مولانا محمد برہان الدین قاسمی
(ایڈیٹر: ایسٹرن کریسنٹ، ممبئی)
‘عقل سلیم’ کسی چڑیا یا پتھر کا نام نہیں ہے، یہ انسان میں پائی جانے والی ایک بہترین خوبی کا نام ہے جو علماء میں بھی اگر موجود ہو تو وہ امت کے لئے مزید مفید بن جاتی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے سوفٹویر انجینئرس نے اپنے صارفین کے مزاج، پسند اور ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے، لوگوں میں اپنے ایجادات کو مقبول، آسان اور زیادہ قابل استعمال بنانے کے لئے لاکھوں کی تعداد میں ایموجیز، گرافکس، اے آئی ایمیجز اور سمبلز و غیرہ تیار کئے ہیں، اور وہ آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ ان میں سے کچھ، کچھ صارفین کو بہت پیارے اور معنی خیز لگتے ہیں، کچھ اور صارفین کو وہ بالکل بےہودہ اور فحاشی کے ترجمان یہاں تک کہ غیر مہذب اور غیر مذہبی لگتے ہیں اور لگنا بھی چاہیے۔ اسی لئے تو ان انجینئرس نے مختلف اور متعدد آپشنز تیار کئیے ہیں تاکہ ہر صارف اپنی پسند کی چیز کو استعمال کر سکے۔
یہ سیدھی سی بات ہے کہ آپ کو ان میں سے جو سمبلز سمجھ میں آئے اور اچھے بھی لگے، آپ ان کو استعمال کریں اور جو سمجھ میں نہ آئے یا پسند نہ ہو ان کو استعمال نہ کریں۔ جو سمبلز آپ کو سمجھ میں نہ آئے یا جن کا بیک گراؤنڈز آپ کو مشکوک لگے آپ ان کا استعمال کر کے اپنی بے وقوفی کا اعلان نہ کریں، یہ عقل سلیم کا تقاضا ہے۔ جو نوجوان ان سمبلز کا استعمال کرتے ہیں ان کو ان کے معروف معانی معلوم ہے تبھی تو وہ استعمال کرتے ہوں گے۔
واضح رہے سمبلز یا سمبل لینگویج میں جانبین کو معلوم معنی کا ہی اعتبار ہوتا ہے، اس کے بر خلاف وہ اشارہ (سمبل) بے معنی اور مہمل ہوگا۔ بہرحال نوجوان نسل کی شرعی اور معقول راہنمائی ہر زمانہ میں علماء امت کی ذمہ داری رہی ہے اور آج بھی ہے۔
لیکن ہاں، علماء کی طرف سے انگریزی کے لفظ ‘ہیلو’ میں ‘ہیل’ (جہنم) پوشیدہ ہے اور یہ صرف مسلمانوں کو گالیاں دینے کے لئے ایجاد کیا گیا ہے جیسا ‘تحقیقی دعویٰ’ اور لفظ ‘مَوسک’ (مسجد) کے اندر مَسکیٹوز (مچھروں) کو تلاش کر باہر نکالنا محض مضحکہ خیز تحقیق ہے جس سے آپ اپنی نا معقول معصومیت کو اپنی پوری برادری کے لئے ایک عیب بنا کر پیش فرما رہے ہیں۔
آج ہر نوجوان کے ہاتھ میں موبائل موجود ہے اور ہماری طرف سے پیش کی گئی بات، خاص طور پر جب وہ بات سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق اور اس نوجوان کے روز مرہ زندگی سے وابستہ ہو، تو وہ شخص محض ایک کلک کے ذریعہ ہماری بات کی تصدیق کر سکتا ہے اور بہت لوگ کرتے بھی ہیں۔ انٹرنیٹ پر موجود ہر بات صحیح نہیں ہوتی ہے لیکن ہر بات غلط بھی نہیں ہوتی ہے۔ کسی ذمہ دار فرد کے لئے اس بات سے ناآشنا ہونا مجموعی طور پر قوم کے لئے اور علماء حق کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگا کیونکہ ہماری غلط بات، مضحکہ خیز تحقیق اور بے جا مبالغہ آرائی کی وجہ سے عوام کا علماء سے اعتماد ختم ہو جائے گا اور پھر الراسخون فی العلم جیسی جماعت کی باتوں پر بھی عوام عمل کرنے سے گریز کرنے لگے گی۔
افسوس ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک کے کچھ بھائیوں کو، جب کچھ خاص کرنے کو نہیں ملتا ہے تو وہ کچھ ایسی خطرناک تحقیقات اردو قارئین کے ان باکس میں انڈیل دیتے ہیں، پھر تو پوری امت کے ایمان کے لالے پڑجانے ہوتے ہیں۔
واٹس ایپ اور فیس بک پر بحث در بحث، جواب علی الجواب کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو آخر کار بدکلامی اور قدیم فتاویٰ کے کاپی پیسٹ تک پہنچ کر عموماً بےنتیجہ ہی اختتام پذیر ہوتاہے۔
حال ہی میں اسی قبیل کا ایک نام نہاد تحقیق متعدد واٹس ایپ اور دوسرے سوشل میڈیا گروپس پر ہاکس کی طرح مکرر شئر ہوتا دیکھ رہا ہوں جس کا مفہوم یہ ہے کہ “اسٹیکرز اور ایموجیز پر نئی تحقیق سامنے آئی…، ایموجیز کے استعمال سے گریز کریں… اور محبت کا سمبل (دل) کا استعمال جائز نہیں… کیونکہ یہ سمبل حرام محبت کا نشان اور یونانی معبودوں کی علامت ہے…”
اس تحریر میں ‘اللجنۃ الدائمۃ للافتاء [٢٠٩٥٠]’ کے کسی فتویٰ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جو سعودی عرب کے سلفی جماعت کا ایک غیر معروف ادارہ ہے۔
واضح رہے کہ کچھ سال پہلے یہ سعودی والوں کی ہی نام نہاد تحقیق تھی کہ ٹیلیفون گفتگو میں استعمال ہونے والا انگریزی کا لفظ ‘ہیلو’ اصل میں ‘ہیل’ (جہنم) سے مشتق ہے چنانچہ کسی سلفی ‘مفتی’ کا عام گفتگو میں اس لفظ کو استعمال نہ کرنے کا فتویٰ بھی صادر ہوا تھا جسے بد قسمتی سے پڑوس ملک کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے کچھ اردو اخبارات نے بھی شائع کیا تھا۔
مختصراً عرض ہے کہ محبت کے سمبل (دل) اور اس جیسے لاکھوں سمبلز جوعام چیٹنگ اور شارٹ مسیجنگ میں لوگ ہر روز استعمال کرتے ہیں ان کو فری میسن، دجالی، سبائیت، یہودیت، شرک و کفر اور شیعیت و غیرہ و غیرہ کی تشہیر و تبلیغِ کا ذریعہ قرار دیکر ان کے استعمال کو حرام قرار دینا یا نوجوانوں کو ان سے ڈرانا بالکل اسی طرح کی تحقیق ہے جیسے ‘ہیلو’ سے ‘ہیل’، (جہنم) ‘مَوسک’ (مسجد) سے ‘مَسکیٹوز’ (مچھر)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مقدس ‘محمد’ کی انگریزی تخفیف کو جَرمن زبان میں کسی غلط معنی سے جوڑنا نیز انگریزی زبان میں ان شاء اللہ اور ما شاء اللہ کے املاء اگر کسی خاص طریقہ سے نہ ہو تو پھر ان کو کفر اور شرک کے ارتکاب تک کھینچ کر لے جانا جیسی بے تکی تحقیقات اور علم و دانش کے ساتھ ایک بد مزاق ہے۔
انٹرنیٹ کی دنیا میں اچھی اور بری دونوں معلومات موجود ہے۔ عقلمند لوگ اچھی چیزوں سے مستفید ہوتے ہیں اور بے وقوف بری چیزوں سے خود کو تباہ کر تے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں بہت کچھ پہلے ہی آچکا ہے اور بہت کچھ آنے والا ہے۔ آرٹیفشل انٹیلیجنس ایک نیا اور بہت بڑا انقلاب برپا کرنے والا ہے۔ ہر نئے ایجادات کی من و عن مثال عہد نبوی صل اللہ علیہ وسلم یا قرون اولی میں تلاش کرنا بے وقوفی کے علاوہ کچھ نہیں۔ اسلام میں اجماع امت اور راسخین فی العلم کا قیاس بھی کچھ ہے جن سے کام لیا جانا چاہیے۔
راقم 1997 سے کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور پھر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انگریزی زبان و ادب کی دنیا سے کل وقتی طور پر جڑا ہوا ہونے کی وجہ سے نیز مروجہ طریقہ پر دینی علوم سے فیضیاب ہونے کی برکت سے یہ بات وثوق کے ساتھ عرض کرتا ہے کہ ایموجیز، اسٹیکرس اور ہیلو و غیرہ کے تعلق سے مذکورہ باتیں عقل سلیم کے خلاف اور اسلامی لبادہ میں نام نہاد تحقیق ہے۔ علماء امت کو کم از کم اپنی ساکھ بچائے رکھنے کے لئے اس طرح کی غیر مناسب تبلیغ و تشہیر بازی سے گریز کرنا چاہئے اور زمانے کے مطابق مناسب اور معقول شرعی راہنمائی کرنی چاہئے۔
(مضمون نگار دارالعلوم دیوبند کے فاضل، انگریزی زبان کے مصنف اور مرکزالمعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر، ممبئی کے ڈائریکٹر ہیں)