ڈاکٹر فر قان حمید
اب جبکہ ترکیہ میں تاریخ کے سب سے بڑے اور اہم انتخابی معرکے، صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں صرف چند دن ہی باقی رہ گئے ہیں انتخابی مہم اپنے زوروں پر ہے ۔ اگرچہ اس بار اس انتخابی مہم میں رقص و موسیقی کو 6 فروری کو آنے والے ہولناک زلزلے ،جس میں 50 ہزار سے زائد اموات ہوئی ،کی و جہ سے استعمال نہیں کیا جارہا لیکن اس کے باوجود بڑی گرمجوشی سے انتخابی مہم کا سلسلہ جاری ہے۔ صدر رجب طیب ایردوان گزشتہ بیس سال سے ترکیہ کی تاریخ کے طویل ترین مسلسل حکمراں رہنے والے واحد ترک حکمراں ثابت ہوئے ہیں ۔ انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں دفاعی صنعت، پیداوار، ڈرونز، مقامی سیٹلائٹ، مقامی الیکٹرک گاڑیوں ، الیکٹرونک سازو سامان اور سیاحت کے شعبے میں جو کارہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں ان کی بدولت ان کا نام ترکیہ کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صدر ایردوان نے ترکیہ کو دفاعی لحاظ سے خطے کا سب سے مضبوط اور مستحکم ملک بنادیا ہے اور اب کسی بھی ملک میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ ترکیہ کو میلی آنکھ سے دیکھ سکے بلکہ اب فرانس ،برطانیہ، جرمنی، اور امریکہ تک کو ترکیہ سے متعلق کوئی بھی قدم اٹھانے سے قبل سو بار سوچنا پڑتا ہے۔ ترکیہ کے قارا باغ میں ڈرونز کے استعمال سے حاصل کردہ فتح، لیبیا میں ترک مسلح افواج کی گرفت، شام اور عراق کی سرحدوں کے اندر دور تک داخل ہو کر فوجی آپریشن کرنے کی صلاحیت نے اور پھر فن لینڈ اور سویڈن کی نیٹو کی رکنیت پر ترکیہ کے ردِ عمل اور ویٹو نے ترکیہ کو وہ مقام دلوادیا ہے جس کے بارے میں اس سے قبل سوچنا بھی ممکن نہ تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت ترک سیاست میں صدر ایردوان کے پائے کا کوئی بھی سیاسی لیڈر موجود نہیں اور کسی بھی رہنما میں اتنی سکت نہیں کہ وہ تنہا صدر ایردوان کا مقابلہ کرسکے اور صدر ایردوان کو حاصل ووٹوں کے لگ بھگ ووٹ حاصل کرسکے ۔ یہی وجہ ہے کہ ترکیہ کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے صدر ایردوان کے خلاف ایک مشترکہ پلیٹ فارم تلے جسے’’ ملت اتحاد‘‘ کا نام دیا گیا ہے صدر ایردوان کو اس بار اقتدار سے ہٹانے کا عزم کیا ہوا ہے۔ ایک دوسرے سے بالکل متضاد خصوصیات اور نظریات کی حامل ان جماعتوں کے رہنماؤں نے صرف ایردوان کی مخالفت میں یکجا ہو کر اپنے نظریات کو ایک طرف رکھتے ہوئے صرف ایردوان کو شکست سے دوچار کرنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے ۔ اپوزیشن کا صدر ایردوان کو شکست سے دوچار کرنا کوئی آسان کام نہیں لیکن ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے ایردوان نے خود ہی ان کیلئے آسانی پیدا کردی ہے۔ یعنی اگر یہ کہا جائے کہ صدر ایردوان کا مقابلہ ان رہنماؤں سے نہیں بلکہ مہنگائی سے ہے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اس دفعہ ان انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔ جیسا کہ عرض کرچکا ہوں کہ ایردوان کے دور میں ترکیہ میں جو ترقی ہوئی ہے اس سے پہلے ترکیہ میں ایسی ترقی ممکن ہی نہ تھی، یعنی دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ ترکیہ اس وقت نہ صرف ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوچکا ہے بلکہ کئی ایک شعبوں میں ان سے آگے بھی نکل چکا ہے لیکن ترک عوام کی اکثریت اس ترقی کے باوجود خوش نہیں ہے کیونکہ وہ ان ترقی یافتہ ممالک کے عوام کے معیار زندگی سے بہت کم تر معیار پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔ ترک عوام کا اس وقت نصف سے بھی زائد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے بے بسی و کسمپرسی میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک ترک خاتون کا بیان’’ غیر ملکیوں کیلئے ترکیہ جنت بن چکا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی سیاح ترکیہ کی سیر کو آرہے ہیں اور اپنے پیچھے ترکیہ میں 50 بلین ڈالر سے زائد رقم چھوڑ کر جا رہے ہیں تو یہی ملک مقامی ترکوں کے لئے جہنم بن چکا ہے جہاں اپنے شہر سے دوسرے شہر میں تعطیلات گزارنا تو کجا زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے۔ ترکیہ کی نصف سے زائد آبادی گوشت ، پنیر، انڈے اور دیگر ضروری اشیاء حاصل کرنے سے محروم ہوچکی ہے۔ ترکیہ میں اس وقت کم از کم تنخواہ (اصغری اجرت) 420 ڈالر ہے اور اس تنخواہ سے ترکیہ کے تمام بڑے شہروں میں کرائے پر دو کمروں کا گھر حاصل کرنا ممکن ہی نہیں رہا ۔ ترکیہ میں گزشتہ دو سال سے گھروں کے کرایوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور حکومت اس سلسلے میں اب تک کوئی ٹھوس قدم اٹھانے میں ناکام رہی ہے۔
اگرچہ ایردوان حکومت نے تنخواہوں میں اضافہ تو کیا ہے لیکن یہ اضافہ افراط زر (مہنگائی) میں ہونے والے اضافے کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے بلکہ تنخواہوں میں اضافے کی وجہ ہی سےافراطِ زر (مہنگائی) میں ہونے والے اضافےنے تنخواہ دار طبقے کیلئے نہ صرف مشکلات کھڑی کردی ہیں بلکہ ان کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ ترکیہ اس وقت دنیا میں افراطِ زر (مہنگائی) کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے ۔اپوزیشن کے صدارتی امیدوار کمال کلیچ دار اولو اپنی انتخابی مہم کے ایک اشتہار میں ہاتھ میں پیاز لے کر حکومت پر انسانی ضروریات سے محروم کرنے کا الزام لگاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ان کی اشتہاری مہم بڑی مقبولیت بھی حاصل کررہی ہے۔ کلیچ دار اولو ہی کے ایک اشتہار میں ’’ پانچ کے جتھے‘‘ کی 418 بلین ڈالر کی لوٹ مار کو پیش کیا گیا جس پر حکومت کے حامی تمام ٹیلی وژن چینلز نے پابندی عائد کردی ہے لیکن یہ اشتہار سوشل میڈیا پر ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔ اپوزیشن اس لوٹ مار ہی کو ترکیہ میں مہنگائی کی وجہ قرار دے رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا صدر ایردوان مقابلہ کرسکیں گے؟