شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
’’جہاد‘‘ ایک ایسا لفظ ہے کہ جس کو مغربی اہل قلم اور حکومتوں نے بدنام کرکے رکھ دیا ہے ، یہاں تک کہ مسلمانوں کی نئی نسل بھی جہاد کے تذکرہ پر شرمندگی اور احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتی ہے ؛ حالاں کہ یہ محض پروپیگنڈہ یا غلط فہمی ہے ، امن اور انصاف قائم کرنے کی کوشش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں ، جہاد کا تعلق صرف میدان کارزار اور فولادی وآتشی ہتھیاروں سے نہیں ہے ؛ بلکہ انسان کی ان تمام صلاحیتوں سے ہے ، جو امن و انصاف قائم کرنے کے مقصد کو پورا کرسکتی ہیں ، جہاد زبان سے بھی ہے ؛ چنانچہ پیغمبر اسلام ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کا کہنا جہاد کی سب سے افضل صورت ہے : أفضل الجہاد کلمۃ حق عند سلطان جائر (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر:۴۳۴۴) اور جو کام زبان کرتی ہے ، وہی کام بعض اوقات زیادہ بہتر طور پر قلم کے ذریعہ انجام دیا جاتا ہے ؛ اسی لئے قلم بھی جہاد کا ایک ذریعہ ہے، جہاد مال کے ذریعہ بھی ہے ، خود قرآن مجید میں اس کا ذکر موجود ہے (توبہ:۴۱) جہاد کا تعلق انسان کے نفس اور جسمانی مشقتوں سے بھی ہے ؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حج کو بھی جہاد قرار دیا: ’’الحج جہاد‘‘ (سنن ابی ماجہ، حدیث نمبر: ۲۹۸۹) کیوں کہ حج میں انسان نفس کے خلاف مجاہدہ کرتا ہے ، نہ اپنی مرضی کا لباس پہن سکتا ہے ، نہ خوشبو کا استعمال کرسکتا ہے ، اور اسے اپنی بعض اور جائز خواہشات کو بھی چھوڑنا پڑتا ہے ، جہاد کی آخری شکل وہ ہے ، جس کو ’’جنگ‘‘کہا جاتا ہے ، جس کا مقصد عدل و انصاف قائم کرنے اور شر و فساد کو دُور کرنے میں آخری درجہ کی قوت کا استعمال کرنا ہے ۔
غرض کہ جہاد کا مقصد متعین ہے ؛ لیکن آلات و وسائل متعین نہیںہیں ، ہر زمانہ میں جو طاقت اور جو صلاحیت انصاف کوقائم کرنے میں ممد و معاون ہوسکتی ہے ، ظالموں کو زیر کرسکتی ہے ، اور سماج پر اثر انداز ہوسکتی ہے ، ان وسائل کا استعمال کیا جانا چاہئے ، اس سلسلہ میں قرآن مجید کا یہ ارشاد ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ جہاں تک ہوسکے، ان کے مقابلہ میں طاقت کو منظم کرو: وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ‘‘۔ (انفال:۶۰)
مشہور مفسر علامہ فخر الدین رازی ؒنے لکھا ہے کہ یہ ہر ایسی چیز کو شامل ہے ، جس کے ذریعہ دشمن سے مقابلہ کیا جاسکتا ہو: ھذا عام فی کل ما یتقوّی بہ علی حرب العدوّ‘‘ (مفاتیح الغیب:۸ ؍۵۲۳) — اس سے کون سے ہتھیار مراد ہیں ؟ مفسرین نے اس کو بھی متعین کرنے کی کوشش کی ہے ؛ چنانچہ بعض اہل علم نے تیز اندازی مراد لی ہے ؛ کیوںکہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کے پڑھنے کے بعد تین دفعہ فرمایا کہ اصل قوت تیر اندازی ہی میں مضمر ہے: ألا إن القوۃ الرمي(مسلم، حدیث نمبر: ۵۰۵۵) خود قرآن مجید کی اس آیت میں گھوڑوں کا ذکر کیا گیا ہے ، جو گذشتہ زمانوں میں جنگ کے لئے ایک مفید ، ذہین اور تیزگام سواری تھی ، ذکر تیر کا ہو یا گھوڑے کا ، یہ ایک علامتی لفظ ہے ، جس کا مقصد ہے ہر دور کے مؤثر اور طاقتور ترین ہتھیار کا استعمال ۔
اللہ کا شکر ہے کہ ہم لوگ جس دور میں زندگی گذار رہے ہیں ، یہ جمہوری تصورات کے غلبہ کا عہد ہے ، جس میں رائے عامہ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہوتی ہے ، جس میں پُر امن طریقہ پر انقلاب لانا ممکن ہے ، جس میں اکثریت کی رائے کا خاص وزن ہوتا ہے ، جمہوری نظام حکومت کا ایک اہم اور بنیادی عمل الیکشن ہے ، الیکشن میں زیادہ ووٹ حاصل کرکے اقتدار حاصل کیا جاسکتا ہے ، اور ووٹ کی طاقت استعمال کرکے حکومتیں بدلی جاسکتی ہیں ؛ اس لئے حکومتوں کو گرانے اور ختم کرنے اور حکومتوں کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کے لحاظ سے الیکشن بھی اس قوت میں شامل ہے ، جس کے جمع کرنے کا قرآن مجید نے حکم دیا ہے ، خصوصاً ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ، الیکشن کی سیاست میں مسلمانوں کے حصہ لینے کی بے حد اہمیت ہے ۔
الیکشن میں حصہ لینے کا ایک پہلو یہ ہے کہ مسلمان زیادہ سے زیادہ ووٹ ڈالنے کی کوشش کریں ، یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ بعض اہل علم نے ووٹ کو گواہی کے حکم میں رکھا ہے ، گواہی دینا بوقت ضرورت واجب ہے اور اس سے بڑی ضرورت کیا ہوگی کہ فرقہ پرست پارٹیوں کو بام اقتدار تک پہنچنے سے روکا جائے ، عملی طور پر یہ بات دیکھی گئی ہے کہ جہاں کہیں مسلمانوں نے ووٹ ڈالنے کا اہتمام کیا ، وہاں سیکولر طاقتوں کو آگے بڑھانے اور فسطائی قوتوں کو پیچھے ہٹانے میں مدد ملی ہے۔
اس طاقت کو استعمال کرنے کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ مسلمان اپنے ووٹ کو بکھراؤسے بچائیں اور پورے شعور کے ساتھ متحد ہوکر کسی ایک پارٹی کو ووٹ دیں ، اکثریت تو ووٹ تقسیم ہونے کے باوجود اپنی سیاسی قوت برقرار رکھ سکتی ہے ؛ لیکن اس اقلیت کا کوئی وزن باقی نہیں رہ سکتا، جس کی صفیں شکستہ ہوں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اجتماعیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد ہے: ید اللّٰه علی الجماعۃ(نسائی، حدیث نمبر:۴۰۲۰) قرآن مجید کی ہدایت ہے کہ مسلمان مل جل کر رسی کو تھامیں اور پراگندہ ہونے سے بچیں : وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا (آل عمران: ۱۰۳) انتشار اوربکھراؤ ، ہوا خیزی ، شکست و ریخت اور قومی کمزوری کا سبب ہوتا ہے : وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا (انفال: ۴۶)
الیکشن میں مسلمانوں کے ووٹ کو بے اثر کرنے کے لئے دُور رس اور بظاہر دلفریب سازشیں بھی کی جاتی ہیں ، اور مضبوط مسلمان اُمیدوار کے مقابلہ مسلمان اُمیدوار ہی کھڑے کئے جاتے ہیں ، ایسے موقع پر ضروری ہے کہ صورت حال کو دیکھتے ہوے فیصلہ کیا جائے اورجیسے اسلام دشمن طاقتیں عہد نبوی میں منافقین کو اپنا آلہ کار بناتی تھیں ؛ لیکن مسلمان اس سے متأثر نہیں ہوتے تھے ، اس اُسوہ کو سامنے رکھا جائے ، اگر کچھ مسلمان اُمیدوار پیسے لے کر مسلمان یاسیکولر اُمیدوار کو نقصان پہنچانے کے لئے کھڑے ہوں تو یہ یقیناً رشوت ہے اوربمقابلہ عام رشوتوں کے زیادہ گناہ کا باعث ہے ؛ کیوںکہ اس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں ۔
ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی الگ سیاسی جماعت قائم کرنی چاہئے ، جس کا رجحان بڑھ رہا ہے ، یا دوسری سیاسی جماعتوں میں شرکت کو ترجیح دینی چاہئے ؟ —میں سمجھتاہوں کہ اس سلسلہ میں ہر جگہ ایک ہی طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا جاسکتا ؛ بلکہ مختلف علاقوں کے حالات کے اعتبار سے الگ الگ طریقے مفید ہوسکتے ہیں ، مسلم جماعتوں کے قیام میں یہ فائدہ ضرور ہے کہ وہ قانون ساز اداروں میں کسی تحفظ کے بغیر مسلمانوں کی بات پہنچاسکتے ہیں، ہندوستان کی بعض ریاستوں میں اس کا بڑا فائدہ محسوس کیا گیا ہے ، خاص کر جنوبی ہند اور مشرقی ہند کے بعض اور علاقوں میں بھی مسلمانوں کی ایسی سیاسی تنظیمیں فائدہ مند ثابت ہوئی ہیں ؛ لیکن یہ ایسی جگہ پر ہی ممکن ہے ، جہاں مسلم آبادی مرتکز ہو ، جہاں مسلم آبادی مرتکز نہ ہو ، وہاں مسلمانوں کی اپنی پارٹیوں کا قیام فائدہ مند کے بجائے نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے ؛ کیوںکہ اگر آپ کے ایک دو ممبر منتخب بھی ہوگئے ؛ لیکن دوسری پارٹیوں نے یہ محسوس کرلیا کہ مسلمانوں کا ووٹ انھیں نہیں ملا تو آپ ان پر کوئی پریشر قائم نہیں کرسکتے اور صرف ایک دو ممبر کے ذریعہ آپ کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ، ایسی جگہوں میں یہ بات زیادہ مفید ہوتی ہے کہ اپنی علاحدہ پارٹی قائم نہ کی جائے ؛ لیکن اپنے مطالبات کا ایجنڈہ مرتب کیا جائے ، اور اس کو ان پارٹیوں کے سامنے پیش کیا جائے جو اپنے آپ کو سیکولر کہتی ہیں اور پھر ایسی پارٹی کے حق میں متحد ہوکر کوشش کی جائے ، جو مسلم ایجنڈہ کو قبول کرے ، رسول اللہ ﷺ نے بہت سے کام غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ مل کر اشتراک کے ساتھ کئے ہیں ، آپ نے ظلم و نا انصافی اورلا قانونیت کو دُور کرنے کے لئے ’حلف الفضول ‘میں شرکت فرمائی ہے ، اگرچہ یہ واقعہ ، نبوت سے پہلے کا ہے ؛ لیکن نبی بنائے جانے کے بعد بھی آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے اب بھی اس کی طرف دعوت دی جائے تو میں قبول کروںگا : لو دعیت إلیہ لأجبت (مسند البزار ، حدیث نمبر: ۱۰۲۴، ۱؍۱۸۵) اسی طرح ہجرت کے بعد آپ نے مدینہ منورہ میں ایک ایسی مملکت کی داغ بیل ڈالی ، جس میں مسلمانوں کو اور یہودیوں کو یکساں طور پر مذہبی آزادی حاصل ہو اور دونوں یکساں طور پر دفاع کی ذمہ داریاں ادا کریں ، جب تک خود یہودیوں کی طرف سے بد عہدی کے واقعات پیش نہیں آئے ، یہ معاہدہ باقی رہا، یہ ایک مثال ہے کہ رسول اللہ ﷺ ضرورت و مصلحت کے مطابق غیر مسلم قوموں کے ساتھ اشتراک اختیار فرمایا کرتے تھے ، اس لئے جن سیاسی پارٹیوں کا ایجنڈہ کھلے طور پر اسلام اورمسلمانوں سے عداوت پر مبنی نہ ہو ، ان پارٹیوں میں شرکت اور ایک باعزت معاہدہ کے تحت ان کے حق میں ووٹ دینے میں کوئی حرج نہیں ۔
جہاں مسلم پارٹیوں کا قیام اور ان کے اُمیدواروں کا کھڑا ہونا مسلمانوں کے لئے نقصان کا باعث ہو اور اس سے فرقہ پرست پارٹیوں کو تقویت پہنچتی ہو ، وہاں مسلم پارٹیوں کا اُمیدوار کھڑا کرنا یقیناً ایک نادرست عمل ہی کہلائے گا ، تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بہت سی سیٹیں بھارتیہ جنتا پارٹی کو مسلمان پارٹیوں کی بدولت حاصل ہوئیں ؛ چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ بعض دفعہ مسلم اکثریت جگہوں سے فرقہ پرست ممبران منتخب ہوجاتے ہیں ، یہ ایمانی فراست ، سیاسی شعور اور ملی حمیت کے مغائر ہے !
غرض کہ جمہوری نظام میں ووٹ ایک اہم طاقت اور ایک مؤثر ہتھیار ہے اورمسلمانوں کا ملی فریضہ ہے کہ وہ نہایت شعور ، ہوش مندی اور سمجھداری کے ساتھ اس ہتھیار کا استعمال کریں ، نہ اپنے دشمنوں کے آلہ کار بن جائیں اور نہ جذبات کی رو میں بہہ کر ایسا قدم اُٹھائیں جو خود ان کے لئے نقصاندہ ہو۔