تعمیری ادب کے حوالے سے ادارہ ادب اسلامی کا ایک روزہ سیمینار کامیابی سے ہمکنار
نئی دہلی : بروز اتوار، مرکز جماعت اسلامی ہند کے کانفرنس ہال میں انسٹیٹوٹ آف اسٹڈی اینڈ ریسرچ دہلی کے بہ اشتراک ادارہ ادب اسلامی ہنددہلی شاخ نے تعمیری ادب کے حوالے سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔ سیمینار میں اردو ادب کے ریسرچ اسکالرس اور اعلیٰ تعلیم میں پڑھنے والے طلباء نیز اساتذہ اکرام کو مدعو کیا گیا تھا۔ پروگرام کے شرکاء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی یونیورسٹی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی وغیرہ جیسے ممتاز تعلیمی اداروں سے وابستہ ریسرچ اسکالرز اور اساتذہ بھی شامل تھے۔ سیمینار کا مرکزی عنوان”چند نظر انداز شدہ ادبی تصورات (تعمیری اقدار کے حوالے سے)” رکھا گیا تھا۔
سیمنار کی صدارت ڈاکٹر حسن رضا، صدر ادارہ ادب اسلامی ہند نے کی۔ڈاکٹرحسن رضا نے اپنے صدارتی خطبہ میں تعمیری ادب کے متعلق اہم باتیں سامعین کے گوش گزار کیں۔ اجتماعی زندگی جو تشکیل میں آتی ہے وہ کچھ قدروں کی بنیاد پر آتی ہے۔اور قدر بن نہیں سکتی اگر اس کا تصور حق واضح نہ ہو۔اگر کسی چیز کو حق نہیں سمجھا جائے گا تو قدر ہی وجود میں نہیں آسکتی۔ادب کے بارے میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ جب ایکسپریشن اقدار کے حوالے سے اس طرح اظہار پاجائے کہ ہماری جمالیاتی تسکین کا ذریعہ بن جائے تو وہ متن ہوگا اورادب کہلائے گا۔اب اس یہ تنازع نہیں ہوسکتاکہ یہ اسلامی ہے اور یہ غیر اسلامی ہے۔یہ قدر متعین کرے گی کہ یہ اسلامی ادب ہے یا غیر اسلامی۔ادب کو ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں سماج کی قدریں اس طرح واضح ہوجائیں کہ ہماری جمالیاتی تسکین کا ذریعہ بن جائے۔اور قدر تصور حق کے بغیر ہو ہی نہں ہوسکتی۔
سیمنار کا آغاز ڈاکٹر خالد مبشر، صدر ادارہ ادب اسلامی ہند دہلی شاخ کےافتتاحی کلمات ہوا۔انہوں نے سیمنار کے مرکزی عنوان ،سیمنار کے منعقد کرنے کامقصد اور تعمیر ی اقدار کے حوالے سے یہ جو لاحقہ ہے اس میں وہ توجہ طلب ہے۔نظریہ ادب کے تعلق سے گفتگو کی ۔ ابتدائیہ محمد آصف اقبال ،سکریٹری ،انسٹی ٹیوٹ آف اسٹڈی اینڈ ریسرچ دہلی نے پیش کیا۔ اس موقع پر آصف اقبال نے تحقیق و تصنیف اور ادب اسلامی کے حوالے سے گفتگو کی اور شرکاء پروگرام کو اس جانب متوجہ کیا کہ حق و باطل کی کشمکش کے درمیان حق کو چھپانے سے شعوری و لاشعوری ہر دو سطح پر پرہیز کرنا چاہیے ۔اور کہا کہ حق چونکہ باطل کی ضد ہے اس لیے جہاں حق ہوگا وہاں باطل بھی ہوگا ۔لہذا موجودہ حالات میں ہمیں اس نکتہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی صلاحیتوں اور مواقع کا بھر پور استعمال کرنا چاہیے۔آصف اقبال نے ادارہ کے اغراض ومقاصد اور دائرہ کار کامتعارف بھی کرایا اور شرکاء پروگرام کو دہلی میں تحریک و زبان و ادب کے قافلہ کو مزید وسعت دینے کی اپیل کی۔ مشہور مصنف ،ادیب اور معروف شاعرانتظار نعیم ، سابق صدر، ادارہ ادب اسلامی ہند نے مہمان خصوصی کے طور پر شرکت فرمائی اور طلبہ کو سند تقسیم کیں۔
سیمینار میں چند مشہور و معروف ادبی شخصیات پر ان کے ادبی تصورات کی روشنی میں چار مقالات پیش کئے گئے ساتھ ہی پہلے سے طے شدہ ریسرچ اسکالرز نے انٹروینشن بھی پیش کیے ۔ پہلا مقالہ دہلی یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر مہر فاطمہ نے “اقبال کا تصور ادب” کے حوالے سے پیش کیا۔، دوسرا “سید ابوالاعلی مودودی کا تصور ادب” پر زین ہاشمی نے اپنا مقالہ پیش کیا ، تیسرا”محمد حسن عسکری کا تصورِ ادب” کے حوالے سے دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر محمد اشرف یاسین نے مقالہ پیش کیا اور آخری مقالہ بعنوان “تعمیری نظریہ ادب (نعیم صدیقی، عامر عثمانی اور ماہر القادری کے حوالے سے)” ڈاکٹر فاطمہ تنویر نے پیش کیا۔
سیمنار میں ذیلی عنوانات کی روشنی میں ادبی تصورات کا احاطہ مقصود تھا۔ ساتھ ہی مقصدیت پر مبنی تعمیری ادب کی وکالت مقالہ نگاروں کے ذریعہ کی گئی۔ مقالات میں تحریروں کی ذریعے مواقف کا جائزہ لیا گیا اور بتایا گیا کہ ادب کی وہ کون سی صورتیں ہیں جنہیں وہ لائق اعتنا نہیں قرار دیتے یا بے مقصد اور نوعِ انسانی کے لیے بے مصرف سمجھتے ہیں۔ ادب تبدیلی لانے والی سماجی قوت ہے اور یہ حضرات اس کے ذریعے ایک صالح تبدیلی برپا کرنا چاہتے تھے۔ ذیلی عنوانات اوراقتباسات دلائل کے ذریعے بتایا گیا کہ جن شخصیات پر مقالات پیش کئے گئے ہیں وہ ادبی اظہار کو اخلاقی ترقی و سماجی انقلاب کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ اردو ادب میں ان کی خدمات کا تنقیدی جائزہ بھی لیا گیا اور معاصر ادبی رجحانات کے خلاف ان کی مخصوص تنقیدوں کو بھی اجاگر کیا گیا۔ جورجحانات کوان کے ادبی و اخلاقی معیارات کو نہیں پہنچ سکے۔ بحیثیت مجموعی سیمنار میں ایسے ادب کو فروغ دینے کی اہمیت کا اعادہ کیا گیا جو نہ صرف جمالیاتی و فنی اعتبار سے حظ آگیں اور مسرت بخش ہو بلکہ معاشرے کی فکری تربیت کے ذریعہ اس میں تبدیلی کے عمل کو بھی مہمیز کرے۔
سیمینار کے اختتام پر تمام مقالہ نگاروں اور انٹروینشن پیش کرنے والے افرادکو اسناد تقسیم کئے گئے۔سیمنار کا آغاز قاری ضمیر اعظمی کی تلاوت قرآن سے ہوا اور نظامت کے فرائض معاذ رفعت اور صالح انصاری نے انجام دی۔