ نظر
اس بنیاد پر شریعت اسلامی کے ماہرین متفق ہیں کہ ہر مسلمان کا داڑھی رکھنا واجب ہے؛ چنانچہ اہل سنت والجماعت کے چار فقہی مکاتب ہیں: احناف، مالکیہ، شوافع اور حنابلہ، ہندوستان میں اہل سنت کی اکثریت احناف کی ہے، ان کے علاوہ اہل حدیث مکتبۂ فکر ہے، جو سعودی عرب کے فتویٰ پر عمل کرتا ہے، یہ پانچوں مکاتب فکر اس بات پر متفق ہیں کہ داڑھی کا مونڈانا حرام ہے۔
۰ فقہ حنفی کی معتبر کتاب درمختار میں ہے:
ویحرم علی الرجل قطع لحیتہ (درمختار مع ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ، باب الاستبراء:۵؍۵۲)
مرد پر داڑھی کٹانا حرام ہے۔
۰ مذہب مالکی کی ایک اہم کتاب حاشیہ دسوقی میں ہے:
ویحرم علی الرجل حلق لحیتہ (حاشیہ دسوقی علی الشرح الکبیر، تالیف: محمد بن عرفہ دسوقی مالکی،باب احکام الطہارۃ، فصل احکام الوضوء: ۱؍۲۹)
۰ فقہ شافعی کی کتابوں میں لکھا گیا ہے:
الصواب تحریم حلقھا جملۃ لغیر علۃ بھا (اعانۃ الطالبین للبکری الدمیاطی، باب الحج :۲؍۳۸۶)
صحیح نقطۂ نطر یہی ہے کہ بلا عذر پوری داڑھی کا مونڈا لینا حرام ہے۔
۰ حنبلی مکتبۂ فکر میں کہا گیا ہے:
یعفیٰ لحیتہ ویحرم حلقھا (شرح منتھی الارادات، تالیف: منصور بن یونس البھوتی، کتاب الطہارۃ، باب التسوک: ۱؍۷۸)
داڑھی رکھی جائے گی اور اس کا مونڈنا حرام ہے۔
۰ اہل حدیث مکتبہ فکر کے ایک اہم اور معتبر مفتی ، سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ ابن عثیمین ہیں، وہ فرماتے ہیں:
حلق اللحیۃ محرم؛ لأنہ معصیۃ لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( فتاویٰ نور علی الدرب لابن عثیمین، فتاوی الطہارۃ، باب السواک و سنن الفطر: ۷/۲)
داڑھی مونڈنا حرام ہے؛ کیوں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہے۔
غرض کہ اس بات پر اسلام کے معتبر شارحین اور فقہاء کا اتفاق ہے کہ داڑھی رکھنا واجب ہے اور اس کا مونڈانا حرام ہے۔
ضروری وضاحت
کسی مذہب میں کون سا عمل ضروری ہے؟ اس کو مذہب کے بنیادی کتابوں اور اس مذہب کے معتبر شارحین کی تشریح کے ذریعہ ہی سمجھا جا سکتا ہے، نہ کہ مذہب کے ماننے والوں کے عمل کے ذریعہ، جیسے اسلام میں پانچ وقت کی نماز پڑھنا فرض ہے؛ لیکن بعض مسلمان اس میں کوتاہی کرتے ہیں، اسی طرح شراب پینا حرام ہے؛ لیکن بعض مسلمان اس گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں، تو ان کا عمل اس بات کی دلیل نہیں ہو سکتی کہ نماز چھوڑنا اور شراب پینا اسلام میں جائز ہے۔