معصوم مرادآبادی
دہلی کی ایک تاریخی مسجد پر انہدام کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ڈیڑھ سو سال پرانی اس مسجد کو منہدم کرنے کے لیے ٹریفک پولیس نے نئی دہلی میونسپل کارپوریشن کی مدد مانگی ہے۔کارپوریشن نے ایک عوامی نوٹس جاری کرکے مسجد کے انہدام سے متعلق عوامی تجاویز اور اعتراضات طلب کئے ہیں۔دراصل ٹریفک پولیس گول چکر پر واقع اس مسجد کونقل وحمل کا نظام بہتر بنانے کے لیے منہدم کروانا چاہتی ہے۔کارپوریشن کی طرف سے دی گئی تجویز میں بنیادی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ مسجد ٹریفک کی ہموار روانی میں رکاوٹ بن رہی ہے، جبکہ یہ دعویٰ حقائق کے خلاف ہے، کیونکہ سنہری مسجد گول چکر کے بالکل اندر واقع ہے اور اس کی ساخت گول چکر سے ملنے والی سڑکوں میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرتی۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک طرف تو کارپوریشن نے سنہری مسجد کو ہیرٹیج کنز رویشن کمیٹی کے مشورے سے تاریخی ورثے کے طور پر نشان زد کررکھا ہے اور دوسری طرف وہ اس کے انہدام کی راہ ہموار کررہی ہے۔
سنہری مسجد محض ایک عمارت کا ڈھانچہ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے اجتماعی، تاریخی اور ثقافتی ورثہ کی نمائندگی کرنے والی ایک عبادت گاہ ہے۔ان تمام حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے کارپوریشن نے مسجد کے خلاف جو نوٹس اخبار میں شائع کرایا ہے، وہ اس کے مجرمانہ طرزفکر کی غمازی کرتا ہے۔ حالانکہ یہ معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہے اور اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں آیا ہے۔
کارپوریشن کے نوٹس کی اشاعت کے بعد ملی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور سبھی اس مسجد کو بچانے کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں۔ مسجد کے امام کی طرف سے عدالت میں عرضی داخل کی گئی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اس مسجد میں باقاعدہ پنچ وقتہ نماز ادا کی جاتی ہے اور جمعہ کے دن یہاں سیکڑوں نمازی آتے ہیں۔ یہ مسجد نئی دہلی کے رفیع مارگ پر واقع ہے اوریہاں آس پاس کے سرکاری دفتروں میں کام کرنے والے مسلمان نماز ادا کرتے ہیں۔اس مسجد کا انتظام وانصرام دہلی وقف بورڈ کے پاس ہے جہاں اس وقت افراتفری جیسا ماحول ہے۔
پہلے پہل یہ معاملہ اس وقت روشنی میں آیا تھا جب سینٹرل وسٹا پروجیکٹ پر کام شروع ہوا تھا۔اسی پروجیکٹ کے تحت نئی پارلیمنٹ تعمیر ہوئی ہے۔لیکن جب مسجد کو منہدم کرنے کے منصوبے کے خلاف احتجاج ہوا تو انہدامی کارروائی ملتوی کردی گئی۔ اس کے بعد دہلی وقف بورڈ نے عدالت سے رجوع ہوکر ’جوں کی توں صورتحال‘ برقرار رکھنے کا حکم حاصل کرلیا، لیکن بعد کونامعلوم وجوہات کی بنا پر اس نے اس معاملے میں سردمہری اختیار کرلی۔ دہلی وقف بورڈ اور اس کے سی ای اوپر اس مسئلہ میں اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنے کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔اسی وجہ سے کارپوریشن کو اپنی کارروائی آگے بڑھانے کا حوصلہ ملا ہے۔
شمالی ہندوستان میں اوقاف کی جو صورتحال ہے، اس سے کون واقف نہیں۔یہاں باڑ ہی کھیت کو کھانے کاکام کرتی ہے۔ راقم الحروف نے نوّے کی دہائی میں دہلی کے پہاڑ گنج علاقہ میں واقع ایسی درجنوں مسجدوں کی نشاندہی کی تھی، جن میں کارخانے اور لوگوں کی رہائش ہے۔پہاڑ گنج اور اس کے آس پاس ملک کی تقسیم سے پہلے مسلمانوں کی گھنی آبادی تھی، لیکن تقسیم کے نتیجے میں یہاں کے مسلمان پاکستان چلے گئے تو ان کے مکانوں اور عبادت گاہوں پر ناجائز قبضے کرلیے گئے۔ ان میں بیشتر مسجدیں ایسی ہیں جہاں نماز نہیں ہوتی اور وہ غیروں کے تسلط میں ہیں۔ ان کی ملکیت وقف بورڈ کے پاس ہے، جو یہاں رہنے والوں سے باقاعدہ کرایہ وصول کرتا ہے۔دہلی وقف بورڈ آپسی رسہ کشی کی وجہ سے اس وقت خود یتیمی کے دور سے گزررہا ہے۔ نہ تو یہاں کوئی کمیٹی ہے اور نہ ہی کوئی جواب دہی۔
سنہری باغ کی اس مسجد کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ اسے دہلی سرکارکے نوٹیفکیشن مجریہ 2009 کے تحت تاریخی ورثہ قرار دیا جاچکاہے۔ 1911میں جب انگریزوں نے دہلی کو راجدھانی بنایا تو انھوں نے رائے سینا علاقہ کے200 گاوؤں کو مرکزی سیکریٹریٹ بنانے کے لیے ایکوائر کیا تھا۔ اس وقت یہاں کے مسلمانوں نے اپنی بے دخلی کے خلاف اعتراض درج کرایا تو برطانوی حکام اور مقامی مسلمانوں کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا کہ زمین تحویل میں لینے کے دوران ان کی عبادت گاہوں اور قبرستانوں کو نہیں چھیڑا جائے گا۔ یہ مسجد بھی اسی معاہدے کے تحت برقراررکھی گئی تھی۔لیکن آج جبکہ ہم ایک آزاد ملک کے باشندے ہیں تو مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بے رحمی کے ساتھ کچلنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ نامور مجاہد آزادی مولانا حسرت موہانی، جب قانون ساز اسمبلی کے ممبر تھے تو وہ اجلاس کے دوران اسی سنہری باغ مسجد میں قیام کرتے تھے، جو پارلیمنٹ سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے۔ انھوں نے بطور ممبرپارلیمنٹ ملنے والی کوئی بھی سرکاری سہولت نہیں لی تھی، کیونکہ وہ فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے۔اس اعتبار سے یہ مسجد ایک ایسے عظیم مجاہد آزادی کی بھی یادگار ہے جس نے سب سے پہلے برطانوی راج سے مکمل آزادی کا ریزلیوشن پیش کیا تھا، جو1921میں انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس میں منظور ہواتھا۔ یہ وہی مولانا حسرت موہانی ہیں جنھوں نے”انقلاب:زندہ باد“ کا نعرہ ایجاد کیا تھا، جوبعد کو بھگت سنگھ جیسے انقلابیوں کا محبوب نعرہ بنا۔اس اعتبار سے بھی یہ مسجد ایک تاریخی یادگار ہے۔لیکن ہم جس دور میں زندہ ہیں، وہاں ہندوستان کی سنہری تاریخ کو مٹانے اور ایک تاریک دور کو واپس لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔سنہری تاریخ کو مٹانے کی کوششوں کے دورمیں ایک سنہری مسجد کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟
جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں،ملک میں کئی شہروں میں تاریخی مسجدوں کے خلاف سازشوں کا بازار گرم ہے۔1991 میں عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق پارلیمنٹ سے جو قانون منظور ہوا تھا، اس کو بے اثر کرنے کی ترکیبیں خود عدالتوں کی طرف سے پیش کی جارہی ہیں۔ اس قانون میں گارنٹی دی گئی تھی کہ ملک کی آزادی کے وقت جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی، اس کی وہی حالت برقرار رکھی جائے گی۔ لیکن اس قانون کی موجودگی کے باوجود آئے دن تاریخی مسجدوں کے خلاف دعوے دائر کئے جارہے ہیں۔عدالتیں جس تیزی کے ساتھ ان دعوؤں کو منظورکررہی ہیں، اس سے یہ عندیہ ضرور ملتا ہے کہ وہاں بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ بنارس کی گیان واپی مسجد کے خلاف عدالتی کارروائی کے بعد اب متھرا کی شاہی عیدگاہ کے سروے کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔اس فہرست میں اور بھی کئی مسجدیں شامل ہیں، جنھیں یکے بعد دیگرے نشانے پر لیا جائے گا۔
اس دوران گیان واپی مسجد کی ملکیت کے سوال پر الہ آباد ہائی کورٹ نے یہ عجیب وغریب رولنگ دی ہے کہ اس معاملے میں 1991 کا عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ مانع نہیں ہے۔عدالت عالیہ نے کہا ہے کہ”اس ایکٹ میں مذہبی کردار کی تشریح نہیں کی گئی ہے، صرف عبادت گاہ اور اس کی تبدیلی کی تشریح کی گئی ہے۔“ عدالت عالیہ کا کہناہے کہ’’کسی مقام کا مذہبی کردار فریقین کے دعوے اور جوابی دعوے نیز ان کی طرف سے پیش کئے گئے ثبوتوں کی بنیاد پر عدالت طے کرسکتی ہے۔“عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ ”گیان واپی احاطے کا کردارہندوہے یا مسلم، یہ متنازعہ موضوع حقائق وقانون سے وابستہ ہے۔“ اس رولنگ کے ساتھ ہی عدالت عالیہ نے انجمن انتظامیہ مساجد کمیٹی اور سنی سینٹرل وقف بورڈ کی تمام عرضیوں کو خارج کردیا ہے۔
عدالت عالیہ کی اس عجیب وغریب منطق کے بعد اب یہ طے کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق قانون مجریہ 1991کی کوئی اہمیت اور معنویت باقی بھی رہ گئی ہے یا نہیں۔ ویسے حکمراں بی جے پی کے لوگوں نے اس قانون کو سپریم کورٹ میں پہلے ہی چیلنج کررکھا ہے اور کب اس کو منسوخ کردیا جائے، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اس طرح جو لوگ عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق قانون پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں، انھیں اب بیدار ہوجانا چاہئے۔ کیونکہ نئی دہلی کی سنہری باغ مسجد کے واقعہ نے انھیں نیند سے بیدار ہونے کا آخری موقع فراہم کیا ہے۔
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا