کہیں ڈاکٹر ایوب بھی تو “مودی” کی ڈگر پر نہیں چل رہے ہیں؟

 جمیل اختر شفیق
اترپردیش میں پیس پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر محمد ایوب پچھلے کئ مہینے سے ملک کے ایک کثیر الاشاعت اردو اخبار میں اپنی کارکردگی کا مسلسل اشتہار دے رہے ہیں جو بڑے بڑے وعدوں ارادوں کی تفصل کے ساتھ صفحہ اول پہ شائع ہورہاہے، وہ بھی ایک ایسے اخبار میں جسے دینک جاگرن نے خرید لیا ہے اور قارئین کو شاید یہ بات معلوم نہ ہو دینک جاگرن آر ایس ایس کا اخبار ہے، جو ایک مدت سے پابندی کے ساتھ ملک کے مختلف حصوں سے نکل رہاہے، اس تناظر میں ہمیں اُس اردو کے عملہ کی نیتوں پہ کوئ کلام نہیں ہے ہوسکتا ہے کہ ان کے کلیجے میں مسلمانوں کا درد ہو، مسلمانوں کی فلاح وبہبود اور تعمیری افکار ونظریات کی تشکیل کے لیے سرگرداں ہوں لیکن ہمیں یہ بات قطعی نہیں بھولنی چاہیے کہ ایک ملازم صرف ملازم ہی ہوتا ہے مالک نہیں ہوسکتا- ہر چیز اپنی بنیاد سے پہچانی جاتی ہے جس اخبار کی بنیاد ہی مسلم دشمنی پہ قائم ہو، جس کا نظریہ ہی ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ ہو، جس کی کارکردگی ہی گنگا جمنی تہذیب کے ماتھے پہ کلنک ہو اگر اس میں اشتہار دیا جانا دراصل اس کی مالی معاونت ہے، اس کی مالی حیثیت کو مضبوط کرنا ہے اور دشمن کو ہم مضبوط کرتے ہیں تو وہ کسی بھی طور پر ہمارے حق میں مناسب نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ کل ہو کر وہ اپنی طاقت ہمیں برباد کر نے ہی میں جھونکیں گے ،ملک کے اندر بہت سارے اردو اخبارات ہیں جو ملی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہو ئے اپنے لائحہء عمل میں اس اس نظریے کو اولین ترجیح دیتے ہیں کہ کس طرح ملک میں بھائ چارہ کی فضا قائم ہو، ہر موڑ پہ فرقہ پرست طاقتوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے اخبار کو اتنی بڑی رقم کا اشتہار دے کر ڈاکٹر ایوب کونسی مسلم دوستی کا ثبوت پیش کررہے ہیں ؟ قوم کی کیسی ہمدردی بٹورنا چاہتے ہیں؟ یہ ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا-
پچھلے الیکشن کی بات کریں تو مودی جی کی اشتہار بازی نے گرچہ انہیں ایک حلقے میں مقبولیت دلائ اور وہ ملک کی عظیم کرسی پہ اپنی کاسہ لیسی سے براجمان بھی ہوگئے لیکن اس کے بعد جو ملک کی تصویر اُبھر کرسامنے آئی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، دعوے بڑے کیے گئے، باتیں بہت بنائ گئیں اور صورتحال یہ ہے کہ مودی نے ہر محاذ پہ آر ایس ایس کے سورماؤں کو خوش کرنے کے لیے ملک کے کڑوڑوں لوگوں کو خون کے آنسو بہانے پہ مجبور کردیا ،اس کے ملک گیر سطح پر جو غم وغصہ ہے اسے الفاظ دینے کی ضرورت نہیں شدت سے محسوس کیا جاسکتا ہے، عوام کو یہ بات سمجھ میں آئی کہ بڑے عزائم کی تکمیل ترقی کا ڈھنڈورا پیٹنے سے نہیں عمل سے ہوتی ہے –
ملک کی موجودہ سیاست کی بات کی جائے تو دو نظریہ سیاسی پارٹیوں کے مابین سر چڑھ کے بول رہاہے کچھ پارٹیاں کام کم کرتی ہیں اوراشتہار بازی زیادہ جبکہ کچھ کام زیادہ کرتی ہیں اور اشتہار کم، ملک کے عوام کا سیاسی شعور ٹھوکریں کھاتے کھاتے اتنا تو ضرور بڑھا ہے کہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ کیسے لوگوں کو اقتدار میں آنا چاہیے؟ وہ اب یہ کھل کر کہنے لگے ہین کہ جو لوگ اشتہار بازی کے بجائے کام کرتے ہیں سپورٹ ان ہی کو کیا جائے –
ڈاکٹر ایوب کس آئیڈیا لوجی کے تحت سیاست کررہے ہیں وہ بھی نگاہوں کے سامنے ہے، سوال صرف اشتہار کا نہیں ان لاکھوں روپیوں کا ہے جو پانی کی طرح اشتہار کے نام پر بہایا جارہاہے اور نام نہاد مسلم سربراہوں کی تصویریں ساتھ میں شائع کرکے مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی جارہی ہے، اگر کوئ مسلم سیاسی پارٹی الیکشن میں آنا چاہتی ہے تو اس کے قائدین کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سب سے پہلے وہ مسلمان ہیں اس کے بعد ایک نیتا ان کے پاس اگر دولت ہے تو اس کا جائز استعمال ہونا چاہیے یہ نہیں کہ کسی سر پھرے نے اگر اشتہار بازی سے وقتی کامیابی حاصل کر لی تو اسی کی ڈگر پہ چلاجائے آنکھیں موند کر اس کی اقتداء کی جائے اس سے اس پارٹی کی بنیاد کمزور ہوگئ کامیابی کے بجائے اسے ناکامی ہاتھ آئے کیونکہ “جنگیں نقل سے نہیں عقل سے جیتی جاتی ہیں”ملک کا سیکولر امن پسند انسان اس بات کو اچھی طرح محسوس کرتا ہے کہ کام کرنے والے لوگ اشتہار بازی نہیں خاموشی سے کام کرتے ہیں چونکہ عمل براہِ راست انسان کے دل پہ اثر انداز ہوتا ہے، ہر چمکتی ہوئ چیز پل بھر کے لیے آنکھوں کو خیرہ ضرور کرتی ہے لیکن اس کا اثر دل پہ دیر تک باقی نہیں رہتا –

تقریر سے ممکن ہے نہ تحریر سے ممکن
وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے

پیس پارٹی اتر پردیش کی سیاست میں سرگرم ہے اور اتر پردیش چونکہ ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے اور وہاں کا سیاسی ڈھانچہ ہی اس بات کو طے کرتا ہے کہ ہمارا ملک کس سمت جائے گا ؟اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس لیے پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے اگر ڈاکٹر ایوب کو مسلمانوں کے مابین مقبول ہونا ہے، دیر تک سیاست کے اسٹیچ پہ بنا رہنا ہے تو اس طرح کی بچکانہ حرکتوں سے بچنا چاہیے، اور نقل میں عقل کی گرفت ڈھیلی نہیں کرنی چاہیے تب جاکر کوئ مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں-