ان دنوں ہندوستان کی کئی مساجد اور درگاہوں سے متعلق تنازعات چل رہے ہیں۔ کچھ دنوں قبل سنبھل جامع مسجد کے سروے میں جو تنازعہ کھڑا ہوا تھا وہ ختم بھی نہیں ہوا کہ اجمیر درگاہ کا معاملہ سامنے آگیا۔ ان دونوں حالیہ تنازعات سے ابھی لوگ باہر بھی نہیں نکلے ہیں، اور اب مزید ایک تنازعہ کی خبر کرناٹک سے آئی ہے۔ ریاست کرناٹک کے بیدر ضلع میں واقع ‘پیر پاشا بنگلہ درگاہ’ کے حوالے سے بی جے پی رکن اسمبلی بسن گوڑا نے کہا ہے کہ ”ہماری تحریک تب تک ختم نہیں ہوگی جب تک ‘انوبھو منڈپم’ پھر سے اپنی جگہ پر کھڑا نہیں ہو جاتا۔” رکن اسمبلی کا دعویٰ ہے کہ جہاں پر درگاہ ہے وہاں پر اصل میں ‘انوبھو منڈپم’ تھا۔ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نئے پارلیمنٹ ہاؤس کی افتتاح کے وقت ‘انوبھو منڈپم’ کے بارے میں انھوں نے بات کی تھی۔ مودی نے اسے دنیا کا سب سے پہلا پارلیمنٹ قرار دیا تھا۔
‘انوبھو منڈپم’ کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر 12ویں صدی میں بھگوان بسویشور نے کی تھی۔ بھگوان بسویشور وہاں پر وزیر اعظم کے طور پر کام کرتے تھے۔ وہیں ایک عظیم یوگی صدر ہوا کرتے تھے جن کا نام پربھو دیوا تھا۔ منڈپم کے لیے سب لوگ برابر تھے، جنس یا پیشہ کی بنیاد پر کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا تھا۔ مرد و خواتین کو بھی بلا امتیاز یکساں حقوق دیے جاتے تھے۔
قابل ذکر ہے کہ 2021 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ بی ایس یدی یورپا نے 500 کروڑ روپے کی لاگت سے جدید ‘انوبھو منڈپم’ کی بنیاد رکھی تھی۔ 7.5 ایکڑ زمین پر 6 منزلہ نئے ‘انوبھو منڈپم’ کی تعمیر ہو رہی ہے۔ اس پروجیکٹ میں الٹرا ماڈرن ٹیکنالوجی کا استعمال ہوگا۔ اس میں روبوٹ سسٹم، اوپین ایئر تھیٹر، پانی کے تحفظ کا جدید نظام، لائبریری، تحقیقی مرکز، پرارتھنا ہال اور یوگا سینٹر بنانے کی بھی تیاری کی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود پیر پاشا بنگلہ درگاہ کو لے کر بسن گوڑا کا بیان مسلم منافرت پھیلانے والا ہے۔ اس درگاہ کے خلاف پہلے بھی ہندوتوا لیڈران آواز اٹھا چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ درگاہ کی جگہ ‘انوبھو منڈپم’ ہونا چاہیے۔