ہندوستان میں یونیفارم سول کوڈ کا مجوزہ نقشہ شریعت اور قانون فطرت کے آئینہ میں! (۴)

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

(۱۱) اتراکھنڈ کے اس قانون میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ’’نکاح ختم ہونے کے باوجود اُن دونوں سے پیدا ہونے والا بچہ حلال سمجھا جائے گا، اور سابق شوہر سے اس بچے کا نسب ثابت ہوگا‘‘——– یہ بالکل غیر منطقی بات ہے، شریعت کی نظر میں نکاح ختم ہونے کے بعد ازدواجی تعلق قائم کرنا بدکاری اور حرام عمل ہے، اس کے نتیجہ میں پیدا شدہ بچہ کا نسب مرد سے ثابت نہیں ہوگا اور نہ یہ بچہ حلال سمجھا جائے گا (دیکھئے: بدائع الصنائع، کتاب الدعویٰ، المغنی لابن قدامہ، کتاب الفرائض، باب ذوی الارحام ) نکاح کے بغیر جو بچہ پیدا ہو، اس کو حلال بچہ قرار دینا مصلحت کے بھی خلاف ہے؛ کیوں کہ اس سے رشتہ نکاح کی اہمیت ختم ہو جائے گی، اور ہمارا ملک جو مذہبی اور اخلاقی اقدار پر قائم ہے، وہاں بھی مغربی ملکوں کی طرح شہوت پرستی کا ماحول بن جائے گا، اور بِن باپ کے بچوں کی کثرت ہونے لگے گی، بھارت میں ہندو، مسلمان، عیسائی، سکھ، بدھسٹ اور جو دوسرے مذہبی گروہ رہتے ہیں ، ان سب کے درمیان یہ تسلیم شدہ اور مشترکہ تصور ہے کہ مرد وعورت کا وہی تعلق جائز ہے، جو نکاح پر قائم ہو، اگر بغیر نکاح کے پیدا ہونے والے بچوں کو بھی حلال سمجھا جائے تو پھر نکاح کا تصور بے معنیٰ ہو جائے گا۔

(۱۲) یہ قانون کہتا ہے کہ’’ عدالت مقدمہ کے دوران یا بعد میں شوہر یا بیوی دونوں کو مستقل نان ونفقہ کا حکم دے سکتی ہے‘‘——- اسلام کے قانون نکاح کے مطابق شوہر پر بیوی کا نفقہ لازم ہے، بیوی کے ذمہ شوہر کا نفقہ لازم نہیں ہے؛ اس لئے بیوی پر نان ونفقہ کی ذمہ داری ڈالنا اسلامی شریعت کے خلاف اور عورت پر ظلم ہے؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عورتوں کا نفقہ ان کے شوہروں پر واجب ہے (مسلم عن جابر بن عبداللہ ، حدیث نمبر: ۱۲۱۸، باب حجۃ النبی) خود قرآن مجید میں بھی اس کی صراحت ہے، (طلاق:۷) اور فقہاء اسلام کا اس پر اتفاق ہے (المغنی لابن قدامہ، باب النفقات، مسالۃ: علی الزوج نفقۃ زوجتہ) یہی عقل ومصلحت اور مردو عورت کی صلاحیت کا تقاضہ ہے؛ کیوں کہ مردوں میں کمانے اور محنت ومزدوری کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھی گئی ہے، عورتیں جسمانی طور پر کمزور بھی ہوتی ہیں، حفاظت کی محتاج بھی ہو تی ہیں، اور دور دراز کسب معاش کی مشغولیت اختیار نہیں کر سکتی ہیں؛ اس لئے بیوی پر شوہر کے نفقہ کی ذمہ داری عائد کرنا اس پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری کا بوجھ رکھنا ہے۔

(۱۳) بغیر نکاح کے باہمی رضامندی سے مردوعورت کا باہمی تعلق جس کو لِیو اِن ریلیشن شپ کہا جاتا ہے، کو درست قرار دیتے ہوئے یونیفارم سول کوڈ اتراکھنڈ کہتا ہے کہ’’ اگر اس طریقۂ زندگی میں پارٹنر نے معلق کر دیا ہو، تو عورت نفقہ کا دعویٰ کر سکتی ہے‘‘——— شریعت کے مطابق لِیو اِن ریلیشن شپ جائز رشتہ نہیں ہے، اور نفقہ جائز بیوی کا واجب ہوتا ہے نہ کہ حرام کار عورت کا؛ اس لئے نکاح کے بغیر قائم ہونے والے تعلق کی وجہ سے نفقہ کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہوگا، قرآن وحدیث میں بیوی کا نفقہ شوہر پر واجب کیا گیا ہے نہ کہ زانیہ کا زانی پر؛ اس لئے فقہاء نے صراحت کی ہے کہ نکاح ِصحیح کی بنیاد پر ہی بیوی کا شوہر پر نفقہ واجب ہوگا: فتجب للزوجۃ بنکاح صحیح علی زوجھا (درمختار مع الرد باب النفقہ:۳؍۵۷۲)

 یہی تقاضۂ انصاف ہے؛ کیوں کہ نکاح کے بغیر ایک مرد وعورت کا شوہر وبیوی کی طرح زندگی گزارنا نہ کسی مذہب میں جائز ہے اور نہ کسی مہذب سوسائٹی نے اس کو قبول کیا ہے؛ اس لئے اگر صرف ساتھ رہنے کی وجہ سے نفقہ کا مطالبہ کرنے کی اجازت ہو تب تو دو دوستوں کو بھی ایک دوسرے سے نفقہ لینے کی اجازت ہونی چاہئے؛ اس لئے یہ بات اخلاقی اقدار ،ہندوستان کی سماجی روایت اور نفقہ واجب ہونے کے اصول کے بر خلاف ہے۔

(۱۴) اس قانون کے لحاظ سے’’ چچازاد بہن، پھوپھی زاد بہن، خالہ زاد بہن، ماموں زاد بہن، چچا کا لڑکا، پھوپھی کا لڑکا، خالہ کا لڑکا، ماموں کا لڑکا محرم رشتہ دار ہیں ‘‘—— شریعت میں مردو عورت کے لئے جن محرم رشتہ داروں کی تفصیل بیان کی گئی ہے، ان میں چچا زاد، خالہ زاد، پھوپھی زاد اور ماموں زاد بھائی بہن شامل نہیں ہیں؛ اس لئے یہ رشتے غیر محرم میں شامل ہیں، ان کو محارم میں داخل کرنا قانون شریعت میں بے جا مداخلت ہے، قرآن مجید میں سورۂ نساء میں تفصیل سے ان خواتین کا ذکر کیا گیا ہے، جو محرم ہیں (نساء: ۲۳) اور پردہ کے احکام کے ذیل میں ان رشتوں کا بھی ذکر آیا ہے، جو محرم ہیں (النور:۳۱)، ان کی رو سے یہ رشتے محارم میں شامل نہیں ہیں۔

  غور کیا جائے تو محرم اور غیر محرم کا تعلق انسان کے یقین سے ہے، آدمی جس رشتہ کو حرام تصور کرتا ہے، وہ اس کی طبیعت کے لئے ناقابل قبول ہوتا ہے، اور جس رشتہ کے حرام ہونے کا اسے یقین ہی نہ ہو، اس میں انسان کے اندر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی، ہندو سماج میں چوں کہ محرم کا یہی قانون ہے؛ اس لئے ان کے یہاں یہ قابل قبول ہے؛ لیکن ہندو میریج ایکٹ کے ان قوانین کو دوسری قوموں پر نافذ کرنا کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے، چچا زاد، خالہ زاد، پھوپھی زاد اور ماموں زاد رشتوں کے حلال ہونے میں سماجی سہولت کا بھی پہلو ہے، یہ ایک دوسرے کو بچپن سے دیکھے ہوئے ہوتے ہیں، ان کے عادات واخلاق سے واقف ہوتے ہیں، اس واقفیت کے ساتھ جو رشتہ ہوتا ہے، وہ پائیدار ہوتا ہے، دوسرے :چوں کہ لڑکے اور لڑکی کے خاندانی بزرگ مشترک ہوتے ہیں، تو اگر کسی مرحلہ میں دونوں میں اختلاف پیدا ہوگیا تو خاندان کے بزرگ اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے اس نا ہمواری کو دور کر دیتے ہیں، اجنبی خاندانوں کے رشتوں میں یہ بات نہیں ہو پاتی۔

  اس کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ ان رشتہ داریوں میں نکاح کے جائز ہونے کی وجہ سے لوگ خاندان میں ایک دوسرے کا مسئلہ حل کرتے ہیں، ایک شخص دیکھتا ہے کہ میری بہن کی بیٹی کا رشتہ نہیں ہو پارہا ہے، وہ اپنی بہن کی سہولت کے لئے اپنے بیٹے کی پیشکش کر دیتا ہے، یہی صورت چچا زاد اور ماموں زاد میں پیش آتی ہے، ہندوستان جیسے ملک میں جہاں آج لوگ لڑکیوں کے رشتہ کے لئے پریشان رہتے ہیں، شادی میں غیر معمولی تاخیر ہوتی ہے، اور بعض دفعہ اس صدمہ میں بوڑھے ماں باپ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، شریعت کا یہ قانون بڑا سہارا بنتا ہے، اور میڈیکل اعتبار سے بھی اِن رشتوں میں کوئی حرج نہیں محسوس کیا جاتا، اور پیدا ہونے والے بچے کسی جینیاتی مرض کا شکار نہیں ہوتے، اس کے بر خلاف ہندو مذہب میں گوتر کا جو تصور ہے، وہ بہت حرج اور دشواری کا سبب ہے۔

(۱۵) اس قانون میں اِن رشتہ داروں کو ترکہ میں وارث قرار دیا گیا ہے: ’’بیٹا، بیٹی، بیوی، باپ اور ماں، پوتا، پوتی، نواسا نواسی، بہو، پڑپوتا، پڑپوتی مرحوم بیٹے کے بیٹے کی بیوی، مرحوم نواسی کا بیٹا، مرحوم بیٹے کی بیٹی کا بیٹا، مرحوم بیٹی کے بیٹے کا بیٹا، مرحوم بیٹی کی بیٹی کی بیٹی، مرحوم بیٹے کی بیٹی کی بیٹی، مرحوم بہن کے بیٹے کی بیٹی، بھتیجا، بھانجا، بھتیجی، بھانجی، دادا، دادی، سوتیلی ماں، بھائی کی بیوی، چچا، بیوی، نانا، نانی، ماموں ، خالہ‘‘ ۔

 وارثین کی جو فہرست بیان کی گی ہے، اس میں شرعی نقطۂ نظر سے صرف بیٹا، بیٹی، باپ اور ماں ہر حالت میں وارث بنتے ہیں، اس کے علاوہ بعض افراد بعض صورتوں میں وارث بنتے ہیں، جیسے: پوتا، پوتی، پڑپوتا، پڑپوتی، بھتیجا، بھانجا، بھتیجی، بھانجی، داد، دادی، چچا، نانا، نانی، نواسا، نواسی، اور بقیہ افراد کسی بھی حالت میں وارث نہیں بنتے، میراث کے یہ احکام قرآن مجید میں تفصیل ووضاحت کے ساتھ بیان فرما دئیے گئے ہیں، (النساء: ۱۱) اور اسی لئے ان احکام پر فقہاء قریب قریب متفق ہیں (سراجی، باب الحجب: ۷)

 اسلام کا قانون وراثت اس اصول پر مبنی ہے کہ جو قریب ترین رشتہ دار ہے، وہ نسبتہََ دور کے رشتہ دار کو میراث کے حق سے محروم کر دے گا، جیسے: اولاد موجود ہو تو اولاد کی اولاد کو میراث میں حق نہیں ملے گا، باپ ماں موجود ہوں تو والدین کے والدین کو میراث میں حق نہیں ملے گا، اور جو دور کے رشتہ دار ہیں، وہ میراث میں حقدار نہیں ہوں گے؛ کیوں کہ اگر تمام رشتہ دار وراثت میں حقدار مانے جائیں تو میراث کا حصہ اتنا کم ہو جائے گا کہ حقدار کو اس کا کما حقہ فائدہ نہیں پہنچے گا۔

 غرض کہ یونیفارم سول کوڈ جس انداز پر اتراکھنڈ میں مرتب اور منظور کیا گیا ہے، وہ کچھ تو ہندو رسم ورواج پر مبنی ہے، اور بعض جگہ مسلم مذہبی اقدار سے آزاد ہے، شرعی نقطۂ نظر سے یہ قطعاََ درست نہیں ہے، مرکزی حکومت کی طرف سے یونیفارم سول کوڈ کا جو نعرہ لگایا جا رہا ہے، اِس قانون کے اندر اس کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے، جو کسی بھی طرح مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔

۰ ۰ ۰

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com