شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
مورخہ: ۶–۸ جمادی الاولیٰ۱۴۴۶ھ مطابق:۹–۱۱ نومبر ۲۰۲۴ء روزہ ہفتہ، اتوار، پیر کو بہار کے قدیم شہر دربھنگہ کے قریب ریاست کی ایک بڑی دینی درسگاہ جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالاساتھ میں اسلامک فقہ اکیڈمی کا ۳۳؍ واں سیمینار اِن پانچ موضوعات (۱) علاج ومعالجہ میں کمیشن اور مقررہ تاریخ ختم ہونے کے بعد دواؤں کی فروختگی (۲) تعلیمی ودعوتی کاموں کے لئے انٹرنیٹ سے استفادہ (۳) موجودہ دور میں فسق سے مراد اور اس پر مرتب ہونے والے احکام (۴) مصنوعی ذہانت (AI) سے استفادہ کا مسئلہ (۵) خواتین کی ڈرائیونگ سے متعلق بعض مسائل پر منعقد ہوا، جس میں ملک بھر سے تین سو سے زیادہ ارباب افتاء نے شرکت کی، ۹؍ نومبر کو ظہر سے پہلے افتتاحی اجلاس منعقد ہوا، جس میں گزشتہ روایت کے مطابق اس حقیر نے کلیدی خطبہ پیش کیا، اس خطبہ میں جن نکات کا احاطہ کیا گیا ہے، وہ موجودہ حالات میں بہت اہم ہیں؛ اس لئے اسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے (رحمانی)
حضرات! ادھر سالہا سال سے اکیڈمی کے سیمیناروں کا معمول رہا ہے کہ کسی اہم فکری اور قومی مسئلہ پر کلیدی خطبہ پیش کیا جاتا ہے، اور ملک بھر کے علماء راسخین اور فقہاء ربانیین کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بات رکھی جاتی ہے؛ تاکہ یہ پیغام پورے ملک تک پہنچ جائے اور اس کے دور رَس اثرات مرتب ہوں، لوگ یہاں سے جاتے ہوئے فقہ وفتاویٰ کی سوغات کے ساتھ ساتھ نظروفکر کا تحفہ بھی لے کر جائیں، اس پس منظر میں اس وقت جو موضوع آپ بزرگوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، وہ ہے، حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی مجریہ ۲۰۲۰ء کے پس منظر میں دینی مدارس اور مسلمانوں کے زیر انتظام تعلیمی اداروں اور دیہات وقریہ جات کے بچوں کی دینی تعلیم وتربیت اور آئندہ نسلوں کے ایمان کا تحفظ ۔
یہ بات محتاج اظہار نہیں کہ کسی بھی مذہب اور فکر وعقیدہ کے لئے تعلیم کی حیثیت شہ رگ کی ہے، اگر کسی قوم کو اس کے دین سے محروم کرنا ہو تو اس کے دینی تصورات سے اس قوم کا علمی رشتہ کاٹ دیا جائے، یہ چیز خود بخود اس قوم کو اپنے مذہب سے بے گانہ بنا دے گی، اس کے لئے نہ پنجہ آزمائی کی ضرورت پڑے گی اور نہ معرکہ آرائی کی، یہ کسی قوم کو فکری اور مذہبی اعتبار سے قتل کرنے کا ایسا کامیاب اور بے ضرر نسخہ ہے کہ بقول شاعر:
دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
ہندوستان میں اس وقت مسلمانوں کے ساتھ یہی طرز عمل اختیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، انگریز جب ہندوستان میں آئے تو انھوں نے یہی ناکام کوشش کی؛ چنانچہ لارڈ میکالے جب فورٹ ویلیم کالج قائم کرنے کے بعد برطانیہ واپس گئے تو انھوں نے برطانوی دارالعوام میں اپنے اس منصوبہ کو ان الفاظ میں ظاہر کیا، ’’ میں ہندوستان میں ایک ایسے ادارہ کی بنیاد ڈال کر آیا ہوں کہ اس کی وجہ سے ہندوستان میں رہنے والے لوگ رنگ ونسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی رہیں گے؛ لیکن اپنی فکر اور ذہن ودماغ کے اعتبار سے انگریز بن جائیں گے‘‘۔
۱۸۱۳ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا کہ ہندوستانیوں کو عیسائی بنانے کے لئے اگر پادری وہاں جانا چاہیں تو انہیں اجازت ہے، اس کے بعد ہی سے ہندوستان میں بڑی تعداد میں عیسائی پادری اور تبلیغی وفود کی آمد شروع ہوئی، ۱۹۰۰ء تک ہندوستان میں عیسائیوں کے ۴۲؍ مشن اپنا قدم جما چکے تھے، ’’ پادری ای اینڈ مینڈ‘‘نے بر سر عام دعوت دی تھی کہ اب تمام ہندوستان میں ایک عمل داری ہوگئی، تار برقی سے سب جگہ کی خبر ایک ہوگئی، ریلوے ، سڑک سے سب جگہ کی آمدورفت ایک ہو گئی، مذہب بھی ایک چاہئے؛ اس لئے مناسب ہے کہ تم لوگ بھی عیسائی ایک مذہب ہو جاؤ ‘‘ (سیرت مولانا محمد علی مونگیریؒ:۴۱) انگریزوں کی کوشش تھی کہ ایسا نظام تعلیم مروج ہو، جو پادریوں کے لئے ان کی تبلیغی کوششوں میں معاون ومددگار ثابت ہو؛ تاکہ ہندوستان میں بڑے پیمانہ پر لوگ عیسائیت کو قبول کرلیں، سرچارلس ٹریویلین آئی سی ایس جو برطانوی کونسل کے ممبر تھے، نے ایک موقع پر ان خیالات کا اظہار کیا:
میرا یقین ہے کہ جس طرح ہمارے بزرگ کل کے کل ایک ساتھ عیسائی ہوگئے تھے، اسی طرح یہاں بھی سب ایک ساتھ عیسائی ہو جائیں گے، ملک میں مذہب عیسوی کی تعلیم بلا و اسطہ کتابوں، اخباروں اور یورپینیوں سے بات چیت وغیرہ کے ذریعہ نفوذ کرے گی، حتی کہ عیسوی علوم تمام سوسائٹی میں اثر کر جائیں گے، تب ہزاروں کی ت عداد میں عیسائی ہوا کریں گے‘‘ (تاریخ التعلیم، از سید محمود:۶۹)
نتیجہ یہ تھا کہ گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ عیسائی پادری اور مناد مسلمانوں اور ہندوؤں کو دعوت ارتداد وتبدیلی مذہب دیتے تھے، سر سید احمد خان مرحوم بھی اپنی حد اعتدال سے بڑھی ہوئی رواداری اور حکومت برطانیہ کے حق میں نرم روی کے باوجود یہ کیفیت برداشت نہ ہو سکی، انھوں نے اپنے رسالہ بغاوت ہند میں اس کیفیت پر وضاحت سے روشنی ڈالی ہے، ان حالات میں اس فتنہ کے مقابلہ کے لئے وہی لوگ اُٹھے، جو دینی مدارس سے متعلق یا ان کے پروردہ تھے، انھوں نے شہر سے دیہات تک گلی کوچوں میں جا کر مسلمانوں کو اس فتنہ سے باخبر کیا، عیسائی مشنریز سے مناظرے کئے اور مسلمانوں کو ان کے دام ہم رنگ زمین سے بچایا، اس سلسلہ میں حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ، حضرت مولانا سید محمد علی مونگیریؒ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ وغیرہ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
جو کام برطانوی عہد میں انگریزوں نے کیا، موجودہ دورمیں خاص کر ۲۰۱۴ء کے بعد مسلمانوں کے خلاف اسی مہم کو زیادہ قوت اور اعلان واظہار کے ساتھ سنگھ پریوار کے لوگ کر رہے ہیں؛ کیوں کہ نفرت اور اقلیت دشمنی ان کا بنیادی ایجنڈا ہے، صورت حال یہ ہے کہ سنگھ کے ودیا بھارتی اسکولوں کی تعداد اس وقت تیرہ ہزار ہے، جن میں ۷۴؍ ہزار ا ساتذہ اور ساڑھے سترہ لاکھ طلبہ ہیں، یہ سرسوتی اور شیشو مندر کے علاوہ ہیں، سنگھ پریوار نے ۱۹۹۳ء میں پروسینک سیوا پریشد قائم کی ہے، جس میں سابق فوجیوں کے ذریعہ ساتویں سے نویں کلاس تک کے طلبہ کو میلیٹری ٹریننگ دی جاتی ہے، اسی طرح تین رہائشی اسکول اس وقت ناگپور اور مہاراشٹر میں چل رہے ہیں اور نینی تال کا اسکول ان کے علاوہ ہے، ان کو جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے، وہ مسلمانوں سے نفرت پر مبنی ہے، عجب بات ہے کہ حکومت کو سنگھ پریوار کے اداروں سے تو دہشت گردی اور تشدد کی بو نہیں آتی؛ لیکن مدارس اسلامیہ جو امن وآشتی کا گہوارہ ہیں، ان سے تشدد کی بو آتی ہے۔
نئی قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ء سنگھ پریوار کی سوچ کا مکمل طور پر عکاس ہے، ۲۰۱۴ء میں جب این ڈی اے کی حکومت اقتدار میں آئی، اسی وقت نئی تعلیمی پالیسی کے لئے ٹی ایس آرسبرامنیم کی کمیٹی قائم کی گئی، مئی ۲۰۱۶ء میں کمیٹی نے رپورٹ دی؛ لیکن غالباََ یہ رپورٹ حکومت کے ناپاک عزائم سے مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں تھی؛ اس لئے دوبارہ ڈاکٹرکے کستوری رنجن کی سرپرستی میں ۲۰۱۷ء میں دوسری کمیٹی قائم ہوئی، جس نے ۳۱؍مئی ۲۰۱۹ء کو ۴۶۸؍ صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ پیش کر دی، قاعدہ کے مطابق رپورٹ کو پارلیمنٹ میں پیش ہونا چاہئے تھا، اور اس پر بحث ہونی چاہئے تھی؛ لیکن ایسا نہیں ہوا، مرکزی کابینہ نے پارلیمنٹ میں مباحثہ کی روایت سے انحراف کرتے ہوئے ۱۹؍ جولائی ۲۰۲۰ء کو نئی قومی تعلیمی پالیسی (National Educational Policy 2020) کو منظوری دی ؛ چوں کہ پالیسی پر باضابطہ بحث نہیں کرائی گئی اور زیادہ تر ریاستوں میں عملی طور پر ابھی پالیسی پر نفاذ عمل میں نہیں آیا ہے؛ اس لئے اس کے فوائد ونقصانات لوگوں کی نظروں کے سامنے نہیں آئے ہیں، حکومت خود اپنی پیٹھ ٹھونک رہی ہے اور اس پالیسی کی تعریف کر رہی ہے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پوری طرح خلاف واقعہ ہے، یہ پالیسی ملکی مفاد کے خلاف ہے، اور ملک کے سیکولرزم کے لئے تباہ کن ہے، یہ ہندوستان کے سیکولر ڈھانچے سے کس قدر مطابقت رکھتا ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، اس پالیسی کاا ہم موضوع بھارتیہ کرن ہے، اور ان حضرات کے نزدیک بھارت سے مراد ملک کی محض ایک چھوٹی سی آبادی ہے، جو قدیم ہندو فلسفہ پر یقین رکھتی ہے، پالیسی میں بظاہر خوشنما الفاظ استعمال کئے گئے ہیں، جیسے بھارتی علوم (Indian Knowledge) بھارتی اقدار(Indian Values) بھارتی تہذیب وتمدن (Indian Culture) بھارتی تاریخ (Indian History) مادری زبان میں تعلیم وغیرہ؛ لیکن ان مبہم تعبیرات کے مفہوم کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ وہ ہندو رنگ میں رنگ جائے، بھارت کی تاریخ کے عنوان سے قدیم ہندو دَور کا ذکر ہے، جس کی کوئی مستند تاریخ موجود نہیں ہے، ہندو مذہب کی دیو مالائی کہانیوں کو نصاب کا حصہ بنایا جارہا ہے، پورے مسلم عہد کی تاریخ کو ملک کی تاریخ سے باہر کر دیا گیا ہے، بھارتی اقدار کے نام پر ہندو روایات کو اسکولی تعلیم کا حصہ بنایا جا رہا ہے، بعض ریاستیں جہاں نئی تعلیمی پالیسی کو نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہاں وید اور گیتا کے مختلف مضامین کتاب کا حصہ بنائے جا رہے ہیں، کہا تو یہی گیا ہے کہ مادری زبان میں تعلیم کو فروغ دیا جائے گا؛ لیکن ایک سوال کے جواب میں وزیر تعلیم نے صرف آٹھ زبانوں کا ذکر کیا اور اس میں اردو زبان کا ذکر نہیں ہے، جب کہ اردو زبان ساتویں نمبر پر آتی ہے، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اردو زبان کے بارے میں حکومت کی نیت کیا ہے، پالیسی میں کہا گیا ہے کہ پری پرائمری میں کھیل کود اور مختلف سرگرمیوں کا نصاب بنایا گیا ہے، بظاہر یہ نصاب مشرکانہ نغموں، ڈانس اور بھجن پر مشتمل ہوگا، پالیسی میں غیر ملکی زبانوں کا بھی ذکر ہے، ان میں بعض زبانیں ایسی ہیں جن کو شاذ ونادر ہی ہندوستان میں جانا اور سمجھا جاتا ہے؛ لیکن عربی زبان کو اس میں جگہ نہیں دی گئی ہے، جب کہ معلوم ہے کہ عرب ممالک سے بڑے پیمانہ پر ہندوستان کے بسنے والوں کا روزگار وابستہ ہے۔
غرض کہ اگر نئی تعلیمی پالیسی کا جائزہ لیا جائے تو دو تین نکات واضح طور پر سامنے آتے ہیں، ایک مشرکانہ افکار وروایات اور رسوم ورواج کو اسکول کی تعلیمی نظام کا حصہ بنانا، دوسرے: برہمنی فکر کو بہت چالاکی کے ساتھ آگے بڑھانا، تیسرے: مسلمانوں کی تاریخ اور ان کی زبان کو نظر انداز کرنا، یہ ساری باتیں ملک کے جمہوری اور سیکولر قدروں کے خلاف ہے، اور مسلمانوں کے لئے اپنی اگلی نسلوں کے ایمان کی حفاظت کو متأثر کرنے والی ہیں۔
نئی تعلیمی پالیسی کے تحت دو پہلوؤں سے بچوں کے ذہنوں کو بگاڑنے اور ان کو شرک سے مانوس کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ایک تو ہندو دیو مالائی کہانیوں کو مسلمہ حقیقت کے طور پر کمسن بچوں کی نصابی کتابوں میں شامل کیا جا رہاہے، گیتا اور ویدوں کے مختلف حصے نصاب کا حصہ بنائے جا رہے ہیں، پہلے نصاب میں دیگر مذاہب کی شخصیتوں کا بھی ذکر ہوتا تھا، اب اس کو بھی ختم کر دیا گیا ہے، توہم پرستی پر مبنی ہندو تاریخ کو حقیقی واقعات کے انداز پر پڑ ھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اور مضحکہ خیز باتوں کو سائنسی حقائق کا رنگ دیا جا رہا ہے، جیسے گنیش جی کی مورتی کو پلاسٹک سرجری کا شاہکار اور ہنومان جی کی ہندوستان سے سری لنکا آمد کو فضائی سائنس کی دریافت کا عنوان دیا جا رہا ہے، گائے کے پیشاب کے خود ساختہ طبی فوائد بیان کئے جا رہے ہیں، اور اسی طرح کی بہت ساری حقیقت سے بعید مفروضے اور کہانیاں ہیں، جن کو ایک سچائی اور دریافت کے انداز پر پیش کیا جا رہا ہے۔
اسکولوں میں مشرکانہ افکار واعمال کو داخل کرنے کا دوسرا راستہ تہذیبی اور ثقافتی پروگرام ہیں، بچوں سے سرسوتی وندنا کرائی جاتی ہے، جن کو تعلیم کی دیوی باور کیا جاتا ہے، لکشمی دیوی کو رزق کی دیوی سمجھایا جاتا ہے، بچوں کو اس کی پوجا کی ترغیب دی جاتی ہے، اور دماغ میں یہ بات بٹھائی جاتی ہے کہ اگر یہ دیوی خوش رہی تو دولت حاصل ہوگی، د رگا پوجا بھی اسکولوں میں اہتمام کے ساتھ کرائی جاتی ہے، اور ان کو طاقت اور شکتی کی دیوی قرار دیا جاتا ہے، قرآن نے بار بار اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات دونوں کی توحید پر زور دیا ہے اور شرک فی الذات کی طرح شرک فی الصفات سے بھی منع کیا ہے، اس ماحول میں اس کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے، تعلیم گاہوں میں مختلف ہندو تہواروں اور تقریبات کا انعقاد، ہر جگہ ہندو دیوی دیوتاؤں کی تصویریں، ان قدیم شکست خوردہ راجاؤں کی تصویریں کو نمایاں کرنا، جن کی مسلم قبائل سے جنگ رہی ہے، جیسے مہارانا پرتاپ، پرتھوی راج، شیواجی مہاراج وغیرہ جیسے شکست خوردہ حکمرانوں اور سپہ سالاروں کی داستانیں بیان کی جاتی ہیں، ان سب کا مقصد ہندو آئیڈیالوجی کو بلند اور برتر بنا کر پیش کرنا ہے۔
اس کا ایک حصہ یہ ہے کہ تاریخ کے نصاب سے پورے مسلم دور کو باہر کر دیا گیا ہے، جیسے یورپ میں مسلمانوں کے غلبہ وعروج کے عہد کو ڈارک ایج(Dark Age ) کا نام دیا گیا، اسی طرح سنگھ پریوار کے مؤرخین نے مسلمانوں کے طویل دور حکومت— جو اصل میں اس خطہ کی تعمیر وترقی کا دور تھا –کو گوشہ گمنامی میں دھکیلنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
اس پس منظر میں یہ بات بہت ضروری ہے کہ:
(الف) مسلمان زیادہ سے زیادہ اپنے اسکول قائم کریں، جس کا ماحول اسلامی ہو، اور جس کی تعلیم مشنری اور سنگھی اسکولوں کے معیار پر ہو، خاص کر علماء، دینی مدارس اور مذہبی تنظیمیں اپنے زیر انتظام ایسی درسگاہیں قائم کریں، ان اداروں میں جہاں تک ممکن ہو، لڑکے اور لڑکیوں کی جدا گانہ تعلیم کا انتظام ہو ، دلکش مگر شریعت سے ہم آہنگ یونیفارم ہو۔
(ب) یہ بات ظاہر ہے کہ اتنے اسکولوں کا قیام جہاں مسلمان لڑکے اور لڑکیاں پڑھ سکیں، آسان نہیں ہے؛ اس لئے ہر ریاست کے علماء اور دینی ذمہ داروں کا فریضہ ہے کہ وہ عصری اور دینی علوم کے ماہرین سے ایک ایسی کلید تیار کرائیں جو سرکاری نصاب کی زہر افشانیوں کا علاج تجویز کرتی ہو، اس میں عقیدۂ توحید کو اچھی طرح سمجھایا جائے، وہیں بت پرستی کی نامعقولیت اور بے حقیقتی کو اچھی طرح واضح کیا جائے، یہ ایک متوازی معاون نصاب ہو، جو مسلمان بچوں اور بچیوں کو ہفتہ میں ایک دن پڑھایا جا سکے۔
(ج) مدارس اپنے احاطہ میں ایسے کوچنگ سینٹر قائم کریں، جہاں مسلمان بچوں کے لئے مفت یا بہت معمولی خرچ پر ٹیوشن کا انتظام ہو، ان کو امتحان کے لئے تیار کیا جائے، درجات کے طویل مرحلوں سے گزارے بغیر ان کو کوچنگ کے ذریعہ امتحان دلایا جائے۔
(د) مسلمانوں کے زیر انتظام عصری مدارس کی ایک بڑی ضرورت نصاب تعلیم میں ایسے مضامین کو شامل کرنا ہے، جو مسلمان طلبہ اور طالبات کو اسلام کے بارے میں واقفیت بھی فراہم کریں اور اُن کو احساس کمتری میں مبتلا ہونے سے بچائیں، محض چند دُعاؤں کا یاد دلا دینا کافی نہیں؛ بلکہ توحید،، شرک، رسالت، عبادات، معاشرتی زندگی اور معاملات کے بارے میں ان کو معلومات فراہم کی جائیں، سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلامی تاریخ کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں، ان کے متعلق وہ حقائق سے آگاہ ہوں، ہندوستان کی حقیقی تاریخ کہ مسلمانوں نے اس ملک کو کیا کچھ دیا؟ پڑھائی جائے، بابر، غزنوی وغوری ، حضرت اورنگ زیب عالمگیرؒاور ٹیپو سلطان شہیدؒ وغیرہ مسلم حکمرانوں کے بارے میں جو پروپیگنڈے کئے جاتے ہیں، ان کی حقیقت سمجھائی جائے؛ تاکہ آج از سر نو تاریخ لکھنے کی جو کوشش کی جا رہی ہے، اس کے زہر سے مسلم نوجوانوں کے ذہن کو محفوظ رکھا جا سکے، ان موضوعات پر بہت سی تحریریں موجود ہیں ، اگر ضرورت پڑے تو اس نقطۂ نظر سے کچھ کتابیںمدون کی جائیں، یہ وقت کی نہایت اہم ضرورت ہے، جن جماعتوں میں بورڈ کا امتحان دینا ہوتا ہے، ان جماعتوں کو چھوڑ کر دوسری کلاسس میں ایسی کتابیں رکھی جائیں تو شاید اس میں کوئی دقت نہ ہو۔
(ہ) موجودہ حالات میں ایک اہم مسئلہ اردو زبان کی تعلیم کا بھی ہے، اس میں شبہ نہیں کہ اُردو واحد زبان ہے، جس کو مسلمانوں نے وجود بخشا ہے، اس زبان میں تقریباََ ۷۵؍ فیصد الفاظ عربی اور فارسی ہیں، خود قرآن مجید کے الفاظ بہ کثرت اس زبان میں داخل ہیں، اسلامی اصطلاحات اور محاورات جس قدر اُردو زبان میں پائے جاتے ہیں، عربی زبان کے بعد کوئی زبان نہیں، جو اسلامی تعبیرات سے اس قدر مالا مال ہو، ایک غیر مسلم بھی جب اُردو زبان میں لکھتا اور بولتا ہے، تو ’’ ماشاء اللہ، الحمد للہ، اور سبحان اللہ وغیرہ الفاظ بھی بولنے اور لکھنے پڑتے ہیں۔
پھر اُردو زبان میں اسلامی علوم کا سرمایہ اتنی بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے کہ سوائے عربی زبان کے کوئی زبان نہیں جو اتنی مال دار اور صاحب ِ ثروت ہو، تفسیر، قرآن وحدیث کے ترجمے، مسنون حدیث کی شرحیں، فقہ اور فقہی کتابوں کے ترجمے، سیرت، اسلامی تاریخ، غرض تمام ہی اسلامی علوم پر اردو زبان میں ایک عظیم الشان کتب خانہ تیار ہو چکا ہے، ایک زمانہ میں عربی کے بعد سب سے زیادہ اسلامی لٹریچر فارسی زبان میں تھا؛ لیکن اب اُردو نے فارسی پر سبقت حاصل کر لی ہے۔
اگر ہمارے بچے (جو عربی اور فارسی زبان سے بھی واقف نہیں ہیں) اُردو زبان سے بھی نابلد رہ جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہت ہی عظیم اسلامی سرمایہ سے محروم ہو جائیں گے، اسلامی لٹریچر سے ان کا رابطہ کٹ کر رہ جائے گا، اور اپنے سلف صالحین اور بزرگوں سے اُن کا رشتہ منقطع ہو جائے گا، اسلام کے بارے میں یا تو ان کو کوئی واقفیت اور آگہی نہیں رہے گی، یا وہ اپنی معلومات کے لئے ان لوگوں کی تحریروں اور کتابوں پر انحصار کریں گے، جو حقیقت میں اسلام کے معاند ہیں اور جن سے اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے کی توقع نہیں کی جا سکتی؛ اس لئے مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے اسکولوں میں اُردو زبان کی تعلیم وقت کی نہایت اہم ضرورت ہے، اور اس سے چشم پوشی برتنا آنے والی نسلوں سے محرومی کو کو گوارا کرنے کے مترادف ہے، یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ جو لوگ اُردو زبان کے تحفظ کی تحریک چلاتے ہیں، دین دار ہیں، دینی علوم سے وابستہ ہیں، اردو زبان کی روٹی کھاتے ہیں، اردو میں وعظ وتقریر اور شعروسخن ان کا امتیاز ہے، خود ان کے بچے اُردو کو ’’ اچھوت‘‘ سمجھتے ہیں؛ اس لئے ضرورت تو اس بات کی ہے کہ اردو زریعہ تعلیم کے زیادہ سے زیادہ معیاری اسکول قائم کئے جائیں؛ لیکن اگر اپنے اندر اتنی جرأت نہ پاتے ہوں، تو خواہ ذریعہ تعلیم انگریزی ہو، ثانوی زبان ہی کی حیثیت سے کم سے کم اردو کو داخل نصاب کریں، اس کے لئے اچھے تربیت یافتہ اساتذہ رکھیں اور اس کو پوری اہمیت دیتے ہوئے پڑھائیں، یہ موجودہ حالات میں آئندہ نسلوں کو اسلام پر باقی رکھنے اور مسلمان بچوں کا اسلام سے رشتہ استوار رکھنے کے لئے نہایت ضروری ہے۔
(و) عصری درس گاہوں کے طلبہ کی اسلامی تربیت اور ذہن سازی میں دینی مدارس بھی اہم کردار کر سکتے ہیں، اگر دینی مدارس ابتدائی مرحلہ میں پہلی جماعت سے ساتویں جماعت تک سرکاری نصاب کے ساتھ اسلامیات اور قرآن مجید پڑھ لیں، دو پارے حفظ کر لیں، سیرت اور دینیات کی کچھ کتابیں پڑھ لیں، نیز اسلامی عقائد اور تاریخ پر بھی کوئی کتاب ان کی ذہنی استعداد کے مطابق پڑھا دی جائے اور تربیت کا اسلامی ماحول ان کو دیا جائے، تو یہ نہایت ہی مبارک اور نافع قدم ہوگا۔ (جاری)