جامع مسجد سنبھل، حقیقت اور کہانی

مولانا عبدالحمید نعمانی 

ہندوتو وادی سماج اور ہندو سماج میں فرق کر کے مختلف معاملات و مسائل پر بات کرنے کی بڑی ضرورت ہے، اصل ہندو سماج کا رویہ، دھرم اور روحانی معاملے میں عموماً مثبت رہا ہے، لیکن برٹش سامراج کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت ہندو اکثریتی سماج کے ایک بڑے حصے کو فرقہ پرستی اور فرقہ وارانہ نفرت کی راہ پر ڈال کر ہندوتو وادی بنانے کی بھر پور کوششیں کی گئیں اور یہ بڑی آسانی سے نفرت و دوری کی راہ پر گامزن ہو گیا اور آج کی تاریخ میں بڑی تیزی سے گامزن ہے، 2014 میں مرکز اور کچھ ریاستوں میں اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ فرقہ وارانہ ہندوتو تقریبا آخری درجے پر پہنچ گیا ہے، تاریخی مساجد اور معابد و ماثر کے مندر اور ہندو عمارت ہونے کی دعوے داری کی نفرت و تفریق انگیز سیاست، برٹش دور حکومت میں شروع ہوئی، بابری مسجد، جامع مسجد بنارس گیان واپی، متھرا عید گاہ مسجد وغیرہ کے معاملے اسی ذیل میں آتے ہیں، شاہی جامع مسجد سنبھل کے متعلق بات بنانے کی کوئی زیادہ گنجائش نہیں تھی تاہم اسے بھی فرقہ وارانہ نفرت و تفریق کی اشاعت کے لیے استعمال کیا گیا، جس طرح جامع مسجد بنارس گیان واپی کے تنازعہ پر عدالت نے برٹش دور 1937 میں یہ فیصلہ دے کر تنازعہ کو ایک طرح سے ختم کر دیا تھا کہ تمام تر متعلقہ جگہیں اور جائدادیں، نیچے سے اوپر تک مسجد کی ملکیت ہیں، اسی طرح 1878 میں جامع مسجد سنبھل کے مقدمہ چھیدا سنگھ بنام محمد افضل میں ہندو فریق کے دعوے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے ہائی کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ اس پر کثیر شواہد ہیں کہ یہ عمارت طویل زمانہ سے بہ طور اسلامی مسجد کے استعمال کی جا رہی ہے، یہ کہنا ناقابل توجیہ کی حدتک لغو ہے کہ بہ وقت ضرورت اسے ہندو بھی استعمال کرتے رہے ہیں، اس لیے مع کل اخراجات عدالت ہم اسے (ہندو فریق کے دعوے کو )خارج کرتے ہیں۔ (جج سر اسٹوراٹ چیف جسٹس ہائی کورٹ)

 اس کی ہندو فریق کی طرف سے اپیل کرنے پر صادر فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے فیصلہ دیا کہ اپیل مع اخراجات ڈسمس کی جاتی ہے،

اس فیصلے کے بعد جامع مسجد سنبھل کا معاملہ تقریبا ختم اور سردخانہ میں چلا گیا تھا لیکن تقسیم وطن اور ملک کی آزادی کے بعد پیدا شدہ پر آشوب حالات میں فرقہ پرست عناصر کی طرف سے فرقہ پرستی کی مہم از سر نو شروع کی گئی، آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا نے تحریک آزادی میں اپنے رول سے توجہ ہٹانے کے لیے مختلف ناموں اور عنوانات سے فرقہ واریت کو ابھار کر سماج میں اپنی حیثیت اور جگہ بنانے کی مہم کا آغاز کیا، اس کے لیے دیگر حربوں کے علاوہ فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ شروع کیا گیا، اس سلسلے میں جامع مسجد سنبھل کو ہری ہر اور کلکی اوتار مندر سنبھل میں کلکی اوتار کے ظہور کے نام پر مذہبی جذبات کے استحصال و استعمال کی منصوبہ بندی کی گئی، اس معاملے میں سب سے آسان راستہ، مسلم حکمرانوں خصوصا مغل حکمرانوں کے خلاف اکثریتی سماج کو مشتعل کر کے لوگوں کو اپنے ساتھ لینا ہے، اس میں پوری طرح اپنے منشاء و مقصد کے مطابق تو کامیابی نہیں ملی، تاہم جزوی کامیابیوں کے اثرات بھی ملک پر بڑے دوررس اور بھیانک شکل میں مرتب ہونے کی راہ ہموار ہو گئی، پہلا قابل ذکر بڑا فساد 1924 ہوا تھا، 1948سے 1998 کے درمیان 1956،1976،1980، 1986 ،1995،1998 میں فسادات ہوئے، 1976 میں تو فرقہ پرست شر پسندوں نے مسجد میں گھس کر پوجا پاٹ تک کی اور اس کی مخالفت کرنے پر امام مسجد کو شہید کر دیا تھا، ان تمام تر شنیع حرکات کے بعد بھی فرقہ پرستوں کو اپنے عزائم کی تکمیل میں مطلوبہ کامیابی نہیں مل سکی لیکن بابری مسجد/رام جنم بھومی مندر کی سیاست آمیز تحریک سے پیدا شدہ مخصوص حالات میں حقائق و انصاف پر مبنی فیصلے کے بجائے ہندو اکثریت میں بعد کے دنوں میں پیدا کردہ جذبات اور ہندو دھرم گرنتھوں سے باہر مفروضہ آستھا پر مبنی فیصلے نے ہندوتو وادیوں کے لیے کئی راستے کھول دیے ہیں، انھوں نے بابری مسجد سے متعلق فیصلے اور کاشی، متھرا، دھار وغیرہم کے سلسلے میں، 1991 کا عبادت گاہ قانون ہونے کے باوجود قانون کے بر خلاف دعوؤں کے متعلق عدالتی رویے سے حوصلہ و تقویت پا کر اسلامی اور مسلم معابد و ماثر پر” قبضہ کرو مہم” کا آغاز کر دیا ہے، عبادت گاہ قانون کا مقصد، مندر مسجد تنازعات کو ختم کرنا تھا، لیکن 15/اگست 1947 کے کردار کو بدلے بغیر متعلقہ عمارت کی پوزیشن جاننے کی بے معنی اجازت نے معاملے کو پلٹ کر رکھ دیا ہے، اسی مذکورہ مہم کا حصہ، جامع مسجد سنبھل پر کہانیوں کے مفروضہ معانی پر دعوی بھی ہے، اس میں بی جے پی اقتدار والی سرکاروں اور ان کی پولیس انتظامیہ کی بھی پوری حمایت و پشت پناہی حاصل ہے، جس طرح گزشتہ کئی دہائیوں اور ماضی قریب و حال میں مختلف عدالتوں کے ججز نے کھلے عام، ہندوتو، آر ایس ایس وغیرہ سے نظریاتی وابستگی کا اظہار کیا ہے، اس کے پیش نظر جامع مسجد سنبھل، جامع مسجد بنارس، دھار مسجد، مزار وغیرہ کے سلسلے میں، ہندوتو وادی فریق کے دعوؤں کو قبول کرنے کے سلسلے میں حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ غیر جانبداری پر مبنی ہے، تاریخ میں تاریخ سازی اور رائج کہانیوں کے مفروضہ معانی کو شامل کر کے جس طرح حقائق کو قتل کی کوششیں مختلف سطحوں پر کی جا رہی ہیں ان کے آنے والے دنوں میں فرقہ وارانہ اور سماجی تانے بانے کے تناظر میں بڑے دوررس، بھیانک اثرات و نتائج مرتب و برآمد ہوں گے، عقائد و روایات کے معاملے میں کہانیوں کو اپنی جگہ رکھ کر دیکھنے سے کئی باتوں کے افہام و تفہیم میں مدد ملتی ہے لیکن ہندوتو وادی عناصر مختلف موضوعات کے لٹریچر میں درج روایات اور کہانیوں کو ان کے محور و مرکز سے ہٹا کر اپنی شرارتوں کو جواز و بنیاد فراہم کرنے کا خطرناک کام انجام دے رہے ہیں، اس کی توڑ کے لیے موثر اقدامات کی بڑی ضرورت ہے، یہ مسلم تنظیموں اور اداروں کی طرف سے مطلوبہ سطح پر ہونا باقی ہے، جب کہ ہندوتو وادی ادارے اور تنظیمیں یہ کام بڑے پیمانے پر کر چکی ہیں اور کر رہی ہیں، اس پر کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہ گئی ہے کہ بابری مسجد کی راہ پر دیگر معابد و ماثر کے علاوہ جامع مسجد سنبھل کو بھی لے جانے کا پورا پورا جتن کر لیا گیا ہے، اس میں ہری شنکر جین اور ان کے بیٹے وشنو شنکر جین شامل ہیں، وہ پوری طرح آر ایس ایس اور بی جے پی کے عزائم و مقاصد کے مطابق کرتے نظر آتے ہیں، وشنو شنکر جین سے مختلف چینلز ہماری بارہا بحث و گفتگو ہوئی ہے، وہ کسی دعوے کا واضح ثبوت و دلیل دینے کے بجائے اپنے دعوے کو ہی دلیل و ثبوت بنا کر پیش کرتے ہیں اور کہیں کی باتوں کو کہیں سے جوڑ کر اپنی دلیل بنا لیتے ہیں، جامع مسجد بنارس گیان واپی کے سلسلے میں انہوں نے ماثر عالمگیری کے حوالے سے دعوی کیا کہ اس میں لکھا ہے کہ اورنگزیب نے کاشی وشو ناتھ مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کی ہے ،حالاں کہ ماثر عالمگیری میں ایسا بالکل نہیں ہے، اب وشنو شنکر جین نے بابر نامہ کے حوالے سے دعوی کیا ہے کہ اس میں ہے کہ بابر نے ہری ہر مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کرائی تھی، مناکشی جین، آچاریہ پرمود کرشنم جیسے کچھ لوگ اس سلسلے میں بابر نامہ کے ساتھ ابوالفضل کی آئین اکبری کا بھی حوالہ دے رہے ہیں، اویسی صاحب کے اس تبصرے کو کہ بابر نامہ وغیرہ جائے بھاڑ میں، کو اپنے رنگ میں پیش کیا جا رہا ہے کہ بابر نامہ اور آئین اکبری میں ایسا کچھ ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جامع مسجد سنبھل مندر توڑ کر بنائی گئی ہے، جب کہ حقیقتا بابر نامہ اور آئین اکبری میں مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کا سرے سے کوئی ذکر نہیں ہے، ہم نے بذات خود دونوں کتابیں پڑھی ہیں، پتا نہیں ہندوتو وادیوں کے پاس کس زبان کا کون سا اڈیشن ہے؟دلچسپ بات یہ ہے کہ بات کرنے والے اس قسم کا سوال نہیں کرتے ہیں، معروف مورخ پروفیسر شری رام شرما اور پٹنہ یونیورسٹی میں تاریخ کا پروفیسر رہ چکے رام پرشاد کھوسلا وغیرہ ،اس کی بہت مضبوطی تردید و تغلیط کر چکے ہیں کہ بابر نے کسی مندر کو توڑ کر مسجد کی تعمیر کی ہے ،پروفیسر شرما نے اپنی کتاب مغل امپائر(صفحہ، 55مطبوعہ 1945) میں لکھا ہے

“ہمیں کوئی ایسی شہادت نہیں ملتی ہے کہ بابر نے کسی مندر کو توڑا ہے “

جب کہ پروفیسر کھوسلا اپنی کتاب مغل کنگ(مطبوعہ 1934،صفحہ 207) میں لکھا ہے

 ” بابر کی تزک(بابر نامہ )میں ہندوؤں کے کسی مندر کے انہدام کا کوئی ذکر نہیں ہے، وہ مذہبی تعصب اور تنگ نظری سے بری تھا”

اس پر ماہنامہ معارف اعظم گڑھ میں تحریر شائع ہو چکی ہے، مغلیہ عہد کے لٹریچر میں سنبھل، سرکار سنبھل کے طور پر درج ہے، اس کا شریمد بھگوت مہاپران ،بھوشیہ پران، کلکی پران وغیرہ میں درج شنبھل اور سنبھل سے کوئی تعلق نہیں ہے، جو انتم رشی، کلکی اوتار کی بعثت و ظہور کی جگہ ہے، ڈاکٹر وید پرکاش اپادھیاے نے اپنی کتاب، کلکی اوتار اور حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )میں بہت مضبوط دلائل سے ثابت کر دیا ہے کہ شنبھل گرام اور کلکی اوتار، مکہ مکرمہ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور وہ آچکے ہیں، اس لحاظ سے شنبھل اور کلکی اوتار کا تعلق بھارت سے نہیں ہو سکتا ہے اس لیے کلکی اوتار اور اس کے ظہور کی جگہ ہونے کے نام پر جامع مسجد سنبھل کو ہری ہر مندر کی جگہ قرار دینے کا کوئی جواز نہیں ہے، اس تناظر میں بات بہت صاف ہے کہ شاہی جامع مسجد سنبھل ایک حقیقت ہے جب کہ اس کی جگہ موجود مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر اور وہاں پر کلکی اوتار ہونے کی باتیں ،افسانہ اور مفروضہ کہانی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ہیں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com