’’مؤرخہ: ۱۸؍ تا ۲۰؍ نومبر ۲۰۲۳ء کو جامعۃ الاسوۃ الحسنہ پلا پٹی (تامل ناڈو) میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا بتیسواں فقہی سیمینار منعقد ہوا، جس میں ملک بھر سے تین سو سے زیادہ علماء وارباب افتاء نے شرکت کی، سیمینار کے افتتاحی اجلاس میں اس عاجز نے ہندوستانی مسلمانوں کو اکثریتی فکرو تہذیب میں جذب کرنے کی جو کوشش کی جا رہی ہے، اس پر روشنی ڈالی، صورت حال بھی پیش کی گئی اور اس کا حل بھی، موضوع کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اس خطبہ کا متن تمہیدی مضمون کو حذف کرتے ہوئے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے، اور توجہ کے ساتھ پڑھنے کی گزارش کی جاتی ہے‘‘۔ (رحمانی)
شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اس وقت ملک کے جو حالات ہیں اور مسلمان جس صورت حال سے دو چار ہیں، وہ دو پہر کی روشنی کی طرح واضح ہے، کہیں اسلامی شعائر کی اہانت، کہیں مسلم نوجوانوں کی ماب لنچنگ، کہیں مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ اور کہیں دوسرے رسوا کن واقعات پیش آرہے ہیں، اور ان سب سے بڑھ کر وہ نفرت انگیز پروپیگنڈہ ہے، جس کے ذریعہ برادران وطن کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف آگ سلگا دی گئی ہے، بے برداشتگی کا ماحول پروان چڑھ رہا ہے، اور منظم طور پر اقلیتوں اور خصوصاََ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ضرورت ہے کہ پوری گہرائی کے ساتھ اس صورت حال کو سمجھا جائے،اور موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لئے درست لائحۂ عمل کی نشاندہی کی جائے، اسلامک فقہ اکیڈمی کا موضوع تو دور جدید میں پیدا ہونے والے فقہی مسائل کا حل ہے؛ لیکن فکری پہلو سے مسلمانوں کو جو مسائل در پیش ہیں، اکیڈمی نے ہمیشہ ان میں بھی رہنمائی کی کوشش کی ہے، اگر غور کیا جائے تو اس سیمینار کے عناوین میں جو ’’تشبہ‘‘ کا موضوع رکھا گیا ہے، وہ اس پہلو سے بڑا اہم ہے، جو موجودہ حالات میں اپنی ملی وتہذیبی شناخت کی حفاظت کی طرف متوجہ کر رہا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ بھارت کی سرزمین نے دنیا کے مختلف مذاہب کا استقبال کیا ہے؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مشرکانہ سوچ اور تہذیب یہاں کے ر گ وریشہ میں رچی بسی ہے، اور اس سے بھی زیادہ دشوار بات یہ ہے کہ اس ملک کے ایک طبقہ نے دیگر مذاہب وافکار اور تہذیب وتمدن کو اپنے وجود میں جذب کرنے کی پُر فریب اور کامیاب کوشش کی ہے۔
مذہبی شدت پسندی اور مخالف فکر کو برداشت نہ کرنے کا جذبہ انسان کو اس طرف لے جاتا ہے کہ وہ دوسرے نظریہ کو ختم کر دے، اس کی سب سے خطرناک صورت یہ ہے کہ دوسری فکر پر یقین رکھنے والوں کو مذہب بدلنے پر مجبور کر دیا جائے، اور نہ ماننے کی صورت میں کوئی رحم کھائے بغیر تہہ تیغ کر دیا جائے، اس کی مثال قدیم تاریخ میں بھی ملتی ہے، قرآن مجید میں کم از کم اس طرح کے دو واقعات پوری وضاحت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں، ایک یہ کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو عقیدۂ توحید سے روکنے کے لئے نسل کشی کی تدبیر اختیار کی کہ بنی اسرائیل میں جو بھی بیٹا پیدا ہوتا، اسے قتل کر دیا جاتا، نہ جانے کتنے بچے فرعونِ وقت کے اس ظالمانہ حکم کا شکار ہوئے (تفسیر السمعانی: ۱؍۷۷، بقرہ: ۹۴) ، اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ جو مذہبی منافرت کی بناء پر تشدد اور بے برداشت ہونے کا ہے، وہ ہے جسے ’’اصحاب اخدود‘‘ کہا جاتا ہے، یہ حق پرست عیسائیوں کا واقعہ ہے، جن کو جیتے جی نذر آتش کرنے کے لئے ایک بڑی کھائی کھودی گئی اور کم وبیش۰۲؍ ہزار افراد اس میں زندہ جلا دئیے گئے (قصص القرآن:۳؍۳۲۲)، اسلام کے ابتدائی دور میں بھی بعض ایسے واقعات پیش آئے، جن میں بئر معونہ کے واقعہ میں ستر حفاظ صحابہ کی شہادت کا واقعہ ناقابل فراموش ہے (صحیح البخاری، کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع وبئر معونۃ، حدیث نمبر: ۸۸۰۴) ، اور ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک رومی سردار نے کئی مسلمانوں کو توحید پر قائم رہنے کے جرم میں تیل کی کڑاہی میں تَل دیا؛ مگر ان کے پایۂ استقامت میں کوئی جنبش تک نہیں آئی۔( شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر: ۹۳۶۱، ۲؍ ۴۴۲)
اہل یورپ میں مذہبی شدت پسندی بہت زیادہ تھی، دنیا کی آنکھوں نے ماضی قریب تک اس کی مثالیں بار بار دیکھی ہیں، انھوں نے سرد جنگ میں فتح پانے کے بعد فلسطین میں جو مظالم ڈھائے، وہ تاریخ کا ایک خونچکاں باب ہے، پھریہ عیسائی شدت پسند ہی تھے، جنھوں نے یہودیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لئے ہولوکاسٹ (Holocaust)کیا، اور بے شمار یہودی گیس کے چیمبروں میں ایک ایک قطرۂ آب کو ترستے ہوئے مار ڈالے گئے (مرگ انبوہ، دائرۃ المعارف برٹانیکا، ۷۰۰۲)، یہ مغرب ہی ہے، جس نے اندلس کے مسلمانوں کو دھوکہ دے کر سمندر میں غرق کر دیا، اور اپنے عہد کا کوئی پاس نہیں رکھا، اور ہزاروں مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے شہید کر دیا؛ کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ اسپین سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹ جائے، ( خلافت اندلس نواب ذوالقدر جنگ بہادر:۴۲۴) مغرب نے سائنس و ٹکنالوجی کی طاقت حاصل کی اس کو بھی انھوں نے پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنے مخالفین کو بے نام ونشان کرنے کے لئے استعمال کیا، جس کی مثال دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے دو آباد اور بھرے پُرے شہر ہیرو شیما اور ناگاساکی پر نیو کلیئر بم کی بارش ہے، جس نے لاکھوں لوگوں کو لقمۂ اجل بنا دیا، اور دور کیوں جائیں، بوسنیا کے قتل عام کا تصور کیجئے اور شام اور عراق میں شہداء کی پاکیزہ روحوں کو یاد کیجئے کہ کس طرح خون انسانی کی ارزانی کا تماشہ مشرق سے لے کر مغرب تک ساری دنیا نے دیکھا، غرض کہ کسی مذہب کی پیش قدمی یا کسی قوم کی بالادستی کو روکنے کے لئے تشدد کی بہت قدیم تاریخ رہی ہے، آر ایس ایس کے بانیوں اور رہنماؤں نے بھی بھارت کی اقلیتوں کے بارے میں اسی برتاؤ کی دعوت دی ہے (بھگوا دہشت گردی اور مسلمان، از: اعظم شہاب الدین: ۹۳– ساورکر، فکرو تحریک: ۱۳) اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دوسرے مذہب کی پیش قدمی کو طاقت کے ذریعہ روک دیا جائے اور اپنے مقابل کسی اور مذہب اور سوچ کو برداشت نہ کیا جائے۔
کسی مذہبی گروہ کو ختم کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ فکری وتہذیبی طور پر ان کو اپنے وجود میں جذب کر لیا جائے، اس کی واضح مثال موجودہ عیسائیت ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی برحق تھے، اور انھوں نے انسانیت کو توحید کی دعوت دی تھی؛ مگر یہودیوں نے ان کے متبعین پر بڑے مظالم ڈھائے، یہاں تک کہ وہ فلسطین سے نکل کر مختلف جگہوں پر بھٹکنے پر مجبور ہوگئے، عیسائیوں پر جوروستم کے لئے اُکسانے والوں میں سے ایک اہم شخصیت راسخ العقیدہ یہودی پولس (POLUS ) کی تھی، جو سینٹ پال (Saint Paul) کے نام سے جانا جاتا ہے، اس نے جب دیکھا کہ تشدد کا ہتھیار کام نہیں آرہا ہے تو اس نے عیسائیت پر فکری پہلو سے شب خوں مارا، اس زمانہ میں دنیا کی مختلف قومیں تثلیث، یعنی تین خداؤں کا عقیدہ رکھتی تھیں، خود ہمارے ملک میں برہما، وشنو، شیو کے خدا ہونے کا تصور موجود تھا اور اب بھی ہے، فلسطین کے قریب روم ویونان میں بھی تثلیث کا تصور موجود تھا، اور تین خدا تسلیم کئے جاتے تھے۔
سینٹ پال نے مخلصانہ یا منافقانہ طور پر عیسائیت قبول کرنے کے بعد عیسائیت کو روم و یونان میں مقبول بنانے کے لئے اس کو تثلیث کے سانچے میں ڈھال دیا، اور اس کے لئے باپ، بیٹا اور روح القدس کی اصطلاح ایجاد کی، جس کی خود انجیل میں کوئی صراحت نہیں ہے، آخر عیسائیت کا وجود ہمیشہ کے لئے تثلیث میں گم ہو کر رہ گیا، اگر قرآن مجید نے اس حقیقت کو واضح نہیں کیا ہوتا، تو شاید کبھی اس جھوٹ سے پردہ نہیں اٹھ پاتا، اسی طرح جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے اور آپؐ نے اہل مکہ کو بُت پرستی سے باز آنے اور ایک خدا کی عبادت کرنے کی دعوت دی تو پہلے تو انھوں نے طاقت کے ذریعہ اس کو ختم کرنے کی کوشش کی؛ لیکن جب ان کو اندازہ ہوگیا کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے تو صلح کا ایک فارمولہ پیش کیا، اور وہ یہ کہ ہم لوگ بھی مسلمانوں کے خدا کو تسلیم کر لیں اور اس کی عبادت کریں اور مسلمان بھی ہماری دیویوں دیوتاؤں کو خدا مان لیں اور وہ بھی ان کی پوجا کر یں، نیز ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں کے لئے ایک ایک سال مقررکر لیں، ایک سال ہماری دیویوں دیوتاؤں کی عبادت کا رہے اور ایک سال مسلمانوں کے خدا کی عبادت کا ہو، اسی پس منظر میں ’’سورۂ کافرون‘‘ نازل ہوئی (روح المعانی :۵۱؍ ۵۸۴)، یہ بظاہر صلح کی ایک کوشش تھی؛ لیکن در حقیقت یہ مسلمانوں کو اپنے وجود میں جذب کرنے کی سازش تھی، قرآن مجید میں صاف طور پر اس نقطۂ نظر کو رد کر دیا گیا اور واضح کر دیا گیا کہ توحید اور شرک دو متضاد چیزیں ہیں، یہ ایک شخص میں جمع نہیں ہو سکتی ہیں، ممکن نہیں کہ ایک انسان بیک وقت ایک خدا کی بھی عبادت کرے اور بہت سارے خداؤں کی بھی۔
اس پس منظر میں اگر ہم اپنے ملک کی تاریخ کو دیکھیں تو واضح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ موجودہ ہندو توا کی ترجمانی کرنے والا گروہ برہمن بہت ہی گہری اور شعوری کوششوں کے ساتھ مخالف نقطۂ نظر کو اپنے راستے سے ہٹا کر اس کو مشرکانہ سوچ میں ضم کر دیتا ہے، بودھ اصل میں توحید کے قائل تھے اور خدا کو ’’علۃ العلل‘‘ اور کائنات کا اصول اول قرار دیتے تھے، گوتم بدھ کی اصل دعوت برہمنوں کے اس تصور کو ختم کرنا تھا کہ پیدائشی طور پر کوئی انسان برتر اور کوئی کمتر ہے، برہمنوں کی من گھڑت رسموں سے نجات حاصل کرنا بودھ کی بنیادی تعلیمات کا حصہ تھی؛ اسی لئے برہمنیت کی طرف سے ان کی تحریک پر کفر کا فتویٰ لگا اور اس فرقہ کو ناستک، یعنی ملحد قرار دیا گیا، برہمنوں نے ان کے مندر توڑ ڈالے، ہزاروں لوگوں کو قتل کر ڈالا، جب راجہ اشوک نے بودھ مذہب قبول کیا تو یہ اس خطہ کا غالب اور مقبول مذہب بن گیا، اور یہاں سے چین، جاپان، سری لنکا، کوریا، ویتنام اور تھائی لینڈ تک پھیل گیا؛ لیکن بالآخر ہوا یہ کہ جب ۰۲۱؍ عیسوی میں راجہ کنشک تخت حکومت پر بیٹھا تو اس نے مہاتما بودھ کو خدا کا اوتار مان کر لوگوں کو ان کی مورتی کی پوجا کرنے پر آمادہ کر لیا، اور اس طرح ایک ایسا مذہب جس کی بنیاد اللہ کی توحید اور انسان کی وحدت پر تھی ، شرک کے رنگ میں رنگ گیا، اب گوتم بودھ کی پرستش بودھ سماج کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے، اور اُن کی بڑی بڑی مورتیاں بنائی جا رہی ہیں، یہاں تک کہ آج ہمارے ملک میں بودھ ہندو سماج کا حصہ بن گئے ہیں، اور بڑی چالاکی کے ساتھ ملک کے دستور میں بھی ان کو ہندو قرار دے دیا گیا ہے، اسی کی ایک مثال جین مت ہے، جو ایک بڑا فلسفیانہ مذہب ہے، اس کے دو بڑے فرقے ہیں، ایک دگامبر جو بے لباس رہتے ہیں، دوسرے: شوتامبر جو سفید کپڑے استعمال کرتے ہیں، یہ دونوں بنیادی طور پر بت پرستی کے مخالف ہیں، اس قوم کو مجسمہ سازی کے فن میں امتیاز حاصل رہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ایلورا اجنتا کے مندر ان ہی کی فنکاریوں کا نمونہ ہیں، جینیوں کو بھی آہستہ آہستہ پوری طرح مشرکانہ رنگ میں رنگ دیا گیا اور خود مہاویر جین کی مورتی پوجا پر ان کو آمادہ کر لیا گیا، آج یہ بھی ہندو سماج کا ایک حصہ بن چکے ہیں۔
اسی کی ایک مثال سکھ مت ہے، اس مذہب کے بانی گرونانک جی کا زمانہ زیادہ دور نہیں ہے، وہ ۹۶۴۱ء میں پیدا ہوئے، وہ شروع سے توحید پر عامل تھے، اور بت پرستی سے دور رہتے تھے، انھوں نے جو مُول منتر، یعنی بنیادی کلمہ سکھایا، اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ خدا ایک ہے، اس کا نام سچ ہے، وہی قادر مطلق ہے، وہ بے خوف ہے، اسے کسی سے دشمنی نہیں ہے، وہ ازلی وابدی ہے، بے شکل وصورت ہے، قائم بالذات ہے، (ہندوستانی مذاہب، ڈاکٹر رضی کمال ص: ۳۶) یہ تحریک در اصل برہمنی رسوم ورواج کو ختم کرنے کے لئے شروع ہوئی تھی؛ اسی لئے سکھوں کے چوتھے گرو رام داس نے شادی اور مرنے کی رسوم ہندو مذہب سے الگ مقرر کیں، ستی کی رسم کی مخالفت کی اور بیواؤں کی شادی پر زور دیا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گرونانک جی اسلام سے زیادہ متأثر تھے، انھوں نے پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا، روزہ رکھنے کی تلقین کی، ختم نبوت پر ایمان لانے کو کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے کلام میں جا بجا ستائش کی اور اسلامی تعلیمات کو سراہا؛ مگر افسوس کہ سیاسی اختلافات اور اس سے پیدا ہونے والے جنگ وجدال نے ان کو مسلمانوں سے دور کر دیا؛ لیکن آہستہ آہستہ سکھ سماج کو موجودہ ہندو سماج کا حصہ بنا دیا گیا اور سکھوں کے انکار کے باوجود بہت ہی ڈھٹائی کے ساتھ دستوری طور پر ان کو بھی ہندوؤں میں شامل کر لیا گیا۔(جاری)
۰ ۰ ۰