پہلی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھا جائے، ایک طرف جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کو شکوک وشبہات سے بچایا جائے، دوسری طرف عام مسلمانوں کے اندر پُرمشقت حالات میں بھی دین پر ثابت قدم رہنے کا جذبہ پیدا کیا جائے: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
جس دین کا آغاز اقرأ سے ہو اس دین کے ماننے والوں میں تعلیمی پسماندگی قابل تشویش ہے: پروفیسر اختر الواسع
اس طرح کے تعلیمی تربیتی ورکشاپ کا انعقاد رجال سازی اور نئی نسل کی تعلیمی ترقی کے لئے وقت کی اہم ضرورت ہے: مولانا عتیق احمد بستوی
اسلامک فقہ اکیڈمی کے زیر اہتمام سہ روزہ سمر کیمپ کا انعقاد عمل میں آیا، جس کا مرکزی عنوان ’’عصر حاضر کے تعلیمی، سماجی اور معاشی مسائل ‘‘ کا عنوان رکھا گیا، اس ورکشاپ کا افتتاح مورخہ ۲۸؍جون ۲۰۲۴ء کو ہوا، افتتاحی نشست کی صدارت فقہ اکیڈمی کے علمی امور کے سکریٹری اور دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو کے استاذ حدیث وفقہ، اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے دار القضاء کنوینر نے کی، اور پدم شری پروفیسر اختر الواسع (سابق وائس چانسلر مولانا آزاد یونیورسٹی جودھ پور) نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی اور ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی (سکریٹری جماعت اسلامی ہند) نے بھی شرکاء سے خطاب کیا۔ مہمانوں کا استقبال مفتی احمد نادر القاسمی نے کیا جبکہ افتتاحی نشست کی نظامت ڈاکٹر صفدر زبیر ندوی نے کی۔ افتتاحی نشست میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے جنرل سکریٹری او رآل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا کلیدی خطبہ پڑھ کر سنایا گیا جس میں انہوں نے کہا کہ پہلی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھا جائے، ایک طرف جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کو شکوک وشبہات سے بچایا جائے، دوسری طرف عام مسلمانوں کے اندر پُرمشقت حالات میں بھی دین پر ثابت قدم رہنے کا جذبہ پیدا کیا جائے،اور پروفیسر محسن عثمانی ندوی کے اہم پیغام کو پڑھ کر سنایا گیا جس میں انہوں نے اس ورکشاپ کے انعقاد پر مسرت کا اظہار کیا اور شرکاء ورکشاپ کی حوصلہ افزائی کی۔
ورکشاپ کے مقالات کی پہلی نشست آج صبح ۲۹؍جون کو ۳۰ : ۹ بجے شروع ہوئی، اس نشست کی نظامت مفتی امتیاز احمد قاسمی نے کی اور پہلا مقالہ ڈاکٹر محمد مشتاق تجاروی قاسمی (جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے پیش کیا۔ موصوف کے مقالہ کا عنوان تھا ’’کامیاب علمی بحوث لکھنے کے اصول ومعیارات ‘‘ موصوف نے اس موضوع پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی۔ دوسرا مقالہ جناب محمد زاہد فلاحی ایڈوکیٹ نے پیش کیا، موصوف کے مقالہ کا عنوان تھا ’’مدارس کے فارغین کے لئے معاشی امکانات ومواقع ‘‘ اس نشست میں تیسرا مقالہ ملت ٹائمز کے بانی اور ایڈیٹر جناب شمس تبریز قاسمی نے پیش کیا، موصوف کے مقالہ کا عنوان تھا ’’سوشل میڈیا کا استعمال اس کے مختلف پہلو ‘‘۔
ورکشاپ کی دوسری علمی نشست ساڑھے گیارہ بجے شروع ہوئی ، اس نشست کے کنوینر اور ناظم مفتی احمد نادر القاسمی تھے، اس میں دو اہم مقالات پیش ہوئے، پہلے مقالہ کا عنوان تھا ’’ہندوستانی مذاہب کے ساتھ مکالمہ کا منہج اور طریقہ کار ‘‘ جسے مولانا محمد عاشق صدیقی ندوی (استاذ شاہ ولی اللہ پھلت) نے پیش کیا، اس مقالہ کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں ہندوستان کے تمام مذاہب کے لوگوں کے ساتھ رواداری، بھائی چارہ اور ان کے سامنے حسن واخلاق کے ساتھ اسلام کی سچائی کو متعارف کرانا اور دوسروں کی بات بھی سنجیدگی سے سننے پر توجہ دلائی گئی۔ دوسرا مقالہ جے این ایو کے صدر شعبہ عربی پروفیسر مجیب الرحمن کا تھا جس کا عنوان تھا ’’بیرونی ممالک میں اعلی تعلیم اور ہندوستانی مسلمان ، امکانات اور مواقع ‘‘ موصوف نے اپنے مقالہ میں بطور خاص اعلی تعلیم میں طلبہ مدارس کو آگے بڑھنے اور مشرق وسطی سمیت یورپ وامریکہ کی یونیورسٹی میں تعلیم کے مواقع پر بھرپور روشنی ڈالی۔
آج کی تیسری نشست مختصر وقفہ کے بعد ۱؍بجے شروع ہوئی جس کے کنوینر ڈاکٹر صفدر زبیر ندوی تھے، اس نشست میں دو اہم مقالات پیش کئے گئے، پہلا مقالہ مولانا شاہ اجمل فاروق ندوی (آئی او ایس) نے پیش کیا موصوف کے مقالہ کا عنوان تھا ’’دنیا کے مسلم فکری ادارے اور ان کی خدمات ‘‘۔ موصوف نے پوری دنیا میں قائم فکری ادارے اور ان کی خدمات کا تعارف کرایا، اس نشست کا آخری مقالہ ڈاکٹر مولانا اسامہ ادریس ندوی ایڈوکیٹ کا تھا، جس کا عنوان تھا ’’مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلیجنس) ایک تعارف ‘‘ موصوف نے بہت اچھے انداز میں تعارف کرایا، موصوف کے مقالہ کے بعد شرکاء نے سوالات کئے جن کے جوابات دونوں محاضر نے دیئے، اور آج کی اس آخری نشست کا اختتام ہوا۔