کسی فلم کی مخالفت سراب کے پیچھے بھاگنے جیسا ہے

محمدبرہان الدین قاسمی

ایڈیٹر: ایسٹرن کریسنٹ، ممبئی

ایک بات اکثر ہم مسلمان معصومیت یا مذہبی جذبات میں بہہ جانے کی وجہ سے بھول جاتے ہیں کہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں بھی بہت سارے لوگ سیاسی جماعتوں کی طرح مسلمانوں کے جذبات کو شعلہ بنا کر پیسے کمانے میں یقین رکھتے ہیں. وہ جان بوجھ کر اسلام اور مسلم مخالف فلمیں بناتے ہیں تاکہ کچھ لوگ ان کی مخالفت کریں اور کچھ حمایت میں جھنڈے بلند کریں۔ ہر ٹی وی چینل، اخبار اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ان کے فلم کی حمایت اور مخالفت میں بحث ہو۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خود فلم بنانے والے کی طرف سے باقاعدہ خرچ کر کے پہلے مخالفین کو مواد فراہم کر کے تیار کیا جاتا ہے کہ وہ اخباری بیان دیں۔ راقم کو تو مالی آفر بھی ملا تھا کہ فلاں فلم کے بارے میں ٹی وی اور اخباری بیان شائع کروں، “بدلے میں آپ کا نام بڑا ہوگا، مشہور ہوں گے اور سارے اخراجات بھی ‘فلاں صاحب خیر’ دین کی خدمت کے لئے اٹھائیں گے”. مخالفین کے محاذ میں اتر جانے کے بعد پھر اس فلم کے حامیوں کے ٹولے کو سامنے لایا جاتا ہے وہ بھی فلمی انداز میں اور عام طور پر شروع شروع میں فلم والوں کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔ اس طرح کی شعبدہ بازی کے ذریعہ ماحول کو گرمائے بغیر کوئی فلم جس میں عوام کے لئے خاص دلچسپی کا مواد نہ ہو وہ کامیاب ہو ہی نہیں سکتی ہے۔

اب حال میں کوئی فلم، میں عمداً نام نہیں لے رہا ہوں، جس میں فلمایا گیا ہے کہ” شاید مسلمان زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں، “ اس بات کو منفی انداز میں پیش کیا گیا ہے، اس کی مخالفت اور فلم پرکھنے کی باتیں سوشل میڈیا کے “مجاہدین” بڑے زور و شور سے سر انجام دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ فلم ابھی تک ریلیز نہیں ہوئی ہے اور ہر فلم بنانے والا ریلیز سے پہلے کروڑوں روپیہ خرچ کر کے اپنی فلم کو عوام میں متعارف کراتا ہے تاکہ ریلیز ہوتے ہی لوگ اس فلم کو دیکھنے کے لئے بھاگے، دوسری طرف موجودہ ماحول میں مسلمانوں کی طرف سے کسی اسلام مخالف فلم کی لاکھ مخالفت کے باوجود ہندوستان میں اس پر پابندی نہیں لگے گی۔ یہ بات اگر کسی مسلمان کو اب بھی سمجھ میں نہیں آرہی تو یہ شخص کسی اور دنیا میں جی رہا ہے اور اس کو علاج کی اشد ضرورت ہے۔

مسلمانوں کی طرف سے اس وقت کسی فلم کے بارے میں سوشل میڈیا بازی سے فلم کی پروموشن اور پبلسٹی (اشتہار بازی) میں مدد کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوگا جو ہم اپنی معصومیت یا نادانی میں ثواب سمجھ کر انجام دے رہے ہیں۔ ہم اس فلم کے نام، مواد اور اس میں کام کرنے والوں کو مفت میں مشہور کر کے اسلام کا نعرہ لگا کر اپنا نام بھی سوشل میڈیا میں اونچا کرنے کا “ثواب” کما رہے ہیں۔

فلم آنے کے بعد بہت ممکن ہے کہ وہ بالکل فلاپ ہو جائے، ممکن ہے جو باتیں پروموشن کے لئے پیش کی گئی وہ سب ایسی نہ ہو یا ممکن ہے خوب ہٹ (مشہور) ہو جائے اور ہماری مخالفت مزید شرمندگی کا سبب بن جائے، اس لئے عقلمندی اسی میں ہے کہ آج کے انٹرنیٹ کے زمانے میں کسی فلم، کتاب یا ویڈیو کی مخالفت نہ کر کے اس سے بہتر مواد عوام کے سامنے پیش کردیا جائے کیونکہ مخالفت سے اس بری چیز کی اشتہاری فائدہ ہی ہوتا ہے اور فلموں کو ایک جگہ سے اگر روک بھی دیا جائے تو لوگ ان کو OTT – نیٹ فلکس اور یو ٹیوب و غیرہ جیسے پلٹ فارم پر اپلوڈ کر دیتے ہیں جن کو پھر کروڑوں لوگ فری میں دیکھتے ہیں۔

اس زمانہ میں فلموں کی مخالفت میں انرجی خرچ کرنا خود فریبی اور سراب کے پیچھے بھاگنے کے سوا کچھ نہیں جو بہرحال کوئی معقول عمل نہیں ہے۔ کچھ سوشل میڈیا کے ایکٹیو لوگ یا چھوٹے میڈیا ہاؤسز اس طرح کے کام کے لئے عوام کو ورغلاتے ہیں جس میں اس مخالفت کے سہارے ان کے خود کی مارکیٹنگ بھی اچھی خاصی ہوجاتی ہے. عوام اور مسلمان نوجوانوں کو اس طرح کے بےسود اشتہار بازی سے بالکل دور رہنا مناسب ہے.

          ——====——-

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com