غزہ کے اسپتال پر وحشیانہ بمباری عالمی قانون سے کھلواڑ

٭ خورشید عالم داؤد قاسمی

دن بہ دن صہیونی قابض ریاست اسرائیل کا وحشیانہ اور مجرمانہ کردار، دنیا کے سامنے بے حجاب اور آشکارا ہوتا جارہا ہے۔ یہ دنیا کی واحد ریاست ہے جو مختلف طریقے سے کھلے عام عالمی قوانین سے کھلواڑ کر رہی ہے۔ شہری علاقوں پر بمباری کرنا، سفید فاسفورس جیسے مہلک بم کا کسی شہری آبادی پر برسانا، عام شہریوں پر حملے کرنا یا ان پر حملے کرنے کی ہدایت دینا، ایک شہر کے لوگوں کو ان کے گھروں سے منتقل ہونے کی وارننگ دینا، کسی بھی شہر کا محاصرہ کرنا، کسی شہر کے باشندوں کے لیے انسانی امداد کو روکنا، کسی شہر میں عام ضروریات زندگی کے سامان، مثلا: خوراک، پانی، ادویات، ایندھن اور دیگر ضروری اشیا کو پہنچنے سے روکنا وغیرہ عالمی قانون کے خلاف ہے۔ ان میں سے کون ایسا جرم ہے، جس کا ارتکاب صہیونی ریاست نہیں کر رہی ہے؟ اسرائیل جوابدہی کے کسی خوف کے بغیر، ان جنگی جرائم کا ماضی میں بھی ارتکاب کیا ہے اور اب بھی ان کا ارتکاب کر رہا ہے۔

اس حالیہ جنگ میں، بروز: منگل، 17/ اکتوبر 2023 کی شام کو، غزہ پٹی میں واقع “الاہلی عرب اسپتال” پر صہیونی قابض اسرائیلی افواج نے نہایت ہی سخت بمباری کی۔ اس اسپتال میں، طبی عملہ، مریض، بے گھر ہونے والے افراد اور بچے پناہ لیے ہوئے تھے۔ اس بمباری میں شہید ہونے والے لوگوں کی تعداد پانچ سو کے قریب بتائی جارہی ہے۔ اسپتال پر وحشیانہ بمباری کرنا عالمی قانون سے کھلواڑ ہے۔ اس اسپتال کے ڈاکٹروں نے اس بمباری کے ایسے ہولناک مناظر بیان کیے ہیں کہ انھیں سن کر، کسی بھی انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ ہم جیسے انسان اس طرح کی وحشیانہ کاروائی بھی کرتے ہیں! ہر سمجھدار انسان یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ہم اسی انسانی معاشرے کے افراد ہیں، جسے تمام مخلوقوں کے مقابلے میں “مہذب” سمجھا جاتا ہے۔ اس اسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر احمد یوسف اللوح کا کہنا ہے: “ہم نے یہاں قتل عام اور لوگوں کی نسل کشی ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہم شہدا کی تعداد نہیں گن سکتے۔ جو لوگ جان بحق ہوئے ہیں، ان کی لاشیں، حصوں میں ہیں۔ دنیا کے عالمی رہنماؤں کو غزہ کے عوام کے خلاف قتل عام اور نسل کشی کو بند کرانی چاہیے۔” غزہ کے نائب وزیر صحت ڈاکٹر یوسف ابو الریش نے اسپتال کے ڈاکٹروں کی معیت میں، ان سیکڑوں لاشوں کے درمیان کھڑے ہوکر، پریس کانفرنس کی۔ ڈاکٹر موصوف نے اپنی صاف ستھری عربی زبان میں کہا: “اس حملے کی اگلی صبح اسرائیلی افواج نے اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مہر ایاد کو فون کال کرکے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ ‘تمھیں کل شیلنگ کے ذریعے خبردار کیا گیا تھا، اب تک اسپتال خالی کیوں نہ ہوا؟’ دنیا کی واحد جگہ جہاں لوگوں کو میزائل فائر کرکے، حملے سے خبردار کیا جاتا ہے، وہ غزہ ہے۔ یہ واحد جگہ ہے جہاں گھروں پر بمباری کرکے بمباری سے خبردار کیا جاتا ہے۔” انھوں نے مزید کہا: “اسرائیل نے یہ کاروائی صرف امریکہ کی اجازت سے کی ہوگی۔ الاہلی عرب اسپتال میں جو سانحات پیش آئے ہیں، وہ دور جدید میں نہیں دیکھے گئے۔” اس پریس کانفرنس میں فلسطینی برطانوی ڈاکٹر غسان سلیمان ابو ستّہ، جو کہ غزہ کے اسپتال میں رضاکارانہ طور پر کام کر رہے ہیں، نے بھی انگریزی زبان میں وہاں کے حالات سے دنیا کو باخبر کیا اور کہا کہ “شہید ہونے والوں میں پچاس فی صد سے زیادہ بچے ہیں۔” یہ تاریخ کی پہلی پریس کانفرنس ہوگی، جو کفن میں لپٹی ہوئی لاشوں کے درمیان کی گئی ہے۔

اسپتالوں پر حملہ کرنا، حالت جنگ میں بھی غیر قانونی اور جنگی جرم ہے۔ مگر قابض اسرائیلی ریاست جو چاہتی ہے، کرتی ہے؛ اس لیے کہ اس کے خلاف کوئی اکشن نہیں لیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ اس کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کی سرپرستی ونگرانی حاصل ہے۔ پھر اسے کس کا ڈر ہو! امریکہ ایک بڑی طاقت ہے؛ مگر اس کی لگام و عنان صہیونیوں کے ہاتھوں میں ہے؛ چناں چہ وہاں کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو، حکمت عملی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوتی۔ اسرائیل کے جرم پر پردہ ڈالنا، اس کو عسکری ومادی مدد فراہم کرنا، اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا اور فلسطینیوں پر جاری صہیونی ظلم وستم میں، اسرائیل کا کھل کر ساتھ دینا، امریکہ کی پالیسی کا اہم حصہ ہے۔ ابھی اس حالیہ جنگ میں، امریکی وزیر خارجہ نے اسرائیل کا دورہ کرکے، غاصب اسرائیلی ریاست کو یہ یقین دہانی کرائی کہ “امریکہ ہمیشہ اسرائیل کے شانہ بشانہ رہے گا اور سکیورٹی مدد فراہم کرے گا۔” اُدھر امریکی وزیر خارجہ اسرائیل سے واپس گیا، اِدھر 18/ اکتوبر 2023 کو امریکی صدر جو بائیڈن صہیونی ریاست کے دورے پر راجدھانی “تل ابیب” پہنچ گیا۔ بائیڈن نے کہا: “واشنگٹن غزہ میں جنگ کے دوران اسرائیل کو، اس کے دفاع کے لیے سب کچھ فراہم کرے گا۔” غزہ کے “الاہلی عرب اسپتال” پر ہونے والی وحشیانہ بمباری کے حوالے سے بائیڈن نے کہا : “غزہ کے اسپتال پر حملہ بظاہر آپ نے نہیں، دوسری ٹیم نے کیا ہے۔” یہ تقریبا وہی بات ہے جو صہیونی ریاست کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس اسپتال پر بمباری کے بعد، کہی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ “اسلامی جہاد” کی طرف سے اس اسپتال پر راکٹ داغا گیا ہے۔ امریکی صدر کے اس بیان پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی وجہہ یہ ہے کہ اسے ہر صورت میں اسرائیل کی حمایت کرنی ہے اور اس کے خلاف اگر اقوام متحدہ میں بھی کوئی تجویز پیش کی جائے، چاہے اس کا انسانیت سے ہی تعلق کیوں نہ ہو، اسے روکنا (Veto) ہے۔

برطانیہ کی مشہور خبر رساں ایجنسی “رائٹرز” کی خبر کے مطابق، اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں، بروز: بدھ، 18/ اکتوبر کو برازیل نے غزہ کےلیے “انسانی امداد” کی قرارداد پیش کی، مگر امریکہ نے اس قرارداد کو ویٹو کردیا۔ حقیت یہ ہے کہ امریکہ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ وہ اپنے حلیف صہیونی ریاست اسرائیل کو سیکیورٹی کونسل کے کسی بھی اکشن سے بچائے اور اس کا دفاع کرے۔ امریکہ نے یہ کیسی گھناؤنی حرکت کی ہے! مطلب یہ ہے کہ “جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔” امریکہ سپر پاور ہے اور اسے اقوام متحدہ میں “ویٹو” پاور حاصل؛ اس لیے اسرائیل ہر طرح کی وحشیانہ کاروائی کرے اور اس کے خلاف کوئی زبان نہیں کھول سکتا۔ اس پر کوئی لگام نہیں کس سکتا ہے۔ اس دنیا میں بسنے نے والے بہت سے سیدھے سادھے لوگوں کو یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہوگا کہ یہ کیسے ہو رہا ہے کہ امریکہ جو ہر وقت جمہوریت، حقوق انسانی وغیرہ کی بات کرتا ہے، وہ آج غزہ پٹی کے پریشان حال لوگوں کے لیے انسانی امداد کی فراہمی کے لیے اقوام متحدہ میں، ایک تجویز بھی پاس نہیں ہونے دے رہا ہے! یہ انسانیت ہے یا حیوانیت؟ یہ صراحتا حقوق انسانی کی پامالی ہے۔

امریکہ جیسی طاقت کی طرف سے اگر کسی ناجائز ریاست کو حمایت حاصل ہو، جو اس کی ہر وحشیانہ حرکت کو صحیح اور بجا ثابت کرے؛ تو پھر وہ اپنے حریف کے اسپتال پر حملے کرنے سے کیوں گریز کرے گی! اب اگر کوئی تحقیقاتی کمیٹی، یہ ثابت بھی کردے کہ الاہلی اسپتال پر وحشیانہ بمباری کا ذمے دار اسرائیل ہے؛ تو اس کے خلاف اکشن کون لے سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اسرائيل نے متعدد بار، فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے؛ مگر اس کے خلاف آج تک کوئی اکشن نہیں لیا گیا۔ جنھیں قضیہ فلسطین سے دلچسپی ہے، ان کو معلوم ہوگا کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے لبنان کے مغربی بیروت میں”صبرا اور شاتیلا” دو کیمپ تھے۔ اسرائیلی صہیونی افواج نے ان کیمپوں کو اپنے حصار میں لے لیا۔ پھر انھوں نے 16-18 ستمبر 1982 کے درمیان، ان کیمپوں پر اپنے توپوں اور طیاروں سے حملے شروع کردیا۔ مزید یہ کہ لبنان کے دایاں بازو کے گروپوں کو ان کیمپوں میں داخل کردیا گیا؛ تاکہ وہ ان پناہ گزینوں کا قتل عام کرسکیں۔ اس حملے میں تقریبا پچیس سو فلسطینی پناہ گزیں اور لبنانی شہید کیے گئے، جن میں بہت سے بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔ صہیونی ریاست کے “کاہان کمیشن” کی رپورٹ نے اس حملہ کے لیے اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم”مناخیم بیگن”، اس کی حکومت کے ارکان اور صہیونی فوج کا کمانڈر کو ذمے دار ٹھہرایا۔ مگر اس رپورٹ کے بعد کچھ بھی نہیں ہوا۔ پچیس سو لوگوں کے قتل عام کے ذمے داروں کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔ مگر تاریخ نے اسے ریکارڈ کرلیا ہے۔ اب یہ صہیونی ریاست کی پیشانی پر ایک بدنما داغ بن کر، ہمیشہ کے لیے باقی رہے گا۔ اب اگر کوئی تحقیقاتی کمیشن یہ ثابت کردے کہ “الاہلی اسپتال” پر صہیونی ریاست نے بمباری کی ہے؛ تو اس کے خلاف کون کاروائی کرے گا!

اس حالیہ جنگ کے دوران، جس طرح امریکہ کے وزیر خارجہ اور صدر نے حسب ترتیب صہیونی ریاست اسرائیل کا دورہ کیا، ٹھیک اسی طرح برطانیہ کے وزیر خارجہ اور ہند نزاد وزیر اعظم رشی سونک نے حسب ترتیب وہاں کا سفر کیا۔ یہ سب صہیونی ریاست پہنچ کر، وہاں کی حکومت کو یقین دلا رہے ہیں کہ غزہ کے خلاف جو جنگ چھیڑی گئی ہے، اس میں وہ سب اس کے ساتھ ہیں۔ مزید یہ کہ حماس کے حملے میں مرنے والے اسرائیلی شہریوں کے اہل خانہ کے سوگ میں، وہ شریک ہیں۔ دوسری طرف گذشتہ دو ہفتے (سات اکتوبر) سے غزہ میں، بمباری جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں، اب تک صرف مغربی کنارےتقریبا 75 افرادکے شہید ہوئے ہیں؛ جب کہ 1284 لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ صہیونی افواج نے اب تک چھ سو سے زیادہ مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو حراست میں لیا ہے۔ اس بمباری میں، غزہ میں 20/ اکتوبر تک تقریبا 4137 لوگوں کے شہید ہونے کی اطلاع ہے، جن میں 1542بچے ہیں۔ وہ لوگ جو زخمی ہوئے ہیں، ان کی تعداد تقریبا بارہ ہزار بتائی جارہی ہے۔ یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔ مگر ان بے گناہ فلسطینی شہریوں، معصوم بچوں اور خواتین کے قتل کے حوالے سے ان کی زبان سے کوئی جملہ نہیں نکلتا۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی آنکھیں اندھی ہوچکی ہیں، ان کے ہونٹ سل چکے ہیں اور زبانیں گنگ ہوچکی ہیں۔

صہیونی ریاست کی بمباری کی وجہ سے حالات دن بہ دن خراب ہوتے جارہے ہیں۔ غزہ کے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ عزہ پٹی میں غذائی قلت کے پیش نظر، وہاں کے ہزاروں لوگ صرف ایک وقت کا کھانا کھا رہے ہیں۔ ان کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے؛ چناں چہ وہ گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ بمباری کے نتیجے ہزاروں زخمی لوگ اسپتال میں ہیں۔ دن بہ دن زخمیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسپتالوں میں طبی سہولیات ختم ہوچکی ہیں۔ مریضوں کے علاج کے لیے ادویات دستیاب نہیں ہیں۔ کچھ اسپتالوں میں، بغیر بے ہوش کیے، مریضوں کا آپریشن کیا جارہا ہے۔ یہ ان مظلوم لوگوں کی داستان جو اپنی عبات گاہوں کی حفاظت، اپنی مقبوضہ اراضی کی بازیابی اور اپنے وطن کی آزادی کے لیے مزاحمت کر رہے ہیں۔

فلسطینی مسلمانوں کو طرح طرح کی آزمائش کا سامنا ہے۔ انھیں ان آزمائشوں پر صبر کرنا چاہیے اور وہ صبر کر بھی رہے ہیں، الحمد للہ۔ جو لوگ صبر کریں گے، ان کے لیے خوشخبری بھی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: “اور دیکھو، ہم تمھیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے، اور (کبھی) بھوک سے، اور (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کرکے۔ اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں، ان کو خوشخبری سنادو۔” ( بقرہ: 155) مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں یقین ہے کہ ان مشکلات کے بعد، آسانیاں ضرور آئیں گی اور ان کا جو جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے، اس کے عوض ان کے درجات بھی بلند ہوں گے۔ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “جس کسی مسلمان کو کانٹا چبھ جائے یا اس سے بڑھ کر (کوئی تکلیف پہنچے)؛ تو اللہ اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند کردیتے ہیں یا اس کا ایک گناہ معاف کردیتے ہیں۔” (صحیح مسلم: 2572) آج جو مصائب و آلام کے پہاڑ فلسطینیوں پر ٹوٹ رہے ہیں، اللہ پاک ان کے عوض انھیں بہترین بدلہ عنایت فرمائیں! ●●●●

٭ مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com