سہیل انجم
سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی نے اپنے لندن کے دورے میں ہندوستان کی موجودہ سیاست کے بارے میں اظہار خیال کیا کیا کہ پوری حکومت ان کے پیچھے پڑ گئی ہے۔ ان پر ملک کو بدنام کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہ تک کہا جانے لگا ہے کہ راہل گاندھی سے ملکی اتحاد اور سالمیت کو خطرہ ہے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما ہوں یا مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور کرن رجیجو یا بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا اور روی شنکر پرساد یا دوسرے لیڈر سب تلملا اٹھے ہیں۔ ان کی تلملاہٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ راہل گاندھی نے ان لوگوں کی دکھتی رگ پر انگلی رکھ دی ہے اور اس طرح رکھ دی ہے کہ وہ سب تڑپ اٹھے ہیں۔
کہتے ہیں کہ حق بات بڑی تلخ ہوتی ہے۔ سچ بڑا کڑوا ہوتا ہے۔ سچ کو برداشت کر پانا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی دل گردے کی جس کا مظاہرہ راہل بار بار کرتے رہے ہیں۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے لوگوں نے راہل کو کیا کیا نہیں کہا۔ ان کا مذاق اڑانے کے لیے پپو کہا گیا اور جب عوام نے انھیں پپو ماننے سے انکار کیا اور ان لوگوں کی کروڑوں روپے کی مہم بیکار چلی گئی تو ایک بار پھر انھیں بدنام کرنے کی کوششیں تیز کر دی گئی ہیں۔ لیکن انھوں نے کبھی بھی آپا نہیں کھویا اور حکومت اور بی جے پی والوں کے بارے میں کوئی غیر اخلاقی بات نہیں کی۔ کرن رجیجو نے کہا ہے کہ بیرون ملک کے لوگ پپو کو نہیں جانتے۔ کرن رجیجو جی آپ اس وقت مرکزی کابینہ میں وزیر ہیں لیکن آپ کو بیرون ملک لوگ اتنا نہیں جانتے ہوں گے جتنا کہ راہل گاندھی کو جانتے ہیں۔
راہل گاندھی کی تعلیم ہی وہیں ہوئی ہے جہاں وہ بول رہے تھے۔ ان کا خاندان جس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہے اس کی ایک سو سینتیس سال پرانی تاریخ ہے۔ اس نے ملک پر کئی دہائیوں تک حکومت کی ہے۔ اس خاندان نے ملک کو تین تین وزرائے اعظم دیئے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس خاندان کے دو وزرائے اعظم کو ملکی خدمت کے صلے میں شہید کیا جا چکا ہے۔ اندرا گاندھی کو تو ان کے وزیر اعظم رہتے ہی شہید کیا گیا۔ جبکہ راجیو گاندھی کو ایک انتخابی ریلی میں شہید کیا گیا۔ راہل گاندھی جب بھی باہر جاتے ہیں تو اپنی ذاتی شبیہ لے کر جاتے ہیں۔ اپنی بنیاد پر جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ان کی پارٹی کی تاریخی خدمات کا پورا دور بھی موجود ہوتا ہے۔
لیکن بی جے پی کے لوگوں کے پاس کیا ہے۔ ان کی کون سی ملکی خدمت کی تاریخ ہے۔ موجودہ حکومت کے وزیر جب باہر جاتے ہیں تو ان کے پاس کون سا تاریخی ورثہ ہوتا ہے۔ کانگریس نے ہندوستان کو آزاد کرانے کے لیے چلنے والی قومی تحریک کی قیادت کی تھی۔ جبکہ بی جے پی کی نظریاتی ماں آر ایس ایس نے جنگ آزادی کی مخالفت کی اور انگریزوں سے وفاداری کو ترجیح دی۔ انگریزوں سے معافیاں مانگیں۔ جب بی جے پی نے جنگ آزادی کے حوالے سے اپنا دامن خالی دیکھا تو نقلی مجاہدین پیدا کرنے کی مہم شروع کر دی۔ لیکن ان لوگوں کو ایک فلمی نغمے کا یہ شعر یاد رکھنا چاہیے کہ:
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
آج راہل گاندھی کے بیانات کا حوالہ دے کر کہا جا رہا ہے کہ وہ ملکی اتحاد و سالمیت کے لیے خطرہ ہیں۔ کیا ایک ایسے خاندان کے کسی فرد سے ملکی سالمیت کو خطرہ ہو سکتا ہے جس نے ملک کی خدمت کے لیے اپنے دو دو سپوتوں کو دہشت گردی کا شکار بنا دیا ہو۔ ملکی اتحاد و سالمیت کو تو ان لوگوں سے خطرہ ہے جو مذہب کے نام پر عوام کو تقسیم کر رہے ہیں۔ جو مذہب کے نام پر لوگوں کو لڑا رہے ہیں۔ جو ملک کے سیکولر کردار کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ جو گنگا-جمنی تہذیب کے ورثے کو ملیا میٹ کر رہے ہیں۔ جنھوں نے اس ملک کی دو بڑی آبادیوں یعنی ہندووں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے۔ جنھوں نے جمہوری اصولوں کا جنازہ نکال دیا ہے۔ جنھوں نے آئینی و جمہوری اداروں کی جڑیں کھود دی ہیں۔ ملکی اتحاد کو ان لوگوں سے خطرہ ہے۔ اسی کو کہتے ہیں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔
حالانکہ راہل گاندھی نے لندن میں ملک کے خلاف کچھ نہیں کہا پھر بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ ملک کو بدنام کر رہے ہیں۔ انھوں نے ایک اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے موجودہ سیاسی نظام کے بارے میں اپنے خیالات رکھے ہیں۔ ان کو ایک سیاست داں کی حیثیت سے ان باتوں کو رکھنے کا پورا پورا حق ہے۔ اگر ملک کے وزیر اعظم دوسرے ملکوں میں جا کر اب تک کی ستر سالہ حکومتوں کو برا بھلا کہہ سکتے ہیں تو پھر ایک اپوزیشن لیڈر موجودہ حکومت کی ان پالیسیوں پر تنقید کیوں نہیں کر سکتا جن کو وہ غلط سمجھتا ہے۔ راہل نے اپنے کسی بھی بیان میں کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے ملک کے وقار پر آنچ آتی ہو۔ جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے باہر جا کر ایسے کئی بیانات دیئے ہیں جن کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے 2015 میں کناڈا کے دورے کے موقع پر ٹورنٹو میں بولتے ہوئے کہا تھا کہ جن کو گندگی کرنی تھی وہ گندگی کرکے چلے گئے ہیں ہم صفائی کرکے جائیں گے۔ یعنی انھوں نے سابقہ حکومتوں کو گندگی پھیلانے والا قرار دیا۔ اسی موقع پر انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارا کام ’اسکل انڈیا‘ بنانا ہے ’اسکیم انڈیا‘ نہیں۔ یعنی اب تک کا جو انڈیا تھا وہ اسکیم انڈیا تھا۔ اب تک اس ملک میں صرف گھوٹالے ہوتے تھے۔ حالانکہ اس حکومت میں جو گھوٹالے ہو رہے ہیں وہ کم نہیں ہیں۔ مستقبل میں کوئی ایسی حکومت ضرور آئے گی جو اس حکومت کا حساب لے گی۔
وزیر اعظم نے 2016 میں چین کے شنگھائی میں ہندوستانی تارکین وطن سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب سے پہلے آپ کو ہندوستان پر شرمندگی تھی لیکن اب نہیں ہے۔ اب آپ کو اپنے ملک پر فخر ہے۔ انھوں نے 2015 میں ساوتھ کوریا کے سیول میں خطاب کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ پہلے لوگ سوچتے تھے کہ انھوں نے پچھلے جنم میں ضرور کوئی پاپ کیا ہوگا جو بھارت میں پیدا ہوئے۔ لوگ دوسرے ملکوں میں جا کر آباد ہوتے تھے لیکن اب وہ کم تنخواہوں پر بھی اپنے ملک میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ 2015 میں متحدہ عرب امارات کے دورے پر انھوں نے کہا کہ ان کی حکومت کو صرف مسائل کے انبار ملے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ راہل گاندھی نے جب سے بھار ت جوڑو یاترا کی ہے ان کا سیاسی قد بہت بلند ہو گیا ہے۔ ان کی مقبولیت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور ان کو دیکھنے اور ان کے بارے میں سوچنے کا عوامی نظریہ مثبت انداز میں بدلا ہے۔ راہل اپنے اقدامات سے اپوزیشن کو متحد کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ بی جے پی بوکھلا گئی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ راہل گاندھی سے ملک کو نہیں بلکہ بی جے پی کو خطرہ ہے اور اسی لیے انھیں بدنام کرنے اور ان پر بے بنیاد الزامات عاید کرنے کی مہم شروع کر دی گئی ہے۔ لیکن حکومت اور بی جے پی کے ذمہ داروں کو سمجھنا چاہیے کہ عوام نے سچائی جان لی ہے اور وہ ان کی ان چالوں میں پھنسے والے نہیں ہیں۔