مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
(نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ)
دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی پریشانیاں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں، نچلی عدالت سے ضمانت ملتی ہے، ہائی کورٹ عمل در آمد پر روک لگا دیتا ہے، سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرتے ہیں، اس کے قبل ہی سی بی آئی انہیں گرفتار کر لیتی ہے اور سپریم کورٹ سے عبوری ضمانت پر روک کے خلاف عرضی واپس لینی پڑتی ہے، تاکہ الگ سے وہ مستقل ضمانت کے لیے پھر سے عرضی لگاسکیں، اسی پارٹی کے منیش سسوڈیا جنہوں نے وزیر تعلیم کی حیثیت سے دہلی کے تعلیمی اداروں کو نئی جہت اور نئی سمتوں سے آشنا کیا، بہت پہلے سے جیل میں بند ہیں اور ابھی ان کے باہر آنے کے امکانات نظر نہیں آتے۔
ان دونوں لیڈران پر ایکسائز پالیسی سے متعلق بدعنوانی کا الزام ہے اور ای ڈی نیز سی بی آئی باری باری ان پر شکنجہ کستی رہتی ہے، عدالتی کاروائی اور سی بی آئی وغیرہ کی جانب سے جانچ کی رپورٹ جو گودی میڈیا پر نشر ہوتی ہے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ کیجریوال کی شخصی حیثیت زیادہ سے زیادہ مجروح ہو اور آئندہ دہلی الیکشن میں عآپ پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے اور بی جے پی کی راہ ہموار ہوسکے، بی جے پی اور اس کے ہم نوا اچھی طرح جانتے ہیں کہ عآپ اور کیجریوال کو مختلف عنوانات سے کمزور نہ کیا گیا تو اگلے انتخاب میں وہ پھر سے بی جے لی کے دہلی حکومت بنانے کے خواب پر جھاڑو پھیردیں گے، ان کا انتخابی نشان جھاڑو ہی ہے اور اس سے پہلے کے دو انتخاب میں انہوں نے دیگر سیاسی پارٹی کے امیدواروں پر جھاڑو پھیر کر دکھا بھی دیا ہے۔
پورا ہندوستان اس بات کو جان رہا ہے کہ مودی کے پہلے دس سالہ دور حکومت میں ای ڈی، آئی بی اور سی بی آئی کا استعمال مخالفین کو دبانے، جیل بھیجوانے انہیں ہر اساں کرنے کے لیے کیا جاتا رہا ہے اور بہت سارے معاملات میں عدالت نے ای ڈی کے ذریعہ ملزم بتائے گئے شخص کو باعزت بری بھی کیا ہے، لیکن حکومت ان ایجنسیوں کا استعمال اس طرح کر رہی ہے کہ جو مخالف ہے، سب قابل دارورسن ہے اور جو بی جے پی میں چلا گیا اس کا سب داغ دھبہ دھل کر رہ جاتا ہے گویا بی جے پی سیاسی پارٹی نہیں کپڑا دھونے کی مشین ہے کہ جو اس میں گیا سب پاک صاف ہوگیا۔کیجریوال کے ساتھ بھی یہی ہورہا ہے۔