محمد انعام الحق قاسمی
لجنہ علمیہ (ابنائے قدیم علمائے دار العلوم دیوبند)
ریاض، مملکت سعودی عرب
اسرائیل کی غیر قانونی تخلیق اور جرائم کا کلچر
مقبوضہ فلسطین کے اندر خاص طور پر گزشتہ چند ایام میں جو حوادثات رونما ہوئے ہیں اور فلسطین مسلسل نیلے و کالے دھوئیں کے اندر ڈھکا رہاہے۔ اسرائیل فلسطین پر اپنے 75 سالہ غیر قانونی غاصبانہ قبضے کے دوران اس طرح کے آتش فشاں دھماکے کو ہوا دے رہا تھا۔ اسرائیل 1948 سے پہلے دنیا کے نقشے پر موجود نہیں تھا۔ یہ اپنی پیدائش کے وقت سے ہی ایک غیر قانونی وجود ہے۔ اور یہ امریکی و مغربی حمایت سے حاصل ہونے والی اپنی فوجی طاقت سے ہی اپنا غیر قانونی وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس نے اپنی پہچان صرف اقوام متحدہ کے اخلاقی طور پر زوال پذیر سامراجی اسٹیک ہولڈرز سے حاصل کی ہے نہ کہ زمین کے حقیقی مالکان سے۔ بین الاقوامی سول قانون کے مطابق، اقوام متحدہ کے پاس بھی مالکان کی رضامندی کے بغیر ایک آدمی کی زمین دوسرے کو عطیہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اقوام متحدہ نے فلسطینیوں کی غصب کردہ سرزمین پر اسرائیل کو تسلیم کرکے ایک گھناؤنا جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ امپورٹڈ صیہونی اب اس زمین کے مالکان کو قیدی بنائے ہوئے ہیں اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ اس سے بڑی چوری اورظلم کیا ہو سکتی ہے! کیا یہ خالص یہودی استعمار اورمغرب و امریکہ کا دوغلہ پن نہیں ہے؟
برطانوی قبضے سے پہلے فلسطین میں یہودیوں کی آبادی 5 فیصد سے بھی کم تھی۔ لیکن صہیونیوں اور ان کے برطانوی استعماری سرپرستوں نے وہاں یہودیوں کے لیے ایک ناجائز ریاست بنانے کا منصوبہ بنایا۔ جسے آجکل اب اسرائیل کہا جاتا ہے۔ برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں نے تقسیم فلسطین کے لیے ضروری زمینی حقائق پیدا کرنے اور صہیونیوں کو سب سے بڑا حصہ دینے کے لیے آبادیاتی تبدیلیاں کیں۔ صہیونی منصوبے کے پہلے دن سے، پوری دنیا سے یہودیوں کی درآمد بڑے پیمانے پر شروع ہو گئی۔ درآمد شدہ یہودیوں کے لیے جگہ پیدا کرنے کے لیے، یہودی دہشت گرد تنظیموں نے فلسطینیوں کو قتل کرنے اور ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کی دہشت گردی کی مہم شروع کی۔ برطانوی حکمرانوں نے ایسی یہودی دہشت گردی کو بلا روک ٹوک چلنے دیا۔
جب اسرائیل 1948 میں بنا تو اس طرح کی منصوبہ بند بے دخلی اس کی ریاستی پالیسی بن گئی۔ اور 1948 میں یہودی دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کو اپنے ہی گھر سے بے دخل کردیا گیا۔ اسے فلسطین کی تاریخ میں نکبہ (عظیم آفت) کہا جاتا ہے۔ اس بدترین سال میں تقریباً 700,000 فلسطینیوں کو فلسطین سے نکال دیا گیا اور 500 سے زیادہ دیہات تباہ کر دیے گئے۔ 75 سال سے بے دخل کیے گئے فلسطینی لبنان، اردن، مصر، شام اور عراق میں پناہ گزین کیمپوں میں بدحالی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ انہیں اپنے آبائی گھروں میں واپس جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اسرائیل نے ان کی واپسی کو روکنے کے لیے ظالمانہ قوانین بنائے ہیں۔ جو لوگ اسرائیل کے اندر ہیں، انہیں ایسی خالص ظلم و ناانصافی کے خلاف احتجاج کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
تاہم برطانوی استعمار کی ایسی مجرمانہ کارروائیوں میں مشرق وسطیٰ کے سیکولر اور قبائلی مسلمانوں کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ دس لاکھ سے زیادہ عرب مسلمانوں نے خلافت عثمانیہ کی سلطنت کے خلاف لڑنے کے لیے برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کی ۔ 200,000 سے زیادہ بھارتی مسلمان بھی خلافت عثمانیہ کے خلاف برطانوی مہم میں شامل ہوئے۔ جب جنرل ایلنبی کی قیادت میں برطانوی فوج نے فلسطین کو فتح کیا تو اس کے زیادہ تر فوجی غیر برطانوی تھے جن میں بھارتی مسلمان فوجی بھی تھے۔
اسرائیل خالص شر اور بربریت کا شعار
اسرائیل روئے زمین پر خالص شر و بربریت کی ایک منفرد علامت کے طور پر قائم ہے۔ جو ممالک اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کی پالیسی کی حمایت کرتے ہیں وہ بھی شر و بربریت میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ واقعی انسانیت کے خلاف بہت بڑا جرم ہے۔ اس طرح کے جرم و شر میں شرکت سے اسرائیل میں جرائم کا کلچر پیدا ہوا ہے۔ اس لیے گھروں کو زمین بوس کرنا، زمینوں پر قبضہ کرنا، مالکان کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنا، مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کرنا اور نہتے مظاہرین کو جیلوں میں ڈالنا اسرائیلی نظریہ، ثقافت، اقدار اور سیاست کا حصہ بن چکے ہیں۔
صہیونی یہودی ایک عظیم تر (گریٹر) اسرائیل کا خواب دیکھتے ہیں۔ اس لیے یہودی آبادی کو بیرونی دنیا سے درآمد کرنے کی پالیسی جاری ہے۔ اور انہیں جگہ دینے کے لیے فلسطینیوں سے مزید زمینیں ہتھیانے کی پالیسی بھی جاری ہے۔ چنانچہ 1948 کے اسرائیل کی سرحد سے باہر مغربی کنارے کے علاقوں میں سینکڑوں نئی آباد کاری کالونیاں مسلسل تعمیر کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے گولان کی پہاڑیوں، مشرقی یروشلم کو اسرائیل میں ملا لیا ہے اور اب غزہ کو بھی ضم کرنے کا ارادہ ہے۔ چنانچہ غزہ کے فلسطینیوں کو زبردستی بے دخل کرنے کی پالیسی پر عمل درآمد ہونے جارہا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمین نیتن یاہو نے پہلے ہی غزہ کے باشندوں سے کہا ہے کہ وہ زمین چھوڑ دیں۔
حماس نے معجزاتی کمال کر دکھایا
اسرائیل کی صیہونی حکومت زمینوں پر قبضہ کر سکتی ہے، مکانات کو تباہ کر سکتی ہے اور لوگوں کو قتل کر سکتی ہے لیکن فلسطینیوں کی ایمانی قوت اور جذبہ جہاد کو ختم نہیں کر سکتی۔ اور یہ اسلامی تحریک حقیقتا اسلامی جنگجوؤں کو عسکری اختراعات و ایجادات کرنے کی مسلسل ترغیب دیتی رہی ہے۔ درحقیقت تحریک حماس نے 7 اکتوبر کو جو کمال کیا وہ ایک معجزہ ہے۔ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی دونوں دراصل کھلی فضائی جیلیں ہیں۔ غزہ کا تقریباً 365 مربع میل مشرق، شمال اور مغرب تین محاذوں پر اسرائیل سے گھرا ہوا ہے۔ اس کی جنوبی سرحد پر مصر واقع ہے۔ اسرائیل اور غزہ کی سرحد دنیا کی سب سے زیادہ مضبوط سرحد ہے۔ یہ ہر وقت اسرائیلی نگرانی میں رہتا ہے۔ سرحد پار کرنے والا پرندہ اور جانور بھی اس کی نظروں سے نہیں بچ سکتا۔
غزہ پٹی کو در حقیقت ساری دنیا سے کاٹ دیا گیا ہے۔ اسکے پاس اس کا کوئی سمندری پورٹ یا ہوائی اڈہ نہیں ہے۔ غزہ میں کوئی شیئ یاشخص بھی داخل ہوتا ہے تو اسرائیل کی کڑی نگرانی میں ہوتا ہے۔ پانی، بجلی اور ایندھن کی سپلائی صرف اسرائیل سے آتی ہے۔ حماس کے جنگجوؤں کو تربیت دینے کے لیے کوئی فوجی چھاؤنی نہیں ہے۔ اسے اسلحہ فراہم کرنے والوں تک کوئی رسائی نہیں ہے۔ غزہ کا ہر گھر، ہر گھر کا احاطہ اور ہر خالی جگہ اسرائیلی نگرانی میں ہے۔ یہاں تک کہ سڑک پر انسان کی ہر حرکت ان کی نگرانی میں ہے۔ ان تمام پابندیوں کے باوجود حماس نے ایک معجزہ کر دکھایا۔ حماس نے 7 اکتوبر 2023ءکو جو کیا ہےوہ اس سے پہلے دنیا کی کسی فوج نے نہیں کیا ہے۔ حماس کے جنگجو اسرائیل کے اندر داخل ہو گئے۔ اس طرح حماس نے عسکری جدت طرازی میں بڑی ذہانت کا مظاہرہ کیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری دنیا کی ملٹری اکیڈمیوں میں حماس کی یہ نئی جنگی حکمتِ عملی، فوجی ٹریننگ کورس کے لئےضروری مواد کا حصہ ہوگی۔ اسے دنیا میں آزادی کی فوجیں ایک طاقتور قابض طاقت کے خلاف مزاحمتی نمونے کے طور پراختیار کریں گی۔ پاکستان، بنگلہ دیش، مصر جیسے ممالک میں حماس کا ماڈل متبادل فوج تیار کرنے کے بارے میں نئی سوچ پیدا کرے گا۔ ان ممالک میں روایتی اشرافیہ کی فوجوں کے سفید ہاتھیوں کو پالنے کے لیے سالانہ اربوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ فوج کے ان سفید ہاتھیوں نے اپنے ہی ملک پر قبضہ کرنے اور اپنے ہی لوگوں کو قید کرنے میں اپنا ہنر دکھایا ہے۔ انہوں نے اپنی کالونیاں بنانے کے لیے منافع بخش زمینوں پر قبضہ کرنے کی اپنی مکارانہ صلاحیتیں بھی دکھائی ہیں۔ وہ درحقیقت داخلی استعمار ہیں۔ اور یہ روایتی فوجیں اپنے ہی ملک کا دفاع کرنے میں بری طرح ناکام ہوئیں ہیں۔ پاک فوج نے بھارت کے خلاف 1948، 1965، 1971 اور 1999 کی جنگوں میں بار بار اپنی ناکامیاں دکھائیں ہیں۔ مصر، شام اور اردن کی فوجوں نے بھی اسرائیل کے خلاف 1967 اور 1973 کی جنگوں میں اپنی مکمل ناکامی کا مظاہرہ کیا ہے۔
بدقسمتی سے فلسطین وہ واحد مسلم ملک نہیں ہے جو دشمن کے قبضے میں ہے۔ یہ دشمن اندرونی یا بیرونی ہو سکتے ہیں۔ پاکستان، بنگلہ دیش، شام، مصر اور سوڈان جیسے ممالک بھی فوجی اور سیاسی فاشسٹوں کی اندرونی دشمنوں کے قبضے میں ہیں۔ فلسطینیوں کی طرح ان ممالک کے عوام کو بھی کوئی جمہوری حقوق حاصل نہیں۔ فلسطینیوں کی طرح ان ممالک میں بھی ہزاروں افراد کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے۔ ان ممالک کے لوگوں کے پاس حماس سے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ آزادی،فریڈم اور انسانی حقوق کبھی بھی مفت نہیں حاصل ہوتے۔ عوام کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ درحقیقت حماس اس کی قیمت چکا رہی ہے۔ جو قیمت ادا نہیں کرتے وہ غلامی کا طوق گلے میں ڈال کر زندگی گزارتے ہیں۔ لوگوں کے پاس اپنا انتخاب و اختیار ہے۔ وہ نہ آزادی کے ساتھ رہ سکتے ہیں نہ غلامی کے ساتھ۔ حماس کے جنگجوؤں نے ایک انتخاب کیا۔ وہ نامساعد حالات میں بھی اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ لیکن پاکستان، بنگلہ دیش، شام، مصر، سوڈان کے لوگ آزادی اور وقار کے اس راستے پر چلنے کی بہت کم ہمت دکھاتے ہیں۔ وہ خاموشی سے سفاک آمروں کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ تو اس طرح کرپٹ آمروں کی حکمرانی کو ان ممالک میں لمبی عمر مل جاتی ہے۔
غرور اور تکبر ذلت کا سبب ہے
اسرائیل اپنے انتہائی جدید فوجی ہتھیاروں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں سب سے مضبوط فوجی طاقت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس کے پاس امریکہ کی طرف سے دیئے گئے جدید ترین لڑاکا طیارے ہیں۔ اس کے پاس 200 سے زیادہ جوہری وار ہیڈز ہیں۔ امریکہ نے دشمنوں کی طرف سے اسرائیل پر داغے گئےمیزائلوں سے بچانے کے لیے اپنی ہائی ٹیک آئرن ڈوم اینٹی میزائل ٹیکنالوجی دی ہے۔ اس کے فوجی افسران امریکہ کی بہترین ملٹری اکیڈمیوں میں تربیت حاصل کرتے ہیں۔ نتیجتاً اسرائیل کو ایک بڑا غرور و تکبر ہے کہ وہ ناقابل تسخیر ہے۔ بھارت جیسے ممالک اسرائیل سے ہتھیار خریدنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان سب کے باوجود حماس کے جنگجو اسرائیل کے اندر گہرائی تک جا سکتے ہیں اور 1500 سے زیادہ اسرائیلی فوجیوں کو پکڑ سکتے ہیں۔ اسیران میں فوج کے کئی اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں۔ اس طرح حماس نے ان کے غرور و تکبر کو بھیانک رسوائی میں تبدیل کر دیا ہے۔
حماس کے چند ہزار جنگجوؤں کے ہاتھوں اس ذلت کو نگلنے کے لیے اسرائیلی لیڈروں کو اب بڑی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان شاء اللہ یہ اسرائیل کے زوال کا آغاز ہے۔ اسرائیل نے اپنی کمزوری کا شاندار مظاہرہ کیا ہے۔ حماس کی کامیابی نے مشرق وسطیٰ میں ایک نئی جغرافیائی سیاست کو جنم دیا ہے۔ اب تک اسرائیلی رہنما صرف مصر، متحدہ عرب امارات، اردن، بحرین، سوڈان، مراکش اور دوسرے مزعوم عرب ممالک کے ساتھ دوستی کرنے میں مصروف تھے اور فلسطین کے اصل لوگوں کے ساتھ ہم آہنگی اور دوستی کو نظر انداز کرتے تھے۔ اس طرح کی سفارتکاری بری طرح پسپا ہوگئی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا اب ختم ہو چکا ہے۔ ایک طویل عرصے کے بعد امت مسلمہ خصوصاً عرب مسلمانوں کو جشن منانے کے لیے کچھ ملا ہے۔ اس نے پوری مسلم دنیا کے اسلام پسندوں میں ایک نئی امید، ایک نیا اعتماد اور ایک نئی امنگ پیدا کی ہے۔
مغربی لیڈروں کی اخلاقی موت
مغربی لیڈران اپنی اخلاقی موت کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ واقعی ان کی پرانی میراث و فطرت و جبلت ہے۔ صدیوں تک مغربی ممالک نسل پرستی، نسلی تطہیر، استعمار، سامراج، فاشزم، نازی ازم اور سرمایہ داری جیسے زہریلے نظریات کو جنم دینے کے لیے زرخیز زمین ثابت ہوئے ہیں۔ وہ نوآبادیاتی جنگوں [ سرد جنگ ]کو بھی جنم دے سکتے ہیں اور دو عالمی جنگوں میں 75 ملین افراد کو ہلاک کر سکتے ہیں۔ اخلاقی تنزلی کی ایسی بیماری صحت یاب ہونے کے بہت کم آثار دکھاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اسپین اور اٹلی جیسے مغربی ممالک اسرائیل کی نسل کشی پر مبنی نسل پرستی کی حکومت کی اندھی حمایت اور سرپرستی کرتے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن اب اپنی بھاری اخلاقی پستی کی بدصورت نمائش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جاپان کے دو شہروں پر ایٹمی بم گرانے اور ویٹ نام، افغانستان، عراق اور شام میں لاکھوں لوگوں کو ہلاک کرنے کی امریکی وراثت اس منہوس صدر میں ابھی تک زندہ نظر آتی ہے۔ لہذا، وہ اسرائیل میں اپنے نظریاتی، سیاسی اور ثقافتی کزنز کی حمایت کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں اپنی حالیہ تقریر میں صدر جو بائیڈن نے حماس کے خلاف وہی زہر اگل دیا جو زہر ناجائز اسرائیل کے مجرم وزیر اعظم نیتن یاہو اور دیگر انتہا پسند صہیونی رہنماؤں نے بے شرمی کیساتھ اگلاہے۔ امریکہ کے ریپبلکن اور ڈیموکریٹس اسرائیل کے ساتھ مکمل یکجہتی ظاہر کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ اب دائیں بازو کے انتہا پسند اسرائیلی رہنماؤں اور امریکی سیاست دانوں میں بہت کم فرق باقی رہ گیاہے۔
اسرائیل، غزہ میں جو کچھ کر رہا ہے وہ سرجیکل اسٹرائیک نہیں بلکہ مکمل قتلِ عام ہے۔ یہ خالص ناانصافی اور بربریت پر مبنی نسل کشی ہے۔ وہ رہائشی گھروں اور آبادی پر بم گرا رہے ہیں۔ بلاک کے بعد بلاک اور مکان کے بعد مکانات زمین بوس ہو گئے ہیں۔ خوراک، پانی، بجلی اور ادویات کی سپلائی مکمل طور پر بند ہے۔ الجزیرہ انگریزی ٹی وی نے 11اکتوبر 2023ء کو رپورٹ کیا کہ غزہ میں 60 فیصد سے زیادہ مکانات تباہ ہو گئے ہیں۔ مساجد اور اسکولوں پر بھی بمباری کی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ غزہ کے لوگوں کو بھی بمباری سے بچنے کے لیے محفوظ راہداری فراہم نہیں کی گئی۔ گویا غزہ کے پورے 2.2ملین لوگ حماس کے رکن ہیں۔ یہ سراسر بکواس ہے کہ اسرائیلی رہنما اس طرح کے نسل کشی کے قتل عام کو اپنا دفاعی حق قرار دیتے ہیں۔
اسرائیل کے اس طرح کے جرائم بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ مغربی طاقتیں اس طرح کی خلاف ورزی کے پیچھے مضبوطی سے کھڑی ہیں اور بدقسمتی سے اقوام متحدہ بھی اس جرائک میں برابر کا شریک ہے۔ اس کی مذمت کرنے کے بجائے اس سے چشم پوشی کرتے ہیں اور اسے بڑھاوا دیتے ہیں۔ دوسری جانب یورپی یونین وعدے کے مطابق امداد کی فراہمی روک کر فلسطینیوں کو سزا دے رہی ہے۔ ان اسرائیلی مظالم کے خلاف کسی بھی احتجاج کو ان مغربی حکومتیں دہشت گردی اور یہود مخالف قرار دیتی ہیں۔
اسرائیل کا حتمی انجام اور فلسطینیوں کے لیے نئی امید
اب یہ واضح ہے کہ حماس نے اسرائیل جیسی قابض طاقت کے خلاف مؤثر طریقے سے لڑنا سیکھ لیا ہے۔ حماس اپنی لڑائی میں تنہا نہیں ہے۔ اسے فلسطین کے اندر اور باہر بہت زیادہ حمایت حاصل ہے۔ حماس نے محکومی اور تاریکی کی طویل سرنگ میں روشنیاں دکھائی ہیں۔اس طرح فلسطینیوں کے لیے ایک نئی امید پیدا ہوئی ہے۔ صدر محمود عباس، ان کی الفتح پارٹی، اور پی ایل او نے اپنی ناکامیاں اور ناامیدی کاکھلم کھلا مظاہرہ کردیا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ نہ صرف اصل آزادی کے راستے بالکل گمراہ ہوگئے ہیں بلکہ سیاسی موت کا بھی سامنا کررہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست اب تیزی سے تبدیلی کی جانب گامزن ہے۔ جو حشر امریکہ کو افغانستان، ویٹنام اور عراق میں ہوا، اسرائیل کا وہی حشر فلسطین میں ہونا ہے۔ اسرائیل امریکہ اور سوویت یونین سے زیادہ طاقتور نہیں ہے۔ اسرائیل کے صہیونی رہنما تاریخ کے فطری دھارے کو نہیں بدل سکتے۔ نوآبادیات، فاشزم، اور نسل پرستی ایک مہذب دنیا میں زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ ان شیطانی نظریات کے حامل اسرائیل نے پڑوسیوں کے ساتھ اپنی مکمل عدم مطابقت ظاہر کر دی ہے۔ اس طرح کی عدم مطابقت واقعی اس کی موت کی ضمانت دیتی ہے۔
پچھلے 75 سالوں کے دوران اسرائیل نے صرف دشمن بنانے میں اپنی صلاحیت خرچ کی ہے اور دوست بنانے میں کوئی مہارت نہیں دکھائی ہے۔ پیدائشی طور پر اسرائیل کسی ریاست کا نام نہیں تھا اور نا ہی اسکا وجود تھا۔ اسے صرف مغربی سامراجیوں کی فوجی چوکی کے طور پر بنایا گیا تھا۔ اس لیے اس میں عام حالت کے قدرتی اجزاء کی کمی ہے جو وجود کے لیے ضروری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کسی طرح خواہ وہ اخلاقی ہو یا قانونی ہو فلسطین کی زمین پر باقی رہنے کا اہل نہیں ہے۔ یہ صرف امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی طرف سے دی جانے والی شدید لائف سپورٹ پر زندہ ہے۔ صرف امریکہ ہر سال 3 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کا عطیہ اسرائیل کو دیتاہے۔
اسرائیل صرف زمینوں پر قبضہ کر سکتا ہے، گھروں کو تباہ کر سکتا ہے اور لوگوں کو مار سکتا ہے لیکن اپنی سلامتی اور بقا کو یقینی نہیں بنا سکتا۔ اس بار حماس نے اسرائیل کے کمزور پوائنٹ کو پوری طرح دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیاہے۔ یہ چند ہزار رضاکار جنگجوؤں کو بھی برداشت نہیں کر سکا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ یہ غیر قانونی مصنوعی ریاست اپنی تباہی کے تیز رفتار راستے پر گامزن ہے۔ کیونکہ یہ ایک مکار اور بزدل ٹھگوں کا ایک مجرم گروہ ہے۔ حقیقت یہ ہے پورا اسرائیل ناجائز طور پر فلسطینیوں کی زمین زبردستی و طاقت کے زور پر قائم کیا گیا ہے۔ حماس کی مزاحمت اور جہاد فلسطین کی مکمل آزادی تک جاری رہے گی۔
اللہ ولی التوفیق