نئی دہلی: آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (AIUDF) کے قومی صدر، جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے صدر و سابق رکن پارلیمنٹ اور معروف عالم دین مولانا بدرالدین اجمل نے سنبھل میں مسجد کے سروے کے نام پر پولس کے ذریعہ مسلمانوں پر کئے جانے والی ظلم و تشدد کی شدید مذمت کر تے ہوئے یوگی حکومت کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یوگی حکومت مبینہ طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے جس کے لئے طرح طرح کے بھانے تلاش کر تی ہے۔ سنبھل کا واقعہ اس کی بالکل واضح مثال ہے جہاں جمہوری طور پر احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر گولی چلا کر انہیں ہلاک کر دیا جاتا ہے۔
مولانا بدرالدین اجمل نے کہا کہ عجیب بات ہے کہ ایک مقامی عدالت فوری طور پر ایک تاریخی جامع مسجد کے سروے کا حکم دیتی ہے، اور انتظامیہ فوراً اس پر عمل درآمد کر دیتی ہے۔بھر حال سروے ٹيم پہنچتی ہے اور پر امن طریقہ سے سروے مکمل ہو جاتا ہے مگر ڈی ایم صاحب کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی ہے چنانچہ دوبارہ سروے کرنے کے لیے ٹیم کو بھیج دیتے ہیں ،اور ساتھ میں فرقہ پرستوں کی ٹیم بھی جاتی ہے جو متنازع نعرے بازی کرتی ہے اور مسلمانوں کو بھڑکانے کی کوشش کرتی ہے اور مسجد کے حوض کو کھودنے کی افواہ پھیلاتی ہے جس کے نتیجے میں مسلمان تشویش میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور جمہوری طور پر احتجاج کرنے لگتے ہیں،اس کے بعد لوگوں کے جذبات کو نظرانداز کرتے ہوئے ان پر لاٹھی چارج کیا جاتا ہے اور سینے پر گولی ماری جاتی ہے، جس کے نتیجے میں پانچ بے گناہ نوجوان شہید ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی شرمناک اور غیر انسانی فعل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس گناہ میں پولیس اور انتظامیہ کے افسران براہ راست ملوث ہيں، جنہیں حکومت کی پورے طور پر سرپرستی حاصل ہے،ورنہ کیا وجہ ہے کہ جب جب مسلمان اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے کسی ظلم کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو ان پر گولی چلا دی جاتی ہے جبکہ دوسرے فرقے کے لوگ اگر احتجاج کرتے ہیں تو ان کے ساتھ پولیس کا رویہ بالکل مختلف ہوتا ہے، اس کا صاف مطلب ہے کہ حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے اوپر ظلم کرنے کی پولیس کو پوری آزادی ملی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں سنبھل جیسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔
مولانا اجمل نے کہا کہ یہ واقعہ اس بات کا غماز ہے کہ یوگی حکومت اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کر رہی ہے اور مسلمانوں کے حقوق کو پامال کرنے میں مصروف ہے۔
مولانا نے کہا کہ جب پارلیمنٹ سے پاس شدہ قانون کے مطابق تمام مساجد اور عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرنا سرکار کی ذمہ داری ہے،نیز آزادی کے بعد جس عبادت گاہ کی جو حیثیت تھی اسے اسی حالت پر برقرار رکھے جانے کی وضاحت کے باوجود کیوں مقامی عدالتیں مسجدوں کے متعلق اس طریقے کے فیصلے صادر کر رہي ہیں جو تنازع پیدا کر رہے ہیں؟یہ ایک انتہائی تشویش ناک معاملہ بنتا جا رہا ہے اس لیے سپریم کورٹ کو اس سلسلے میں واضح ہدایت جاری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مقامی عدالتیں اس طریقے کے متنازع فیصلے نہ دیں۔
مولانا نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ سنبھل میں مسلم نوجوانوں کے قتل میں ملوث پولیس افسران کے خلاف سخت کاروائی کرے تاکہ کوئی پولیس افسر کسی بے گناہ کو قتل کرنے کی جسارت نہ کر سکے، نیز ان فرقہ پرستوں کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہیے جو سروے ٹیم کے ساتھ وہاں جا کر بھڑکاؤ نعرے بازی کر رہے تھے۔ انھوں نے متاثرین کے لیے مناسب معاوضہ، مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ اور وہاں امن و امان کي فوری بحالی کے لیے اقدامات کا پر زور مطالبہ کیا ہے۔