پروفیسر اختر الواسع
۲۰۲۴ کے پارلیمانی الیکشن خیر و عافیت کے ساتھ اختتام کو پہنچے۔ اس الیکشن کی خوبی یہ تھی کہ اس میں چار سو پار کا نعرہ لگانے والی حکمراں جماعت معمولی اکثریت بھی حاصل نہ کر پائی۔ ایودھیا میں رام مندر کی پران پرتشٹھا کو لے کر حکمراں جماعت نے جو زور شور سے نمائش کی تھی وہ بھی کام نہ آئی اور ایودھیا سمیت اس کے آس پاس کی ساری سیٹیں حکمراں جماعت ہار گئی۔ اتر پردیش جہاں سے ہو کر اقتدار کا راستہ دہلی تک جاتا ہے، وہاں پر سب سے زیادہ سیٹیں اکھیلیش یادو کی قیادت میں سماجوادی پارٹی اور اس کی حلیف کانگریس کو ملیں۔ لیکن بہر حال چندر بابو نائیڈو اور نتیش کمار اور دوسرے حلیفوں کے سہارے کسی نہ کسی طرح شری نریندر مودی کی قیادت میں این ڈی اے کی سرکار بن گئی۔ یہ سرکار کتنی عمر والی ثابت ہوگی، اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا، کیوں کہ این ڈی اے سرکار کی حلیف جماعتیں کب اس سے حمایت واپس لے لیں ، اس پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
اس الیکشن کی بہر حال ایک سب سے بڑی خوبی اور خصوصیت یہ تھی کہ مسلمانوں نے انتہائی صبروتحمل کا ثبوت دیتے ہوئے حکمراں جماعت اور اس کے لیڈروں کی اشتعال دلانے والی ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف ایک علیٰحدہ صف بندی کرنے کے لیے کی جانے والی ہر کوشش کو ناکام بنادیا۔ ایمان کی بات یہ ہے کہ ہندوؤں نے بھی بڑے صبر و ثبات کے ساتھ وزیر اعظم شری نریندر مودی، ان کے وزیر داخلہ اور بی جے پی کے چانکیہ کہے جانے والے شری امت شاہ اور اتر پردیش و آسام کے وزرائے اعلیٰ کی ان تمام کوششوں کو ناکام بنادیا جس میں وہ اپنی کامیابی کو مضمر سمجھتے تھے۔
وزیر اعظم نے راجستھان کے بانسواڑہ میں جس طرح اپنے سُر بدلے اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا وہ اس بات کی دلیل تھا کہ وہ اب ہارنے جارہے ہیں۔ انھوں نے جس طرح مسلمانوں کو گھس پیٹھیا، زیادہ بچے پیدا کرنے والا اور غیر مسلم بیاہتا عورتوں کے منگل سوتر چھین کر مسلمانوں کو دے دینے کی بات کی، وہ ان کی مایوسی اور ناامیدی کی کھلی علامت ثابت ہوئے۔
ہمارے وزیر اعظم بھی خوب ہیں۔ وہ ایک طرف تو پس ماندہ مسلمانوں کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف پس ماندگی پر مذہب کا ٹھپہ بھی لگا دیتے ہیں اور صاف کر دیتے ہیں کہ مسلمانوں کو کسی طرح کا ریزرویشن نہیں دیا جائے گا۔ انھوں نے اور ان کے وزیر داخلہ نے یہاں تک کہا کہ مسلمانوں کو پس ماندگی کی بنیاد پر جو ریزرویشن دیا گیا ہے اسےمذہبی قرار دے کر چھین لیا جائے گا۔ نتیجہ یہ کہ وہ مسلمان جو پس ماندگی کی بنیاد پر اپنی عسرت و تنگی کے وزیر اعظم کے زریعے دور کئے جانے کی خوش فہمی میں مبتلا تھے، انھوں نے بھی انھیں ووٹ نہیں دیا۔ وزیر اعظم یہ بھول گئے کہ ہجومی تشدد (ماب لنچنگ) کا شکار ہونے والا ہر مسلمان اتفاق سے پس ماندہ ہی تھا۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ وزیر اعظم اقتدار میں تیسری بار آنے کے لیے چندر بابو نائیڈو اور ان کے بیٹے کی طرف سے مسلمانوں کو آندھرا پردیش میں دیئے جانے والے ریزرویشن کی حمایت میں بولنے کے باوجود ان کی حمایت قبول کر لیتے ہیں۔ ایک طرف تو وہ سب کا ساتھ ،سب کا وِکاس، سب کا وِشواس کی بات کر رہے تھے اور دوسری طرف وہ اس ملک کے نوجوانوں کے لیے روزگار ، کسانوں کے لیے مناسب طرز زندگی، فوج میں جانے کی خواہش رکھنے والے جوانوں کے لیے اگنی ویر جیسی جھنجھنوں والی نوکریوں کی بات کر رہے تھے۔ وہ یہ بھول گئے تھے کہ مہنگائی ہو یا گیس سلینڈر کی بڑھتی ہوئی قیمت، اس کا سیدھا اثر چولہوں پر پڑ رہا تھا اور کوئی گرہستن اپنے باورچی خانوں میں مہنگائی کے عفریت کو برداشت نہیں کر سکتی۔
جس طرح مدرسوں کے خلاف آوازیں بلند کی گئیں، قانونی چارہ جوئی سے پہلے مسلمانوں کے علاقوں میں بلڈوزر چلائے گئے، سرکاری کسٹڈی میں مسلمان باہوبلی نذر اجل کیے گئے، جس طرح مسجدوں اور مزاروں کی بے حرمتی کی گئی وہ سب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس الیکشن سے یہ بات بھی پوری طرح واضح ہو گئی کہ مندر اور دھرم کے نام پر راج نیتی بہت دن تک نہیں کی جا سکتی اور یہ کسی اور نے نہیں اس ملک کے ہندوؤں نے ثابت کیا جن کی غالب ترین اکثریت سیکولر ہے۔
اس الیکشن سے صرف بی جے پی کو ہی سبق نہیں سیکھنا چاہیے بلکہ نام نہاد سیکولر جماعتوں کو بھی سبق لینا چاہیے۔ مہاراشٹرا میں کسی مسلمان کو ٹکٹ نہ دینا، ارونگ آباد سے امتیاز جلیل، دھوبڑی آسام سے مولانا بدر الدین اجمل، کشن گنج سے اختر الایمان اور امروہہ سے کنور دانش علی کی ہار کسی اور کی نہیں نام نہاد سیکولر جماعتوں کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے۔ اس پر محترمہ مایاوتی کا یہ طنطنہ اور ذلت آمیز تبصرہ کہ انھوں نے سب سے زیادہ ٹکٹ مسلمانوں کو دئیے اور مسلمانوں نے انھیں ووٹ نہیں دیا، اس لیے وہ پارلیمنٹ میں ایک ممبر بھی نہیں پہنچا پائیں، لیکن اب ان سے کون کہے کہ انھوں نے جو بڑی تعداد میں مسلمانوں کو ٹکٹ دیئے وہ ان کی جیت کو یقینی بنانے کے لیے نہیں بلکہ بی جے پی کومسلم ووٹوں کی تقسیم کے نتیجے میں جتانے کے لیے دیئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ مایاوتی سے کسی نے اب تک یہ کیوں نہیں پوچھا کہ انھیں دلتوں کے کتنے ووٹ ملے؟ سچ بات تو یہ ہے کہ مایاوتی نے پارٹی کو اپنی جیب کا سکہ سمجھا، اس کو ماسٹر کانشی رام کی طرح کیڈر بیسڈ پارٹی بننے ہی نہیں دیا۔
بنگال میں ممتا بنرجی کی قیادت میں سب سے زیادہ مسلمانوں نے کامیابی حاصل کی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سچے معنوں میں سیکولر پالیسیز کا نفاذ کرتی ہیں۔ ان کے سچے اور کھرے ہندو ہونے میں بھی شبہ نہیں۔ وہ بنگال کا بھدر لوک ہو یا درگاپوجا کے تیوہار یا عام بنگالی ہندو اس کا مذہب، ذات پات کی تفریق کے بغیر خیال رکھتی ہیں اور اسی لیے وہ بی جے پی کو بنگال سے دور رکھنے میں کامیاب بھی ہوئی ہیں۔
اس الیکشن تو اب جب بھی ہوں گے وہ الگ ہوں گے لیکن مسلمانوں کو وقتی کامیابی سے مطمئن نہیں ہو جانا چاہیے اور انھیں ساری مایوسیوں، پژمردگی اور خوف کی نفسیات سے اوپر اٹھ کر اپنے غیرمسلم بھائیوں سے ایک بہتر مثبت اور صحت مند مکالمے کا آغاز کرنا چاہیےکہ وہ مسلمانوں سے کیا چاہتے ہیں اور خود اپنی طرف سے کیا کرنے کو تیار ہیں۔ یاد رکھیے کہ صرف ہندو کا سیکولر ہونا ہی کافی نہیں، ہمیں بھی اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے سیکولر ثابت کرنا ہوگا۔
مسلمانوں کو ایک سماجی گروہ کے طور پر تعلیم اورتجارت پر خاصہ زور دینا ہے۔ تعلیم کے لیے ہم اپنی غربت اور پس ماندگی کو بہانا نہیں بنائیں گے بلکہ آدھی روٹی کھائیں گے مگر اپنے بچوں کو ضرور پڑھائیں گے۔ یاد رکھیے دنیا میں ہر چیز بدل سکتی ہے سوائے سنت الٰہی کے۔ سنت الٰہی یہ ہے کہ سورۂ بقرہ کے بقول جب فرشتے اشیا کے نام نہیں بتا سکے اور آدم نے بتا دئیے تو اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں اور اس طرح اپنی اس سنت کو ابد الآباد سے قیامت تک کے لیے دوام بخش دیا کہ جو نہیں جانتے انھیں جھکنا پڑےگا ان کے سامنے جو جانتے ہیں۔ اسی طرح تجارت میں اللہ نے کئی گنا زیادہ فائدہ رکھا ہے اور دنیا کی تاریخ اس کی گواہ ہے کہ دنیا میں جس قوم نے بھی عروج پایا وہ تجارت کے سہارے ہی پایا کیوں کہ جس کے ہاتھ میں مَنڈی ہے ، اسی کے ہاتھ میں مُنڈی ہے۔
میرے بعض دوست میری علی گڑھ کے زمانے کی اس زور بیانی کا حوالہ دیتے ہیں جس میں میں کہا کرتا تھا کہ ’’ ہم نے اس ملک کو قطب مینار کی بلندی، تاج محل کا حسن، لال قلعے کی پختگی، شاہجہانی مسجد کا تقدس اور معین الدین اور نظام الدین کا عرفان عطا کیا ہے‘‘ میں نے جو اس وقت کہا تھا اور آج بھی جس کو دوہراتا ہوں اس پر میں تاہنوز قائم ہوں لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جب تک ہم یہ دے سکتے تھے تو ظل الٰہی بھی ہمیں ہی تسلیم کیا گیا، اب ہم کیا دے رہے ہیں کہ کوئی ہمیں خاطر میں لائے۔ مسلمانوں کو اپنے آ پ کو دینے والا بنانا ہے اس کے لیے تیاری کرنی ہے، محنت کرنی ہے، منصوبہ بندی کرنی ہےاور اگر وہ سچ مچ ایساکرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بازار سیاست کی ہر رقاصہ ان کی ڈیوڑھی پر مجرا کرنے کے لیے تیار رہے گی۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس شعبۂ اسلامک اسٹڈیز ہیں)