غزہ: جنگ کے آغاز کے بعد پہلی بار محصور غزہ شہر میں امدادی سامان پہنچایا گیا جہاں لاکھوں افراد بھوک اور شدید سردی میں تکلیف دہ حالات میں جی رہے ہیں۔ دوسری طرف غزہ کی پٹی میں مریضوں اور زخمیوں کی طبی امداد کے لیے آنے والے ڈاکٹر انسانی تباہی اور زخمیوں کی حالت زار دیکھ کر کانپ کر رہ گئے۔
محصور رہائشیوں کی طرف سے زبردست بھگدڑ کے درمیان امداد داخل ہوئی۔ جنوب میں خان یونس میں اسرائیلی ٹینکوں کی زمینی دراندازی اور فضائی بمباری جاری ہے۔ اسرائیلی فوج نے جنوبی خان یونس کے شہریوں کو وہاں سے نکل جانے کی بھی ہدایت کی ہے۔
العربیہ کے نامہ نگار نے کچھ عینی شاہدین سے ملاقات کی جنہوں نے بتایا کہ الامل ہسپتال کے قرب و جوار میں واقع الامل محلے پر اسرائیلی فوج نے وحشیانہ بمباری کی ہے جس کے نتیجے میں متعدد شہریوں کے شہید اور زخمی ہونے کا اندیشہ ہے۔
دریں اثناء امریکی ڈاکٹروں کا ایک وفد غزہ کی پٹی کے خان یونس شہر میں زخمیوں کے سرجیکل آپریشن کے لیے پہنچا ہے۔ یہ سرجریز رواں ہفتے ہونے والی ہیں مگر دوسری طرف ہسپتالوں میں ناقص آلات اور طبی سامان کی عدم موجودگی کی وجہ سے ڈاکٹروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
امریکی وفد کے جنرل سپروائزر نے اس تناظر میں کہا کہ “تمام جگہوں پر ہر طرف تباہی ہسپتالوں میں لوگوں کو اپنی مرضی سے نہیں بلکہ منصوبے کے مطابق گھروں سے نکالتے ہوئے دیکھنا دل دہلا دینے والا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ شدید سردی میں پلاسٹک کے خیموں میں رہنے والوں کو دیکھ کر دل کانپ اٹھتا ہے”۔
ایک چھوٹی بس سرجنوں کو ناصر میڈیکل کمپلیکس اور غزہ کے یورپی ہسپتال لے گئی جہاں انہیں غزہ کی پٹی کے محصور باشندوں کو طبی خدمات فراہم کرنے کے لیے ایک ہفتے تک قیام کرنا ہے۔
غزہ کی پٹی میں ہسپتالوں کے ڈائریکٹر جنرل محمد ذقوت نے کہا کہ “ہم نے بارہا درخواست کی ہے کہ ایسے وفود غزہ کی پٹی میں داخل ہوں، ان کی اشد ضرورت ہے۔ غزہ کی پٹی کے ہسپتالوں میں بے شمار زخمیوں کے آپریشن کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ یقیناً ڈاکٹروں کے وفود میں ماہر سرجن شامل ہیں جو نازک سرجری کر سکتے ہیں۔ انشاء اللہ جب تک وہ رہیں گے غزہ میں زخمیوں کے علاج میں مدد ملے گی اور انہیں فائدہ پہنچے گا”۔