مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
(نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ)
انسان ایک سماجی جاندار ہے، اس کی ضروریات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، خاندان سے لے کر سماج اور معاشرہ کی ضرورت ہے کہ وہ ساتھ رہے، ساتھ چلے، فلاح وبہبود کے لیے مل جل کر کوشاں ہوں، ماضی قریب تک دیہاتوں میں چوپال اور شہروں میں کلب کا قیام اور اس کی ممبری لوگ اسی ضرورت کے لیے لیا کرتے تھے اور جڑا کرتے تھے، لیکن زمانہ بدلا، احوال بدلے، مجلسی گفتگو کی جگہ ہاتھوں میں موبائل آگئے، اب گھر کا ہر فرد چاہے، ایک ہی مجلس میں کیوں نہ بیٹھا ہو، وہ اکیلا ہوتا ہے اور موبائل کے مختلف ایپس میں لگا رہتا ہے، بیوی کو شکایت ہے کہ شوہر وقت نہیں دیتا، شوہر کو شکایت ہے کہ موبائل کی مشغولیت نے ہماری خانگی زندگی کو برباد کردیا ہے، بچے والدین کے میٹھے بول اور نصیحت سننے کو ترس گیے ہیں اور وہ بے توجہی کے شکار ہیں، اکیلا پن انہیں کھائے جارہا ہے، دفتر کے اوقات کا بھی بڑا حصہ موبائل پر برباد ہوتا ہے، اعلیٰ سوسائٹی میں کسی درجہ میں کلبوں سے دلچسپی ہے، لیکن اس قدر نہیں کہ وہ موبائل کی جگہ لے سکے، ہر آدمی اکیلا سا ہوگیا اور سماجی زندگی پر بنگلہ کی مثل ”اکلا چل“ صادق آرہا ہے، ہر آدمی اکیلا اور تنہا ہوکر رہ گیاہے،امریکن سائیکلو ٹریک ایسوسی ایشن کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر تیسرا شخص اکیلے پن کا شکار ہے، جن میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے، غیرشادی شدہ نوجوانوں میں اس کا تناسب 39% اور شادی شدہ لوگوں میں 22% فی صد ہے، جو لوگ اس قدر تنہا ہوتے ہیں، وہ بھی دوست کا دوست، دوست اور دشمن کا دشمن دوست کے فارمولے سے ہٹ گیے ہیں، اب نہ تو پہلے والے جاں نثار، وفادار اور قربانی کے جذبہ سے سرشار دوست رہے اور نہ ہی تعلقات میں وہ گرم جوشی باقی رہی، جن کے پاس دوست ہیں وہ بھی اپنے دوست کو دوسرے دوست سے ملانے سے کتراتے ہیں اور ایک سے دوسرے کو دور رکھنے کی روش پر عامل ہیں، انگریزی میں اس عمل کو ”فرینڈ ہورڈنگ“ کے نام سے جانتے ہیں، یہ ایک روایت بن گئی ہے، ”فائٹنگ فار آور فرینڈ شیپ“ کی مصنفہ ڈا نی ایل بیارڈ جکسن کے مطابق ”فرینڈ ہورڈنگ“ کے کثرت سے رواج پانے کی ایک وجہ عدم تحفظ اور دوستوں کے کھونے کا ڈر ہے، جکسن مانتی ہیں کہ یہ ایک عام نفسیات ہے، لیکن ترقی یافتہ اس دور میں، طریقہ زندگی اور سوشل میڈیا کے غیر معمولی اثرات کی وجہ سے اس عمل میں تیزی آئی ہے، انٹرنیٹ کے ذریعہ پیدا ہونے والے انقلاب نے انسانوں کو اکیلے پن کا شکار بنا لیا ہے، حالاں کہ وہ الگ الگ گروپ میں اپنی مرضی اور پسندیدگی کے اعتبار سے جڑے نظر آتے ہیں، لیکن وہ ”فرینڈ ہورڈنگ“ کے شکار ہوتے ہیں، انہیں یہ ڈر رہتا ہے کہ اگر اپنے دوستوں کو دوسرے دوستوں سے ملائیں گے تو وہ آپس میں اس قدر گھل مل جائیں گے کہ ہم ہی پیچھے رہ جائیں گے اور وہ دوستی کی راہ پر آگے بڑھ چکے ہوں گے، یہ اصلاً جلن کا عنصر ہے، جو ایک کو دوسرے سے الگ رکھنے پر مجبور کرتا ہے، اس خوف کی ایک اور وجہ اپنی شناخت ہے، لوگ الگ الگ دوستوں کے ساتھ اپنی الگ الگ شناخت کے ساتھ ملتے ہیں، ضروری نہیں کہ ہر دوست پورے احوال سے واقف ہو، ان کا آپس میں ملنا اس پہچان اور شناخت کے ختم کی وجہ بن سکتی ہے، اس لیے ”فرینڈ ہورڈنگ“ پر سختی سے لوگ عمل پیرا ہوتے ہیں، مردوں کی بہ نسبت عورتوں میں ”فرینڈ ہورڈنگ“ کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے، کیوں کہ ان کے اندر حسد اور جلن کی مقدار صنفی اعتبار سے مردوں سے زیادہ ہوتی ہے، وہ دوستی، سہیلی، سکھی ،بہنپا کو ایک سماجی تعلق نہیں، ذاتی رشتے کے خانہ میں رکھتی ہیں اور اسے محفوظ رکھنا چاہتی ہیں۔
اس طریقہ کار کو بڑھاوا دینے میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا بھی بڑا ہاتھ ہے، اس کی وجہ سے لوگوں کا رجحان نجی دوستی کی طرف بڑھا ہے، اس صورت حال نے دوستی کے مقاصد کو بھی متأثر کیا ہے، دوستی کا ایک بڑا فائدہ مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد کرنا ہوتا تھا، شیخ سعدیؒ نے اسی لیے کہا تھا کہ ”دوست آں باشد کہ گیر دست دوست درپریشاں حالی و درماندگی“ لیکن اب یہ باقی نہیں رہا، اکیلاپن اور”اِکلا چل“ کی روایت نے اجتماعی خوشی وغمی اور تحفظ کے احساس سے بھی انسانوں کوعاری کردیا ہے۔
اس روایت کو فروغ دینے میں اس احساس کا بھی حصہ ہے کہ اگر ہم نے دوسروں سے اپنے دوست کو متعارف کرادیا تو ممکن ہے کہ وہ میری صلاحیت سے زیادہ کا ہو اور کسی وجہ سے ہم پر بھاری پڑ جائے، ایک خطرہ تعلقات میں بٹوارے کے ساتھ ہدایا، تحائف وغیرہ میں بھی بٹوارہ کا ہوتا ہے، اس خوف سے بھی لوگ دوستوں، رشتہ داروں اور متعلقین سے دور رہتے ہیں یا قصداً نظر انداز کرتے ہیں، اس کا فائدہ بھی انہیں یہ ملتا ہے کہ ہدایا اور نظرانہ کی رقم تقسیم نہیں ہوتی اور کسی کو صلاحیتوں کے تقابل کا موقع نہیں ملتا اور وہ ”اندھے گاؤں میں کنہا راجہ“ کے مصداق اپنی خود ستائی اور خود نمائی کا موقع حاصل کرلیتے ہیں اور ان کی واہ واہی ہوتی رہتی ہے،اسی طرح تنظیم، ادارے، جماعتیں اور جمیعتوں کے اشخاص و افراد عموماً اپنی تنظیم کے مخصوص معاونوں سے ملانے میں بھی کتراتے ہیں، یہاں بھی وہی ڈر ستاتا ہے کہ کہیں یہ شخص ہماری تنظیم سے الگ ہو کر دوسری تنظیم سے جڑ نہ جائے، اور جو معاونت اس کی اس ادارے کے ساتھ رہی ہے وہ دوسرے کو منتقل نہ ہوجائے، یہ معاملہ اس قدر سخت ہوتا جا رہا ہے کہ ذمہ دار افراد اپنے علاوہ دوسرے اداروں اور اشخاص کے بارے میں غلط صحیح افواہیں پھیلانے اور دوسرے اداروں کی خدمات کو کم تر دکھانے سے بھی باز نہیں آتے، یہ فرینڈ ہوڈنگ سے اوپر کا کام ہے جو تیزی سے فروغ پا رہا ہے، ظاہر ہے یہ ایک منفی نفسیات ہے جو اس قسم کے کاموں پر دوستوں، افراد اور ذمہ داروں کو ابھارتا ہے، وہ چھوٹی لکیر کے آگے بڑی لکیر کھینچ کر بڑے بننا نہیں چاہتے، وہ دوسروں کی لکیر کو مٹانے میں یقین رکھتے ہیں، جس کا نقصان ذاتی، خاندانی، سماجی ہمہ جہت ہوتا ہے، ایسا شخص خود بھی اکیلا اور تنہا رہ جاتا ہے۔