مظفر پور : ( پریس ریلیز) وقف منقولہ اورغیر منقولہ جائیداد کو اپنی ملکیت سےنکال کر عام حالات میں اللہ کی ملکیت میں بندوں کے نفع کے لیے ڈال دینے کا نام ہے،اور اللہ کی ملکیت میں خرد برد کرنے کا حق نہ تو حکومت کو ہے نہ وقف کونسل اور نہ ریاستی بورڈکو، خود متولی بھی واقف کی منشاء کے خلاف اس چیز یا اس کی آمدنی کا استعمال نہیں کر سکتا، کیوںکہ متولی اللہ کی ملکیت کاامین ہے اور امانت میں خیانت کی اجازت کسی بھی درجے میں اسلام نہیں دیتا ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو امانت دار نہیں اس کے ایمان کا کوئی بھروسہ نہیں، اسلام کی یہ تعلیمات مذہبی و شرعی قوانین و ضوابط کا حصہ ہیں اور کسی کی طرف سے بھی اگر اس میں تبدیلی کی بات کی جاتی ہے تو یہ مداخلت فی الدین ہے اور دینی تقاضوں کی حفاظت ہمارے ایمان و یقین کا جز ہے، اس لیے مسلمان سب کچھ برداشت کر لیتا ہے دین میں مداخلت اور ناموس رسالت پر ہلکی سی آنچ بھی وہ گوارا نہیں کر سکتا ,ان خیالات کا اظہار معروف عالم دین اورآل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن تاسیسی، امارت شرعیہ کے نائب ناظم ،کاروان ادب اور اردو میڈیا فورم کے صدر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے اس نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کیا, انہوں نے کہا کہ سب سے پہلا وقف آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہم نے اسے تسلسل بخشا ،حدیث میں مذکور ہے کہ کوئی صحابی ایسے نہیں بچے جنہوں نے اللہ کے راستے میں اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق صدقہ (وقف)نہ کیا ہو ہندوستان میں جب اسلام آیا تو بادشاہوں، نوابوں، زمینداروں اور عام مسلمانوں نے کثرت سے اخروی زندگی میں کام آنے والے ثواب کی نیت سے مساجد، مدارس، خانقاہ، مزارات، مسافر خانے اور قبرستان کے لیے زمینیں وقف کیں، ان کا استعمال زبانی وقف کی حیثیت سے ہوتا رہا، وقف کرنے والوں نے اس کی ضرورت نہیں محسوس کی کہ اس کو رجسٹرڈ کیا جائے اور رجسٹر 2 میں اس کا اندراج وقف کی حیثیت سے کرایا جائے, چنانچہ اسی(٨٠ )فیصد اوقاف زبانی ہیں اور برسوں سے اس کا استعمال ان کاموں کے لیے ہو رہا ہے جس کے لیے واقف نے وقف کر دیا تھا، سرکاری سازش کے تحت بہت سارے قبرستان اور مساجد کی آراضی کو غیر مزروعہ عام بنام ریاستی سرکار کر دیا گیا ،ان میں سے کئی قبرستان کو کبیر استھان اور گورستان کو گؤ استھان لکھ دیا گیا اور قانونی طور پر اس کی وقف کی حیثیت کو ختم کر دیا گیا، اب جب چاہے ریاستی حکومت ان زمینوں کو اپنی ملکیت قرار دے کر دوسرے کاموں مثلاً وزیراعظم رہائشی اسکیم کے لیے مکانات کی تعمیر کے لیے استعمال کر سکتی ہے، کارپوریٹ گھرانوں کو دے سکتی ہے اور واقف کی منشاء کی رعایت کیے بغیر اس وقف کو خرد برد کر سکتی ہے۔
مفتی صاحب نے فرمایا کہ ہر دور میں اوقاف کے تحفظ کی کوشش کی جاتی رہی ہے، دستوری اور آئینی طور پر تحفظ کے لیے تحریکیں بھی چلتی رہی ہیں چنانچہ تحفظ اوقاف کے لیے انگریز دور میں پہلا قانون 1923ء میں بنا وقتاً فوقتاً ترمیمات ہوتی رہیں، آزاد ہندوستان میں وقف ایکٹ 1953 میں بنا، 1959، 1969, 1984 اور 1985ء میں ترمیمات کی گئیں ، اور ابھی جو ایکٹ مستعمل ہے وہ 1995 کا بنا ہوا ہے, 2013 کی چند ترمیمات بھی اس میں شامل ہیں، موجودہ حکومت نے 1995ء کے ایکٹ میں چوالیس ترمیمات کے لیے بل پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے کہنے کے لیے یہ چوالیس ہیں لیکن اصلا یہ ایک سو سنتاون ترمیمات ہیں جس نے 1995ء ایکٹ کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے ،پہلے یہ ایکٹ تحفظ اوقاف کے لیے تھا اور ترمیم کے بعد اوقاف کی جائیداد کو خرد برد کرنا اور سرکاری تصرفات کے دروازے کو کھول کر رکھ دے گا، ان ترمیمات کے نتیجے میں اوقاف کمیٹی میں غیر مسلموں کا عمل دخل بڑھے گا، زبانی اور استعمال کی وجہ سے وقف کی حیثیت ختم ہو جائے گی اور فیصلے کا اختیار کلکٹر کو ہوگا ،جس کی حیثیت یک گونہ مدعی کی ہوگی اور جب مدعی ہی منصف ہو جائے تو فیصلہ کیا اور کیسا ہو گا ہر ادمی سمجھ سکتا ہے، متولی اور وقف بورڈ کی حیثیت صرف ربطی ادارے کی رہ جائے گی ،اس کا سارا کام کلکٹر صاحب تک کاغذات پہنچا دینے میں محدود ہو جائے گا، جن زمینوں کے کاغذات نہیں ہوں گے ان کی حیثیت وقف کی تسلیم نہیں کی جائے گی اور ان پر بنی عمارتوں کو بلڈوز کر دیا جا سکے گا ۔
حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ معاملہ بڑا نازک اور خطرناک ہے ابھی یہ بل جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کے پاس زیر غور ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کے لیے ایک لنک جاری کیا ہے جس کی مدد سے آسانی سے آپ اپنی رائے جوائنٹ پارلیمنٹ کمیٹی کو بھیج سکتے ہیں، 13 ستمبر تک اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کی رائے کمیٹی کو پہنچ جائے اس طرف فوراً توجہ کی ضرورت ہے، اس کے بعد ضرورت ہے کہ جن اوقاف کی آراضی کا اندراج ریاستی حکومت کے نام سے ہوگیاہے اس کے ٹائٹل بدلنے کے لیے کاروائی کی جائے تاکہ وہ ریاستی سرکار کے قبضے سے نکل کر اوقاف کی جائیداد کی حیثیت سے اس کا اندراج ممکن ہو سکے، اس کام کو کسی بھی طرح کرایا جائے، یہ دوسرا بڑا کام ہے، جس کے لیے مسلمانوں کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ارکان امارت شرعیہ کے خدام اس کی مہم چلا رہے ہیں اور آپ سب کا ساتھ ہی اس مہم کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے۔
مفتی صاحب نے اس نمائندے کو بتایا کہ ایک دوسرا بڑا مسئلہ تحفظ مدارس کا ہے آسام میں مدارس کو اسکول بنادینے کی بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے، اتر پردیش میں نئی تعلیمی پالیسی کے تحت مدارس کے طلبہ کو اسکول میں داخل کرانے کا حکم آگیا ہے بہار کی ڈبل انجن کی سرکار بھی اس طرح متوجہ ہو سکتی ہے جس کا سلسلہ بیان بازی کی حد تک چل رہا ہے ان حالات میں امارت شرعیہ نے 15/ ستمبر کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی تجویز کی روشنی میں وقف کانفرنس بابو سبھا گار نزدگاندھی میدان پٹنہ میں رکھا ہے، تحفظ مدارس کے لیے بھی ایک کنونشن اسی دن بعد نماز مغرب المعھدالعالی ہال امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں منعقد ہوگا آپ حضرات کو اس تاریخی مہم کا حصہ بننا چاہیے، یہ وقت کی ضرورت ہے اور مذہبی تقاضہ بھی۔