بھارت سرکار کے ذریعہ اسرائیل کو ہتھیار سپلائی کرنا ملک کی تاریخ سے بدترین غداری، معصوموں کے خون سے وطن کو آلودہ کرنے نہیں دیں گے ، یوپی میں مدارس دینیہ پر کارروائی آئینی حق کے خلاف: مولانا محمود اسعدمدنی
جمعیۃعلماء ہند کے اجلاس مجلس منتظمہ میں کئی اہم تجاویز منظور
نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے اجلاس مرکزی مجلس منتظمہ کے دوسرے دن صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے فلسطین کو لےکر حکومت ہند کی پالیسی اور حکومت اترپردیش کے ذریعہ دینی مدارس کے سلسلے میں تازہ نوٹس پر واضح اورسخت موقف اختیار کیا ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اترپردیش کے چیف سکریٹری نے اپنے تمام ضلع مجسٹریٹس کو ہدایت دی ہے کہ غیر تسلیم شدہ مدارس جن کی تعداد 4204 ہیں، ان میں داخل بچوں کو بنیادی حق تعلیم کے تحت اسکولوں میں داخل کیا جائے ۔ اس سلسلے میں ہم واضح طور پر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مدارس اسلامیہ حق تعلیم قانون سے مستثنی ٰ ہیں اور یہ حق ہمیں آئین نے دیا ہےجس سے دستبردار ہونےکو تیار نہیں ہیں ۔
دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ علماء اپنے اندر موجودہ زمانے کے تقاضوں کو پہچاننے کی قابلیت پیدا کر یں۔ اگر علماء زمانے کے تقاضوں کو سمجھنے میں ناکام رہیں گے تو وہ اپنے نوجوان بچے اور بچیوں کو ارتداد سے بچانے میں مؤثر کردار ادا نہیں کرسکیں گے ۔مولانا مدنی نے کہا کہ علمائے کرام ہندوستان کے مسلمانوں کی آبرو ہیں ۔اگر علماء کمزور ہوں گے تو یہ ملت کمزور ہو جائے گی ، اس لئے علماء کواپنے اندر طاقت پیدا کرنی چاہیے۔ اپنے سب ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ جو چیز ہم نے نہیں سیکھی ہے ،اس کو ہمیں سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے ، اس میں عمر اور شرم وحیا کو ہرگز مانع نہیں بننے دینا چاہیے ۔
مولانا مدنی نے فلسطین میں قتل عام کے سلسلے میں کہا کہ ہمارے ملک کی یہ سنہری تاریخ ہے کہ اس نے ہمیشہ فلسطین کا ساتھ دیا ہے۔ گاندھی جی نے فلسطینیوں کے لیے عوامی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا تھا ، آج بدقسمتی سے ہمارا ملک اسرائیل کو اسلحہ سپلائی کر رہا ہے جو ملک کی تاریخ و روایت سے غداری ہے ۔اس عمل کو کسی قیمت پر منظور نہیں کیا جانا چاہیے۔
مولانا مدنی نے ماب لنچنگ کو ہندستان کی تاریخ کی بدترین وبا قراردیتے ہوئے کہا کہ کسی مہذب ملک و سماج کے لیے اس سے زیادہ بدبختی کی کوئی بات نہیں ہو سکتی ، اس کے خلاف منظم جد وجہد کے لیے سب سے بنیادی کام یہ ہے کہ ہم گراؤنڈ زیر و پر جائیں ، ہر ضلع میں ایسے لوگ موجود ہوں جو ان واقعات کو مرتب کریں۔
میڈیا کے موجودہ کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنی طاقت حکمرانوں کے ہاتھوں گروی رکھ دی ہے۔ ہمارا میڈیا موجودہ سیاسی صورت حال کو بہتر بنانے کے بجائے بربادی کی طرف لے جارہا ہے، ہم میڈیا سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اسے بدلاؤ لانا پڑے گا، ورنہ یہ ملک کے ساتھ نا انصافی ہو گی ۔
مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ایک فکری تنظیم ہے ، یہ صرف ایجوکیشنل اور سوشل آرگنائزیشن نہیں ہے۔ یہ سوشل ورک اور تعلیم کا بھی کام کرتی ہے لیکن یہ فکری تنظیم ہے۔ اگر ہمیں سوشل ورک، تعلیمی خدمات،اسکول،اسپتال اور کالج بنانے کے لیے اپنے فکر سےسمجھوتہ کرنا پڑے تو ہم ایسا کبھی نہیں کریں گے ۔
ماحولیات پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پانی کا بچاؤ اور شجرکاری انسانیت کی بقا کے لیے نہایت ضروری کام ہیں ۔ ہماری مساجد میں ایسا انتظام ہو کہ وضو کا پانی ریسائیکل اور ری یوز ہو جائے،اسی طرح زیادہ سے زیادہ درخت لگانا چاہیے۔ یہ صدقہ جاریہ بھی ہے ۔
امیر الہند مولانا سید ارشد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند نے اس جلسے کے انعقاد پر اپنی دلی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جمعیۃ علماء خالص مذہبی جماعت ہے،یہ جماعت عصری تعلیم کی مخالفت کرنے والی جماعت نہیں ہے،لیکن جمعیۃ علماء ہند کا یہ فیصلہ ہے کہ نئی نسل کو بنیادی دینی تعلیم دیے بغیر اسکول کی مشرکانہ تعلیمات پر مبنی نصاب نہ پڑھایا جائے۔ ہمارا یہ نظریہ ہے کہ ناظرہ و حفظ اور فارسی کی تعلیم کے دوران ہی بچوں کو دسویں تک کی عصری تعلیم دے دی جائے۔ انھوں نے مزید کہا دین اسلام کے چراغوں کو قیامت تک بجھایا نہیں جا سکتا، اسلامی معارف اور علوم ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
مجلس قائمہ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا رحمت اللہ میر کشمیری نے کہا کہ بیجا پانی کے استعمال کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے،لہذا پانی بچاؤ کے سلسلے میںجو لائحہ عمل دیا گیاہے اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں۔ جمعیۃ علماء ہند اپنے کارکنان میں اجتماعیت،عہدے داران میں ذمہ داری وہمدردی اور تعمیری ذہن پیدا کرنا چاہتی ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے نائب صدر مولانا محمد سلمان بجنوری نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند ایک ایسی جماعت ہے جس کی بات سنی جاتی ہے اور جہاں بات پہنچانے کا ارادہ ہو وہاں بات پہنچتی بھی ہے۔ اس لیے جمعیۃ علماء ہند کے کاموں کی اہمیت کو سمجھیں۔ بہت سے انسان نما شیطان روئے زمین پر ہیں جنہوں نے شیطانوں کا کام سنبھال رکھا ہے ان حالات میں مایوس ہونے کے بجائے ہمیں اس ملک میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ہندوستان کی سالمیت اور اس کا فائدہ اسی میں ہے کہ ملک کو سیکولر رکھا جائے اور اس ملک کو کسی ایک رنگ میں رنگنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔
نائب امیر الہند مفتی سید محمد سلمان منصورپوری نے دینی ہدایات کو زندگی کے ہر شعبے میں عملی شکل دینے کی ترغیب دی، جمعیۃ کے ذریعے مصیبت زدوں کی مدد،مکاتب اور اصلاح معاشرہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔مفتی محمد عفان منصور پوری نے انسانی سماج میں نفع پہنچانے اور سماج کے بے سہاروں کا سہارا بننے کی ضرورت پر زور دیا۔
مدرسہ تعلیم الدین ڈھابیل کے استاذ مفتی محمودبارڈولی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد بیان کرتے ہوئے مکاتب دینیہ کے نظام کو آگے بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا اورصدر جمعیۃ علماء ہند کی تعریف کی کہ انھوں نے دینی تعلیمی بورڈ کو نئی روح بخشی ہے ۔
جمعرات کی شام دوسری نشست میں مدارس اسلامیہ کے تحفظ اور بقا پر تجویز منظور ہوئی جس میں مدارس پر سرکاری اور غیر سرکاری حملوں کی مذمت کی گئی اور ان اداروں کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔ اجلاس نے داخلی اصلاحات پر توجہ دلائی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ مدارس کے خلاف پروپیگنڈے کو روکا جائے۔دینی مدارس کے کردار کو تعلیم، اخلاقی تربیت، اور حب الوطنی کے فروغ میں بے حد اہم قرار دیا اور ان کے خلاف جاری منفی رویوں کو ملک و ملت کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔
ایک دوسری تجویز میں حکومتوں کے ذریعہ اسکولی تعلیمی نظام کو زعفرانی رنگ دینے اور طلبہ کو شرکیہ اعمال پر مجبور کرنے کی سخت مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ اسلام عقیدۂ توحید پر مبنی ہے اور مسلمان اللہ تعالی کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرسکتے۔ہندوستان کا دستور ہر شہری کو اپنے مذہبی عقائد پر عمل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اسکولی طلبہ کو سوریہ نمسکار، سرسوتی پوچا یا ہندوانہ گیتوں پر مجبور کرنا مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔جمعیۃ علماء ہند حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ ایسے اقدامات سے باز رہے۔ مسلمانوں کو تاکید کی جاتی ہے کہ وہ بچوں میں عقیدۂ توحید کو راسخ کریں اور تعلیمی اداروں میں کسی بھی مشرکانہ عمل میں شرکت سے گریز کریں۔ اگر مجبور کیا جائے تو احتجاج کریں اور قانونی راستے اپنائیں۔
جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ یکساں سول کوڈ پر اصرار کو شہریوں کی مذہبی آزادی اور دستوری حقوق کو ختم کرنے کی سازش سمجھتی ہے۔ یہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر وطن دوست طبقات کے لیے بھی ناقابل قبول ہے۔
یہ اجلاس اتراکھنڈ سرکار کے ذریعہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کو انصاف دشمنی سے تعبیر کرتا ہے اور مرکزی سرکار اور اس کی معاون پارٹیوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ یکساں سول کوڈ کی کسی بھی تجویز پر عمل نہ کریں اور اس سلسلے میں لاء کمیشن آف انڈیا کے ذریعہ دیے گئے عوامی مشورہ کو نظر انداز نہ کریں۔جمعیۃ علماء ہند تمام مسلمانوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ شریعت اسلامیہ پر ثابت قدم رہیں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے اسلامی شریعت کو عملی طور پر نافذ کریں۔
جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کا اجلاس ریزرویشن کے مقصد کو سمجھتے ہوئے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ریزرویشن مذہب کی بنیاد پر نہ دیا جائے اور نہ روکا جائے۔اجلاس کا مطالبہ ہے کہ دفعہ 341 میں ترمیم کرکے مذہب کی قید ختم کی جائے، تاکہ شیڈول کاسٹ مسلمانوں اور عیسائیوں کو بھی ریزرویشن کا حق مل سکے۔جمعیۃ علماء ہند مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ او بی سی ریزرویشن میں مسلم کمیونٹیز کے لیے مخصوص کوٹہ فراہم کریں، جیسا کہ کرناٹک، آندھرا پردیش، تمل ناڈو، اور کیرالہ میں موجود ہے۔
ایک اہم تجویز میں آسام لینڈ پالیسی 2019ء کے تحت زمین سے مذہبی اور لسانی اقلیتوں کی بے دخلی کو غیر آئینی بتاتے ہوئے اس کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ این آر سی آسام کی عدم اشاعت پر گہری تشویش ظاہر کی گئی ۔ مرکزی حکومت اور ہندوستان کے رجسٹرار جنرل سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ این آر سی کی اشاعت کے لیے لازمی نوٹیفکیشن جاری کریں۔
جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ وقف جائیدادوں پر فرقہ پرست عناصر کی سازش کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وقف ایکٹ کی منسوخی کی کسی بھی کوشش کو روکا جائے۔ وقف جائیدادوں کی بازیابی، وقف بورڈ کی خود مختاری، اور وقف ڈیولپ مینٹ کارپوریشن کو فعال کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ تمام مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ وقف کے تحفظ کے لیے جدوجہد کریں۔
جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کی مجلس حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ مسلم علاقوں میں تعلیمی اور معاشی پسماندگی دور کرنے کے لیے فنڈز مختص کیے جائیں اور تعلیمی اداروں کا قیام کیا جائے۔ مسلم کاروباریوں کے لیے مائیکرو فائنس اور بلا سودی قرضے فراہم کیے جائیں اور سرکاری اسکیموں کے بارے میں بیداری مہم چلائی جائے۔ مسلمانوں کو بھی اپنے نوجوانوں کی تربیت، سادہ زندگی، اور بچیوں کی تعلیم پر توجہ دینے کی تاکید کی جاتی ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹر ی مولانا حکیم الدین قاسمی، مولانا مفتی محمد عفان منصورپوری اور مولانا محمد عمر بنگلور نے اجلاس کی نظامت کی۔ مولانا حکیم الدین قاسمی نے اعلان کیا کہ ہمیں دو سو ایسے نئے علماء کی ضرورت ہے جن کو ہم تربیت دے کر کارآمد بنائیں گے۔ان کے علاوہ مولانا بدرالدین اجمل، مولانا محبوب حسن، مولانا حافظ ندیم صدیقی، مولانا رفیق احمد مظاہری ، پروفیسر نعمان شاہ جہاں پوری، حاجی محمد ہارون ، مولانا قاری شوکت علی خازن جمعیۃ علماء ہند، مولانا ارشد میرسورت، مولانا نیاز احمد فاروقی ، مولانا عابد قاسمی دہلی ، زبیر گوپلانی، مولانا مفتی افتخار قاسمی، مفتی شمس الدین بجلی، مولانا عبد الرب اعظمی، مولانا عبدالقادر آسام، مفتی جاوید اقبال کشن گنجی ، مولانا ساجد فلاحی، مفتی سلیم کرناٹک، مولانا ابراہیم کیرالہ ، مولانا سعید احمد تمل ناڈو، مولانا سمیع اللہ گوا، پیر خلیق صابر آندھرا پردیش، کلیم احمد ایڈوکیٹ بھوپال ، مولانا عبدالواحد کھتری راجستھان، پروفیسر نثار احمد انصاری وغیرہ نے تجاویز و تائیدات پیش کیں اور اپنے اپنے صوبوں کی کارگزاری پیش کی ۔ اس موقع پر ’جمعیۃ علماء ہند کی تاریخ‘ نامی کتاب کی تیسری جلد کا رسم اجرا ہوا، اس کتاب کے مرتب مولانا یاسین جہازی ہیں۔ مولانا عبدالقوی صاحب کی دعا پرجلاس اختتام پذیرہوا۔ ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند مولانا حکیم الدین قاسمی نے تمام مہمانان عظام،شرکائے اجلاس ، جمعیۃ یوتھ کلب ، انتظامیہ اور میڈیا والوں کا شکریہ ادا کیا۔