مولانا عبدالحمید نعمانی
انسانی سماجوں اور مختلف آبادیوں کی تہذیبوں و روایتوں سے متعلق رویے کے دو پہلو ہوتے ہیں، (1) تصادم کا پہلو، (2) لین دین، باہمی تعارف و احترام کا پہلو، گزشتہ کچھ عرصے سے تہذیبوں کے درمیان تصادم کے نظریہ و عمل کو نمایاں کرنے اور فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، خاص طور سے یورپ و مغرب میں اور اس کی کورانہ تقلید و غلامانہ ذہنیت کے تحت تیسری دنیا کے ممالک، بھارت جیسے ملک میں تہذیبی و فرقہ وارانہ تصادم کو بڑھاوا دینے کا عمل، ایک مخصوص طبقے کے کاروبار حیات کا حصہ بن چکا ہے، انسانی وحدت اور باہمی ہم آہنگی اور اختلافات کے باوجود، مشترک مسائل میں یک جہتی کے ساتھ زندگی گزارنے کا معاملہ خاصا قابل توجہ ہے اور یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ انسانی آبادی کی توسیع کے ساتھ، اس کی ضرورت و معنویت بنی ہوئی ہے اور آئندہ بھی بنی رہے گی، بھارت میں بھی ماضی بعید و قریب سے حال تک، مستقبل کی نقشہ گری اور ترقی و سماجی ارتقاء کے پیش نظر سماج کے سنجیدہ افراد خصوصا جو کسی نہ کسی طور سے سربراہی و قیادت کی ذمہ داری نبھانے ہیں، انسانی و تہذیبی روپے کو نظرانداز نہیں کر سکتے ہیں، ان کے لیے تصادم اور باہمی تقرب اور تعارف و احترام میں سے مثبت پہلو کو اختیار کر کے ایک پر امن معاشرے کی تشکیل اور بقائے باہم کا راستہ ہموار کرنا ضروری ہے۔
گزشتہ 8/9 برسوں سے ایک مخصوص قسم کی سیاسی صورت گری سے جو کئی طرح کے سوالات و مسائل پیدا ہوئے ہیں ان کے حوالے سے مختلف نوعیت کے امور زیر بحث آ رہے ہیں ان کو نظرانداز کرنا کوئی دانش مندی اور ذمہ دارانہ عمل نہیں ہے، الگ الگ حلقوں میں چھوٹے بڑے پیمانے پر مختلف طبقات کے افراد اپنے حصے کا کردار ادا بھی کر رہے ہیں تاہم جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی اور سنگھ کے سنچالک ڈاکٹر موہن بھاگوت کے بیانیے دیگر سے بہت نمایاں اور مسلسل موضوع بحث اور سب سے زیادہ قابل توجہ رہے ہیں گرچہ کچھ اوروں کے بیانات و تبصرے بھی موضوع بحث بنے ہیں تاہم مدنی اور بھاگوت کے بیانیے کا معاملہ بالکل الگ اور ممتاز و منفرد ہے، بھاگوت کے بیانیے، سب کا ڈی این اے ایک ہے، جات، بھگوان نے نہیں، پنڈتوں نے بنائی ہے، ہندو دھرم گرنتھوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور یہ کہ مسلمان اپنے آباؤ و اجداد کی طرف واپسی کر سکتے ہیں، نے لوگوں کو کئی طرح کی باتیں سوچنے، جاننے پر متوجہ کیا ہے تو وہیں مولانا مدنی کے بیانیے، بھارت مسلمانوں کا آبائی وطن ہے، اس سے ان کا قدیم رشتہ ہے، اللہ، اوم، آدم، اول اور منو کے حوالے سے اصل دین و عقیدہ، نسل انسانی کے آغاز، وحدت الہ اور مسلمانوں کے اپنے اصل گھر میں رہنے کی باتوں نے کئی طرح کے مفروضات کو منہدم کر کے ہندوتو وادی دعوؤں پر ضرب شدید لگانے کے ساتھ معاملے کو ایک مخصوص رخ دے دیا ہے، مولانا مدنی کے بیانیے نے ہندو مسلم علیحدگی پسند عناصر کے اغراض و مقاصد کو ایک طرح سے خاک نامرادی میں ملا دیا ہے، وہ جس فرقہ وارانہ ذہنیت کے حوالے سے اپنی زمین تیار کر کے اس میں اپنے مفادات کی کھیتی کرتے ہیں وہ کھسکتی نظر آ رہی ہے، اس سے وہ بے چین اور بیاکل ہو گئے ہیں لیکن اتحاد و وحدت انسانی کے خواہاں سنجیدہ، سمجھ دار، افراد، مولانا مدنی کے بیان کو اپنے دل کی آواز سمجھ رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وحدت الہ کا نظریہ اور عقیدہ توحید، عظمت الہ اور توقیر انسانی سے عبارت ہے اور سماجی اقدار کا لحاظ اور تہذیبی تعارف و احترام اور لین دین، مشترک سماجوں کی ضرورت اور مثبت سوچ کا اظہار و علامت ہے، جب کہ تہذیبی تصادم کا نظریہ و عمل، ذہنی بگاڑ اور فکری کجی کی علامت ہے، یہ کوئی راز نہیں ہے کہ اصل ہندستانی اقدار و روایات باہمی تعارف و احترام اور باہمی لین دین پر مبنی ہیں، جب کہ ایک عالم گیر دین ہونے کے ناتے، اسلام میں اس کے اصولوں میں سے ایک اصول، تکریم انسانی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اس نے شرائع و مناہج کے اختلافات کو تسلیم کر کے باہمی رواداری کو فروغ دینے کا کام کیا ہے، اس سے پرامن بقائے باہم کی راہ ہموار ہوئی ہے، تخلیق انسانی کے اجزاء میں مساوات اور ایک ماں باپ سے انسانی رشتہ ہونے کے تصور کے ساتھ، انسییت و قرب کا احساس پیدا ہونا ایک فطری تقاضا ہے، برعکس حالت انحرافات کا نتیجہ ہے، آدم کے متعلق یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ غیر عربی، عجمی ہے، آدم چاہے ادیم الارض یا ادمۃ سے ہو یا سنسکرت لفظ آدی سے، اصل معنی و ذات پر کوئی اثر و فرق نہیں پڑتا ہے، آدی واسی اور آدم جاتی (دال کے زیر کے ساتھ) قدیم و آغاز کے معنی میں استعمال ہوتا رہا ہے اس لحاظ سے آدمی کا اصل ہونا طے ہے، انسانی مذہب کا آغاز توحید سے ہونے اور اللہ آدم اول کے متعلق اختلافات کی کوئی بنیاد نظر نہیں آتی ہے، سماجوں کے مختلف ہونے اور اصل معنی و ذات کو بتانے کے لیے رائج الفاظ و اصطلاحات کو مسترد کر کے اصل تک رسائی کا راستہ بند کر دینا کوئی سمجھ داری کی بات نہیں ہے، مختلف سماجوں میں رائج الفاظ کا استعمال برائے تفہیم معنی، الگ معاملہ ہے اور برائے عبادت و ذکر استعمال بالکل جدا بات ہے، پہلی صورت میں گنجائش و جواز ہے جب کہ دوسری صورت میں توقیفی طور سے ملے لفظ و معنی کا ترک انحراف و الحاد کے ذیل میں آتا ہے، اس کا کوئی بھی ذی علم تائید نہیں کر سکتا ہے، اس تناظر میں آذان یا مواقع ذکر میں اللہ یا دیگر اسماء حسنی کے بجائے دیگر زبانوں کے اسماء و اصطلاحات کے استعمال کی بات نا سمجھی وکم علمی پر مبنی ہے خالق کائنات نے تمام نبیوں، رسولوں کو اپنے علاقے کی اپنی قوم کی زبان میں بھیجا تھا، سب نے اپنی اپنی قوم کی زبان میں خالق قدیر کے پیغام، صرف واجب الوجود کی عبادت کی تعلیم دی، الفاظ و اصطلاحات میں چاہے جس قدر تعدد و کثرت ہو لیکن واجب الوجود کے معنی و ذات میں کوئی تعدد و کثرت نہیں ہے، امت مسلمہ کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے تکمیل دین کے تحت معتبر و مستند طریقے سے جو لفظ و معنی ملے ہیں ان کو ترک کرکے محفوظ و مکمل سے محرف و مشکوک کی طرف جانا بے دانشی ہوگی، البتہ اصل اور محفوظ و مکمل تک رسائی کے لیے ہر ممکنہ راستے کو اختیار کیا جانا چاہیے، علیحدگی پسندی پر مبنی فکر و عمل، سچ کی تلاش اور اصل سے وابستگی و یافت میں رکاوٹ ہے، اس کو پر امن بقائے باہم اور وحدت الہ و وحدت انسانی کے طاقتور تصور و جذبے سے ہی دور کیا جا سکتا ہے اس سلسلے میں کلمہ سوا۶(سورہ آل عمران آیت 64) دیگر کو دعوت کی مشترک بنیاد ہے اور وہ ہے،صرف واجب الوجود ذات کی عبادت، متعلقہ آیت میں کہا گیا ہے،
”کہہ دو کہ اے اہل کتاب، آ جاؤ ایک ایسی (انصاف والی) بات کی طرف جو ہم میں اور تم میں مشترک (برابر) ہے (اور وہ بات یہ ہے) کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرائیں اور اللہ کو چھوڑ کر ہم دوسرے کو رب نہ بنائیں، پھر بھی اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دو، گواہ رہنا کہ ہم مسلمان ہیں“ اس کے نتیجے میں سچ اور اصل سے وابستگی و یافت ایک طے شدہ اور یقینی امر ہو جائے گی۔
noumani.aum@gmail.com