مسجد پریچئے! (۲)

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

 اسلام کے تعارف کے لئے سب سے اہم جگہ ہماری مسجدیں ہیں اور مسلمانوں کے اخلاق کے تعارف کے لئے سب سے بہتر جگہ ہمارے مدرسے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جب بنو ثقیف کا وفد آیا تو آپ نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا؛ تاکہ وہ مسجد کے نظام سے متأثر ہوں اور ان کو ہدایت دی کہ وہ ادھر اُدھر نہ جائیں :ان وفد ثقیف لما قدموا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أنزلھم المسجد لیکون أرق لقلوبھم فاشترطوا علی أن لا یحشروا…. الخ (سنن ابی داؤو، حدیث نمبر: ۳۰۲۶، السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:۴؍۱۸۴) ہم لوگوں کے لئے چوں کہ مسجد جانا اور وہاں کے ماحول کو دیکھنا ایک معمول کی بات ہے؛ اس لئے اس ماحول کی اثر انگیزی کا احساس ہمارے دل ودماغ کے اندر پیدا نہیں ہوتا؛ لیکن جب برادران وطن یہاں آتے ہیں تو ان پر اس کا بڑا اثر پڑتا ہے، حیدرآباد میں جس ادارہ (المعہد العالی الاسلامی ) کی خدمت مجھ سے متعلق ہے، کورونا کے زمانہ سے پہلے ہم لوگ اس میں موقع بہ موقع غیر مسلم بھائیوں کو بلانے کا اہتمام کرتے تھے، ایک بار ایسے ہی ایک پروگرام میں گائیتری پریوار کے مذہبی قائدین اور ان کے متبعین کو دعوت دی گی، وہ بہت شوق سے آئے، ادارے کے ایک چھوٹے سے پارک میں ضیافت کے ساتھ ساتھ تلگو زبان میں اسلام کے تعارف کا پروگرام رکھا گیا، لوگوں نے بڑی دلچسپی سے سنا ، گہرے تأثرات کا اـظہار کیا، مغرب کا وقت ہوگیا، مسجد میں اذان ہوئی تو ان حضرات نے کہا کہ ہم آج تک کبھی مسجد کے اندر نہیں گئے اور نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا، کیا ہم لوگ مسجد میں داخل ہو سکتے ہیں؟ ہم لوگوں نے کہا : آپ کا استقبال ہے، آنے والوں میں بعض خواتین بھی تھیں، اور ان میں سے ایک کا تعلق میڈیا سے تھا، وہ کہنے لگیں کہ مولانا صاحب! مگر آپ مجھ کو تو مسجد میں آنے کی اجازت نہیں دیں گے؛ کیوں میں ایک عورت ہوں اور آپ کے دھرم میں عورت مسجد کے اندر نہیں جا سکتی ، میں نے کہا : ایسا نہیں ہے، ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں تو عورتیں مسجد میں نماز بھی ادا کرتی تھیں، عورتوں کی ذمہ داری کے اعتبار سے ان کی آسانی کے لئے اور موجودہ دور کے اخلاقی بگاڑ کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی سیکوریٹی کے لئے ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ گھر ہی میں نماز ادا کر لیں؛ لیکن عورتوں کے لئے مسجد میں داخل ہونے کی ممانعت نہیں ہے، آپ مسجد کا ماحول اور نماز کی کیفیت کو دیکھنا چاہتی ہیں تو ضرور تشریف لائیں، ہم لوگوں نے نماز کی صفوں کے پیچھے کرسیاں لگوادیں ایک خوش آواز طالب علم کو نماز کی امامت کے لئے کہا اور نماز کے بعد شعبہ انگریزی کے ایک طالب علم سے سورۂ فاتحہ کا ترجمہ کرایا، اور سنتوں کے بعد ان کو مسجد کا پورا ماحول دکھایا کہ یہاں صفائی ستھرائی کا کتنا اہتمام ہوتا ہے! سوائے قرآن مجید کے کوئی اور چیز یہاں نہیں ہوتی ، وہ لوگ حیرت سے ایک دوسرے کا منھ تک رہے تھے، وہ کہنے لگے کہ ہم لوگ سمجھتے تھے کہ مسجد میں کوئی بند کمرہ بھی ہوتا ہے، جہاں ہتھیار رکھے جاتے ہیں؛ مگر یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے، وہ بہت متاثر ہو کر واپس ہوئے اور کہنے لگے : آج ہماری زندگی کا بہت اچھا دن تھا کہ ہمیں خدا کے گھر میں آنے کا موقع ملا۔

 یہ بھی دعوت کا ایک خاموش طریقہ ہے اور آج اس کی ضرورت ہے ، بڑی بڑی مسجدوں میں بعض اوقات غیر مسلم سیاح سیاحت کی غرض سے آتے ہیں، ہم اس موقع کو بھی دعوت کے لئے استعمال کرسکتے ہیں، میں نے ملیشیا میں دیکھا کہ وہاں کئی بڑی مسجدوں میں غیر مسلم سیاحوں کے آنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور تربیت یافتہ مبلغین مختصر وقت میں ان سے اسلام کا تعارف کراتے ہیں اور منتظمین نے بتایا کہ اس سے متاثر ہو کر بہت سارے حضرات مشرف بہ اسلام ہوتے ہیں، ضرورت ہے کہ ہم اپنے ملک میں بھی مسجد کا تعارف یا مسجد پریچے کے عنوان سے موقع بہ موقع غیر مسلم بھائیوں کو دعوت دیں، ان کو اذان اور سورۂ فاتحہ کا مفہوم سمجھائیں، اسلام کا تصور توحید اور اس کے نتیجے میں پروان چڑھنے والے مساوات کے نظریہ کو سمجھائیں، مسجد کی صفائی ستھرائی اور ماحول کی پاکیزگی کا ان کو مشاہدہ کرائیں، ان کو محبت کے دو بول کہیں ، ہو سکے تو ہلکی پھلکی ضیافت کر دیں، اگر ہم ایسا کریں گے تو یقین ہے کہ اللہ کے گھر کی کشش ان کو متاثر کئے بغیر نہیں رہے گی۔

 بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ مسجدوں میں غیر مسلموں کا داخل ہونا درست نہیں ہے، پتہ نہیں یہ غلط فہمی کہاں سے پیدا ہوگئی؟ کسی خاص مصلحت سے یا مسجد کے تحفظ کے لئے غیر مسلموں کو کیا مسلموں کو بھی مسجد میں داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے؛ لیکن مسلمان نہ ہونے کی وجہ سے کسی کا داخلہ مسجد میں ممنوع نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں غیر مسلموں کے وفود مدینہ حاضر ہوتے تھے، آپ مسجد نبوی ہی میں ان کا قیام کراتے تھے، بنو ثقیف مشرک تھے، اُن کا وفد خدمت ِاقدس میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو مسجد میں ٹھہرایا اور ان کے قیام کے لئے اس طرح خیمے لگوائے کہ وہ مسلمانوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھیں اور قرآن مجید کی تلاوت سنیں (مصنف عبدالرزاق، باب المشرک یدخل المسجد عن ابن جریج، حدیث نمبر: ۱۶۳۸) ضمام بن ثعلبہ ایک وفد کے ساتھ آئے، جن کا تعلق قبیلہ بنو سعد سے تھا، آپ نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا(صحیح بخاری عن انسؓ، حدیث نمبر: ۶۳) بنو نجران کے عیسائیوں کا وفد ساٹھ افراد پر مشتمل تھا، خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کئی دنوں ان کا قیام رہا، آپ نے مسجد نبوی ہی میں ان کے قیام کا انتظام فرمایا (زاد المعاد:۳؍ ۵۴۹، شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیہ:۵؍ ۱۸۸) غزوہ بدر میں جو مشرکین قید کئے گئے، آپ نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا، ان میں جبیر بن مطعم بھی تھے، وہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مغرب کی نماز میں سورہ طور کی تلاوت کر رہے تھے، مجھے ایسا لگا کہ اس تلاوت کو سن کرس میرا دل پھٹ جائے گا: فکأنما صدع قلبی لقرأۃ القرآن (السنن الکبری للبیہقی، حدیث نمبر: ۴۴۰۲) ابو سفیان جو مشرکین مکہ کے سردار اور قائد تھے، اور اہل مکہ نے احد اور غزوہ خندق کی لڑائی ان ہی کی قیادت میں لڑی تھی، وہ مسلمان ہونے سے پہلے ایک بار صلح حدیبیہ کی تجدید کی بات کرنے کے لئے مدینہ آئے اور مسجد نبوی میں بھی داخل ہوئے: کان ابو سفیان بن حرب یدخل مسجد النبی وھو مشرک (المغنی لابن قدامہ:۸؍ ۵۳۲)

  اسی لئے فقہاء کا بھی عمومی رجحان یہی ہے کہ مسلمانوں کی اجازت سے غیر مسلم حضرات مسجد میں داخل ہو سکتے ہیں، فقہاء احناف کے نزدیک تو اس میں بہت وسعت ہے؛ لیکن اس سلسلے میں محتاط قول وہ ہے، جو فقہاء شوافع اور بعض حنابلہ کا ہے کہ حرم کی مسجدوں کے علاوہ دیگر مسجدوں میں مسلمانوں کی اجازت سے ان کے داخل ہونے کی گنجائش ہے: یجوز للکفار دخول المساجد باذن المسلمین الا المسجد الحرام وکل مسجد فی الحرم، والی ھذا ذھب الشافعیۃ (دیکھئے: روضہ الطالبین للنووی: ۱؍ ۲۹۶) حرم میں حرم مکی اور حرم مدنی دونوںکو شامل کیا جا سکتا ہے؛ البتہ ارض حرم کے بعض احکام جیسے شکار وغیرہ میں مکہ کے احکام مدینہ سے مختلف ہیں، اس بات کو سامنے رکھا جائے تو اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حرمین شریفین کو چھوڑ کر دوسری مسجدوں میں مسلمانوں کی اجازت سے غیر مسلم بھی داخل ہو سکتے ہیں، حرمین شریفین کی مسجدوں میں غیر مسلموں کا داخلہ درست نہیں؛ کیوں کہ ۹ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا اعلان فرما دیا تھا: فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھذا (توبہ: ۲۸)

 یہ تو اس مسئلہ کا شرعی پہلو ہے؛ لیکن اس میں جو مصلحت کا پہلو ہے وہ دوپہر کی دھوپ سے زیادہ روشن ہے، آج کل مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے خاص طور پر مسجد کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلائی جاتی ہیں، ان میں دو غلط فہمیاں بہت عام ہیں، اول یہ کہ مسلمان کہیں اور کسی بھی جگہ اور کسی کی زمین پر بھی مسجد تعمیر کر لیتے ہیں، یہ پروپیگنڈہ کچھ اس قدر کیا گیا کہ برادران وطن کی نظر میں یہ ایک مسلم حقیقت بن گئی، اس کے لئے ضرورت ہے کہ تاریخ سے تعلق اور دلچسی رکھنے والے دانش ور اور اہل علم کی ایک تعداد اس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے، جہاں جہاں اور جس جس مسجد پر انگلی اٹھائی جا رہی ہے، وہ گہرائی کے ساتھ اس کی تاریخ کا مطالعہ کر یں، آثار قدیمہ کے ریکارڈ سے فائدہ اٹھائیں، خاص کر ہندو مورخین کی تحریروں کو کھنگالیں اور دلیل اور معقولیت کے ساتھ اپنی بات کو پیش کریں اور اس کو چھوٹے چھوٹے ورقیوں کی شکل میں خوب پھیلائیں، سوشل میڈیا پر اس کو نشر کریں اور غیر مسلم بھائیوں تک بھی اس کو زیادہ سے زیادہ پہنچانے کی کوشش کریں۔

 دوسری غلط فہمی یہ پیدا کی جاتی ہے کہ مسجدیں دہشت گردی کا اڈہ ہیں، یہاں ہتھیار چُھپا کر رکھے جاتے ہیں، لوگوں کو اس کے استعمال کی ٹریننگ دی جاتی ہے،اگر برادران وطن کو صرف مسجد کا معائنہ کرادیا جائے، مسجد کے اعمال کے بارے میں بتا دیا جائے، وہ اپنی آنکھوں سے نماز کا طریقہ دیکھ لیں، اذان کا ترجمہ سن لیں تو ان شاء اللہ ڈھیر ساری غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی، اور سوچ میں بہت فرق آئے گا، موجودہ حالات کے پس ِ منظر میں اس کو دعوت ِاسلام کا نام نہ دیا جائے، ملاقات اور زیادہ سے زیادہ تعارف ِ اسلام کا عنوان دیا جائے، تو ان شاء اللہ اس سے بڑی تبدیلیاں آئیں گی اور کم سے کم دلوں میں نرم گوشہ تو ضرور پیدا ہوگا۔

 کاش مسجد کی انتظامی کمیٹیاں ، ائمہ وخطباء اور مسلمان اس پر توجہ دیں جو آسان بھی ہے اور جس میں کوئی خطرہ بھی نہیں ہے، اللہ کرے کہ یہ حقیر آواز لوگوں کی توجہ حاصل کرے اور صدا بصحراء نہ ہو جائے۔

۰ ۰ ۰

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com