مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ
اللہ رب العزت نے ہمیں ایک ایسی زمین دی تھی جو ہر اعتبار سے معتدل، پر سکون اور امن وشانتی سے بھری ہوئی تھی، زندگی کی بقا اور حیات کو خوبصورت بنانے کے لیے بھی سب کچھ یہاں موجود تھا، محبت اور پیار کا اتنا عظیم بھنڈار اس دنیا کو اللہ نے دیا تھا کہ لوگ اس کا استعمال کرکے اس زمین کو جنت نشاں بنا سکتے تھے، لیکن حضرت آدم علیہ السلام کے لڑکا ہابیل نے قابیل کو قتل کر دیا، اس طرح قتل وغارت گری فتنہ وفساد، حق وباطل کی ایسی معرکہ آرائی شروع ہو گئی کہ اس کو روکنا ممکن نہیں ہو سکا، فتنہ وفسادکیا ہے اور حق وباطل کیا، اس کا فیصلہ دو لڑنے والے تو کر نہیں سکتے تھے، اس لیے قرآن کریم اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں اس سلسلے میں واضح ہدایات دی گئیں، اللہ رب العزت نے اعلان کیا کہ وہ زمین پر فساد کو پسند نہیں کرتے، دوسری طرف فسادیوں نے اپنی حرکات وسکنات، تحریک واحتجاج اور قتل و غارت گری کو اصلاح کا نام دیا، جب ان سے کہا جاتا کہ فساد نہ کرو تو وہ کہتے کہ ہم لوگ تو مصلحین ہیں، اللہ رب العزت نے ان کے اس خیال کی تردید کی اور بر ملا اعلان کیا کہ وہی لوگ فسادی ہیں۔
انبیاء کرام ہر دور میں زمین کو فتنہ و فساد سے پاک کرنے کے لیے آتے رہے، جد وجہد جاری رہی، کوششیں ہوتی رہیں، لیکن مفسدین اپنی حرکت سے باز نہیں آئے، آخر میں زمین سے فساد کرنے والوں کو اکھاڑ پھینکنے کا کام اس امت کے سپرد ہوا، اسلام نے فساد کے اسباب پر کاری ضرب لگائی، اس نے دنیا کو امن، شانتی، مساوات، آزادی کا پیغام دیا، اس آزادی کے نتیجے میں مخلوق کا رشتہ خالق سے مضبوط ہوا، اس مضبوطی نے انسان کو اللہ کے بنائے ہوئے طریقے پر چلنے کا پابند کیا، عدل وانصاف کے لیے آواز لگائی اور اپنے خلاف بھی بات جاتی ہو تب بھی حق وانصاف کا دامن پکڑے رہنے پر زور دیا، اس نے کھل کر اعلان کیا کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں بے انصافی پر آمادہ نہ کرے، اسی طرح عزیز واقرباء، امراء وغربا کی منھ دیکھی بھی نہ کیا کرو، انصاف کے حصول کے لیے اپنے والدین اور اعزواقربا کے خلاف بھی کھڑا ہونا ہو تو ہوا جائے، اس انصاف نے دنیا کو بد امنی سے پاک کرنے میں نمایاں رول ادا کیا اور ایک مدت تک دنیا امن و آشتی کا گہوارہ بنی رہی، پھر دھیرے دھیرے لوگوں نے بد امنی اور تشدد کو اپنا نا شروع کیا اور امن کے نام پر بد امنی اور تشدد کا بازار گرم ہوا، ایسے لوگوں میں ہٹلر، جوزف اسٹالن، ماؤزے تنگ، مسولینی، جارج بش نیتن یاہو وغیرہ کا نام خاص طور سے لیا جاتا ہے، ان حضرات نے امن پیدا کرنے کے نام پر جو بد امنی پھیلائی وہ تاریخ کا بد ترین اور تاریک تر ین باب ہے، ان حضرات کی بد امنی اور تشدد کی وجہ سے دو بڑی عالمی جنگیں ہوئیں، پہلی جنگ عظیم میں 17 ملین لوگ موت کی نیند سلائے گیے، جب کہ دوسری جنگ عظیم میں ایک اندازہ کے مطابق 55 ملین لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا، ناگا ساکی پر ایٹمی حملہ نے دو لاکھ لوگوں کو موت کی نیند سلایا جبکہ ویت نام اور بوسنیا کی جنگ میں پچاس پچاس لاکھ لوگ کام آئے، عراقی جنگ میں ایک کڑوڑ بیس لاکھ اور کمبوڈیا میں تین لاکھ لوگوں کو قربان کر دیا گیا، ان بد نام زمانہ لوگوں کے انفرادی نامہ اعمال کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ جوزف اسٹالن کے حکم سے بیس ملین (ایک ملین دس لاکھ کا ہوتا ہے) ماؤزے تنگ کے حکم سے بیس ملین، مسولینی کے حکم سے چار لاکھ، جارج بش کی تجارتی پابندیوں کے نتیجے میں صرف عراق میں پانچ لاکھ لوگ مرے،ایک سال سے جاری حماس اسرائیل جنگ میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ دنیا چھوڑ گیے،عرب بہاریہ کے نام سے تیونس سے مسلم حکمرانوں کو بے دخل اور کمزور کرنے کی جو کارروائی شروع ہوئی، اس نے تیونس لیبیا، عراق، شام سب کوکمزور کرکے رکھ دیا، حلب کی تباہی نے ہٹلر، مسولینی ہلاکو اور تاتاریوں کی تاریخ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، حلب ختم ہو گیا، بچوں اور عورتوں کی چیخیں بھی عرب لیگ اور عرب دنیا کو اس کی مدد پر آمادہ نہیں کر سکیں، روس اور امریکہ کاموقف بھی اس معاملہ میں ایک ہی رہا، ایران حلب کو شیعوں کی نو آبادی بنانے کے لیے سنیوں کو تہہ تیغ کرنے میں معاون بنا رہا، پاسداران انقلاب نے بشار الاسد کی حکومت کو بچانے کے لیے ایسی خون کی ہولی کھیلی کہ انقلاب اور پاسداران دونوں لفظ کی معنویت کھو گئی، قتل وخون کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور عالمی برادری کا ضمیر سویا نہیں، مردہ ہو گیا ہے، ان پر مظلوموں کی چیخ وپکار کا کوئی اثر نہیں،فلسطین کے مظلوموں کے قتل پر سب کی آواز گلے میں گھٹ کر رہ گئی، نہ جانے تباہی وبربادی کا یہ طوفان کب تھمے گا؟ جب تھمے گا تو شاید بہت دیر ہو چکی ہوگی۔ اور ہمارا یہ کہنا بھی بیکار ہوگا۔ ”پچھتاؤگے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کے۔
ان حالات میں جب ہر طرف بد امنی پھیلی ہوئی ہے، اور سب کچھ امن کے نام پر کیا جا رہا ہے، بد امنی کو ختم کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ محبت وخیر خواہی کے جذبے کو فروغ دیا جائے، بقاء باہم کے اصول کو رواج دیا جائے؛ اس لیے کہ اقوام متحدہ بھی کچھ ملکوں کی کٹھ پتلی کے طور پر کام کر رہا ہے، جو پوری دنیا میں جھگڑوں اور بربادی پرروک لگانے کے لیے وجود پذیر ہوا تھا، اس کے اثرات ختم ہو گیے ہیں، اور وہ اپنا مضبوط کردار امن کے لیے نہیں پیش کر رہا ہے، یا پیش کرنا نہیں چاہتا ہے، اگروہ اپنا کردار صحیح سے ادا کرتا اور بڑی طاقتوں کی کٹھ پتلی نہیں بنتا تو فلسطین،، شام، یمن، لبنان وغیرہ میں جاری جھگڑے کب کے ختم ہو گیے تھے۔
آج پوری دنیا میں تشدد اور بد امنی کے لیے مذہب کو بدنام کیا جاتا ہے، کوئی تشدد کی بنیاد اقتصادی نا ہمواری کو قرار دیتا ہے اور کوئی بد امنی کا سبب سیاست اور اقتدار کی خواہش کوسمجھتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ بد امنی بے انصافی، اقتصادی نا ہمواری اور اقتدار کی بے جا خواہش کی وجہ سے روئے زمین فساد کی آماجگاہ بن گیا ہے، مذہب کی غلط تشریح اور اس کی تعلیمات کی ان دیکھی بھی روئے زمین میں فساد کا بڑا ذریعہ ہے۔
امن کی تلاش اور اس کا حصول ساری دنیا کا مشترکہ مسئلہ ہے، بد امنی کے اثرات انسان ہی پر نہیں دریا، پہاڑ، حیوانات و نباتات اور جمادات تک پر پڑ تے ہیں، اس لیے بد امنی کا مرکز جہاں کہیں بھی ہو اور اس کی قیادت کوئی بھی کر رہا ہو، یہ پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے، جس طرح ٹھہرے ہوئے پانی میں پھینکا جانے والا ایک پتھر پورے تالاب میں حرکت اور تلاطم کا سبب ہوتا ہے، ویسے ہی ملک اور بیرون ملک بد امنی کا کوئی پتھر پوری دنیا میں مد وجزرپیدا کر دیتا ہے، پوری دنیا پر اس کے مادی، نفسیاتی، جذباتی، معاشی اور معاشرتی اثرات پڑتے ہیں، ترقیاتی منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں،پیدا وار رک جاتی ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بد امنی کو دور کیا جائے، امن کے فارمولے بروئے کار لائے جائیں اور مصلحین کے لبادے میں موجود مفسدین کو سامنے لایا جائے؛ تاکہ دنیا کے سامنے ان کا حقیقی چہرہ آئے اور قرآن کریم کی زبان میں ہم کہہ سکیں کہ یہی لوگ مفسدین ہیں، لیکن سمجھتے نہیں۔ اَلا اِنَّھُمْ ھمُ ُالْمُفْسِدُوْنَ وَلٰکِنَّ لاَ یَشْعَرُوْن