مدارس سے یونیورسٹیزکا رخ کرنے والے طلبہ اور ان کے مسائل

خبر درخبر(503)
شمس تبریز قاسمی
مدارس اسلامیہ اور عصری جامعات کے درمیان تدریسی تعاون ایک حساس ،اہم اور قدیم موضوع ہے ،دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کے درمیان اسی زمانے میں یہ معاہدہ ہواتھاکہ یونیورسیٹی کے طلبہ دین سیکھنے دیوبند جائیں گے اور دیوبند کے طلبہ جدید علوم سیکھنے علی گڑھ جائیں گے لیکن یہ معادلہ یکطرفہ ہوگیا ،مدارس کے فضلاء کا یونیورسیٹیوں میں جانا لگا رہا اور دن بدن اس میں اضافہ ہورہاہے لیکن یونیورسیٹی سے مدرسہ آنے والوں کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے ۔
قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان کے اشتراک سے اسی موضوع پر بہار کی مشہور درس گاہ جامعۃ القاسم دارلعلوم الاسلامیہ سپول بہار میں شیخ الجامعہ مفتی محفوظ الرحمن عثمانی صاحب نے ایک سیمینار کاانعقاد کیاتھا ،سیمینار میں ملک کے کئی نامورعلماء ،دانشواران اور سیاست داں شریک تھے جن میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں شعبہ اسلامیات کے سربراہ جناب پروفیسر اقتدار احمد خان صاحب کا نام سر فہرست ہے ،ان کے علاوہ جامعہ کے شعبہ اردو کے صدر جناب وجہی الدین شہپر رسول صاحب بھی مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک تھے،سابق وزیر اور موجودہ رکن اسمبلی جناب نوشاد عالم بھی تشریف فرماتھے ،دانشوروں کی اس تقریب میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔ عنوان اور شخصیات کے حسین امتزاج کو دیکھتے ہوئے میں نے اپنی تقریر میں اس تعلق سے چند باتوں کا تذکرہ انتہائی ضروری سمجھااور جس موضوع پربولنے کی تیاری کرکے آیاتھا اسے بولنے کا موقع ہی نہیں ملا۔
پروفیسر اقتدار احمد خان صاحب نے اپنی تقریر میں علوم کی تفریق اور دینی ودنیوی کے خانے میں ہوئی تقسیم کی نفی کرتے ہوئے واضح طور پر کہاکہ تمام علوم قرآنی ہیں اور ایک مسلمان کیلئے جتنا دینی علوم سیکھنا ضروری ہے اتناہی اس کیلئے عصری علوم سے واقف ہونا بھی ضروری ہے ،اگر کسی شخص کو معاشیات کا علم نہیں ہوگا ،اقتصادی کی معلومات نہیں ہوگی تو وہ شخص حلال وحرام مال میں تفریق نہیں کر پائے گا اور پھر اس کا اثر اس کی عباد ت پر بھی پڑے گا،اس کے بعد پروفیسر اقتدار صاحب نے جامعہ ملیہ کی خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ یہاں زبان کو زیادہ اہمیت اورفوقیت حاصل نہیں ہے ،علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی سے الگ راہ اختیا ر کرکے جامعہ کا قیام ہی اس لئے عمل میں آیا تھا کہ یہاں انگریزی زبان لازمی نہیں ہوگی ، مدارس کے طلبہ کوعصری علوم سے جوڑنے کی مکمل کوشش کی جائے گی ،دارالعلوم دیوبند کے اولین شاگرد شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبند ی کا بستر علالت سے اٹھ کر بنیاد ڈالنے آنا اس بات کی عکاسی بھی کرتاہے کہ جامعہ کا مدارس سے بہت ہی گہرا اور قریبا رشتہ ہے ، پروفیسر شہپر رسول صاحب نے اپنی تقریر میں مدارس کے طلبہ کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ ان کی اردو بہت اچھی ہوتی ہے اور جو طلبہ اسکول سے اردو پڑھ کر تے ہیں مدارس کے طلبہ ان پر فائق ہوجاتے ہیں تاہم انہوں نے یہ مطالبہ کیا اگر مدارس کے نصاب میں اردو ادب کو شامل کرلیا جاتاہے تو ا س سے طلبہ میں مزید نکھار پید ا ہوگا ۔
ان دونوں حضرات کے بعد جب مجھے مائک پر بلایاگیا تو اپنی تقریر کا آغاز میں نے معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے کیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ علم کا سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے اوریہ حدیث لازمی حق تعلیم سب سے پہلا منشور ہے۔اس کے بعد پروفیسر اقتدار خان صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے میں نے کہاکہ آپ کے بقول جامعہ کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہاں زبان کوکوئی اہمیت حاصل نہیں ہے ،اس یونیورسیٹی کا مشن مادری زبان میں عصری علوم سکھانا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ انگریزی زبان کی شرط سب سے سخت ہے اور اس کی وجہ سے مدارس کے طلبہ کو بہت زیادہ پریشانیوں کا سامنا کرناپڑتاہے ،دارالعلوم دیوبند سمیت جن مدارس کی سند میں انگریزی زبان شامل نہیں ہے وہاں کے طلبہ کو پہلے بارہویں کا فارم بھر کر انگریزی کا امتحان دنیا پڑتاہے ،ا س امتحان میں پاس ہونے کے بعد ایسے ڈگری ہولڈر کو جامعہ میں ایڈمشن کا اہل قراردیا جاتاہے ،جبکہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسیٹی حیدرآباداور علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی میں زبان کی کوئی شرط نہیں ہے وہاں براہ راست طلبہ مدارس کو داخلہ لینے کا مجاز سمجھاجاتاہے میں نے یہ بھی کہاکہ اگر جامعہ کے نصاب تعلیم کے مطابق انگریزی زبان ضروری ہے تو اسے دارالعلوم دیوبند ،مرکز المعارف ممبئی اور اس طرز کے دیگر ادارے جہاں دوسالہ انگریزی ڈپلوما کورس کرائے جاتے ہیں اس کی سند کو معتبرمانتے ہوئے انہیں انگریزی میں کوالیفائدقراردیاجانا چاہیئے اور ڈپلوما کئے ہوئے طلبہ کو بارہویں کے انگریزی مضمون کے امتحان سے استثناء ملنا چاہیئے ،ملک کی اہم یونیورسیٹی جے این یو میں دارلعلوم دیوبند کے شعبہ انگریزی کی سند معتبر ہے اور اس کی بنیاد پر وہاں طلبہ کا داخلہ ہوتاہے۔اس تقریب میں میں نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسیٹی حیدر آباد میں دارالعلوم دیوبند اور دیگر مدارس کی سند کو گریجویشن کے مساوی قراردیاجاتاہے او رایسے سندیافتہ طلبہ ایم اے میں داخلہ لینے کے مجاز ہوتے ہیں لیکن جامعہ میں مدارس کی سند کو بارہویں کے مساوی ماناجاتاہے اور وہاں طلبہ گریجویشن میں ہی داخلہ لینے کے اہل ہوتے ہیں ،یہ طلبہ مدارس میں اچھا خاصا وقت لگاکر آتے ہیں اور پھر یہاں مزید تین سال گریجویشن میں انہیں لگانا ہوتاہے ،اس لئے میری گزارش ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اربا ب حل وعقد اس بارے میں غور وفکرکریں اور نظر ثانی کرکے اسلامیات ،عربک اور اردو کے شعبہ میں کم ازکم براہ راست ایم اے میں داخلہ کی اجازت ملنی چاہیئے ۔
میری تقریر کی یہ چند اہم باتیں تھیں جس پر پروفیسر اقتداراحمد خان صاحب نے نوٹس لیتے ہوئے دوبارہ ڈائس پر آنے کی زحمت کی اور صفائی پیش کرتے ہوئے کہاکہ جامعہ مرکزی حکومت کا ادارہ ہے جس میں بہت ساری چیزیں ہم اپنی مرضی کے مطابق نہیں کرپاتے ہیں ،دوسالہ ڈپلوماکی سرٹفیکٹ کو معتبر نہ ماجانا ایسی ہی مجبوریوں میں سے ایک ہے ،جہاں تک بات ہے کہ مدارس کی سند کو بارہویں کے مساوی قراردینے کی تو وہ اس لئے ہے کہ ہم مدارس کے طلبہ سے ہر گز یہ خواہش نہیں رکھتے ہیں کہ وہ یہاں آکر شعبہ اسلامیات میں داخلہ لیں ،شعبہ عربی اور اردو میں ایڈمیشن کرائیں کیوں کہ اس میں وہ بہت زیادہ ماہرہوتے ہیں اور یہ چیزیں مدارس سے بہتر کسی یونیورسیٹی میں نہیں پڑھائی جاسکتی ہے ،ہمارا مطالبہ ان سے یہ ہے کہ وہ یہاں آکر سائنس ،فزکس ،طب اور دیگر جدید علوم پڑھیں ،وہ ان علوم سے نابلد ہوتے ہیں ،اس لئے ہم گریجویشن میں ہی داخلہ کے حقدار سمجھتے ہیں ۔
جناب پروفیسر شہپر رسول صاحب کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے میں نے یہ بھی کہاکہ ارباب مدارس کو اردو ادب کی جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ،مدارس میں عربی ادب پر مکمل توجہ مرکوز ہوتی ہے ،عربی اول سے ششم تک عربی ادب کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں لیکن اردو ادب کے موضوع پر ایک بھی کتاب نہیں ہے ، سچائی تو یہ ہے کہ مدارس میں سرے سے اردو زبان ہی نہیں پڑھائی جاتی ہے ،اردو ادب کا معاملہ تو بہت دور ہے ،ارباب مدارس سے ہماری یہ درخواست ہے کہ وہ بھی اس معاملے میں نظر ثانی کریں اور اپنے نصاب میں اردو ادب کو شامل کریں۔
سیمینار کی اس گفتگو کا تذکرہ میں ٹرین میں بیٹھ کر قلم بند کررہاہوں محض اس لئے کہ ان دنوں ہمارے کچھ دوست سرٹیفیکٹ کے مسائل سے بہت زیادہ دوچار ہیں ،اس سلسلے میں وہ ایک میٹنگ بھی کرچکے ہیں اور مزید اس پر بحث ومباحثہ کا ارادہ رکھتے ہیں،ایسے ماحول میں ایک سیمینار کے دوران ہم نے جامعہ کی انتظامیہ تک اپنی بات پہونچانے کی کوشش کی،اپنے مسائل کا تذکرہ کیا اور سر دست ایک شعبہ کے سربراہ نے صفائی بھی پیش کردی ،مطلب یہ کہ جامعہ اپنے اصول پر اٹل ہے ،وہ کسی طرح کی تبدیلی کیلئے تیار نہیں ہے،اب آگے کیا کرنا ہے ،ان مسائل کے حل کیلئے کونسا طریقہ بہتر اور مناسب ہوگا ،ہمیں خودیہ لائحہ عمل طے کرناہے۔
اخیر میں جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ سپول بہار کے بانی ومہتمم مفتی محفوظ الرحمن عثمانی صاحب کو میں مبارکباد پیش کرنا ضروری سمجھتاہوں جنہوں نے سیمانچل جیسے علاقہ میں ایک عظیم الشان مدرسہ قائم کرکے جنگل میں منگل بنار رکھاہے ،یہ وہ علاقہ ہے جہاں کی جہالت ،تاریکی اور پسماندگی اکثر موضوع بحث بنتی ہے ،سیاست داں انتخابات میں اسے ایشوبناتے ہیں ،تعلیمی ادارے نہ ہونے کی بناپر یہاں کے چھوٹے چھوٹے بچے گجرات ،یوپی اور دوردراز کے علاقوں میں پڑھنے جانے پر مجبور ہوہے ہیں ،اس لئے یہ کہنا بجا ہوگا کہ جامعۃ القاسم نے اس علاقے سے جہالت کو دورکرنے اور مسلم بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے میں خصوصی کردار اداکیاہے ، اسلام کی آبیاری ،دینی علوم کے فروغ اور شعائر اسلام کے تحفظ کیلئے کی جانے والی اس عظیم کوشش کو جتنابھی سراہاجائے وہ کم ہے۔ اب انہوں نے اس علاقے کے طلبہ میں عصری جامعات میں پڑھنے کی دلچسپی بھی پیداکردی ہے ،وہ خود بھی ایک یونیورسیٹی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور جامعہ کے پروفیسر حضرات کو مدعوکر کے ،اس موضوع پر سیمینار منعقدکراکر بہت سے مدارس کے فضلاء کے دلوں میں انہوں نے اس کا شوق ولگن بھی پیداکردیاہے۔
عالی جناب مفتی محفوظ الرحمن عثمانی صاحب اور جامعۃ القاسم کے تمام اساتذہ ،طلبہ اور دیگر کارکنان کی خدمت میں ہم تہ دل سے ہدیہ تشکر پیش کرتے ہیں ،خوبصورت مہمان نواز ی ،قابل یادگار عزت افزائی اور بے انتہاء حوصلہ افزائی کیلئے ۔
شکریہ ۔شکریہ