عدالت میں ایک بار پھر شرمندہ ہوا آئین

شعیب رضا فاطمی
ہندوستانی جمہوریت کا سب سے بڑا دعویٰ یہ ہے کہ اس کا آئین زندہ ہے، شفاف ہے اور عوام کے بنیادی حقوق کا محافظ ہے۔ لیکن دہلی ہائی کورٹ کا حالیہ فیصلہ، جس میں دہلی فسادات کے مقدمات میں عمر خالد، شرجیل امام اور سات دیگر ملزمین کی ضمانت عرضی کو خارج کر دیا گیا، اس دعوے کو سخت چوٹ پہنچاتا ہے۔ اس فیصلے نے یہ تاثر اور بھی گہرا کر دیا کہ ہندوستان کی عدالتیں آئینی انصاف کی بجائے سیاسی دباؤ کے تابع ہو رہی ہیں، اور ملزمین انصاف نہیں بلکہ کسی بنانا ریپبلک کی عدالت سے رحم کی بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔
ہندوستانی عدلیہ میں ضمانت دینا اصول ہے اور جیل میں رکھنا استثنا۔ سپریم کورٹ نے حسین آرا خاتون بنام ریاست بہار (1979) اور سدھیر بھائی سیٹھ بنام ریاست گجرات (1978) جیسے مشہور مقدمات میں واضح کہا کہ “آزادی بنیادی حق ہے، اور جب تک کسی ملزم کے خلاف پختہ شواہد نہ ہوں کہ وہ انصاف کے عمل میں رکاوٹ ڈالے گا، تب تک ضمانت دینا ہی قاعدہ ہے۔” اس کے باوجود دہلی فسادات کے ملزمین کو برسوں تک بغیر مقدمے کے حراست میں رکھنا اس اصول کی کھلی خلاف ورزی ہے۔اور یہ انصاف نہیں بلکہ انتقام ہے ۔
ان معاملات میں سب سے بڑا ہتھیار انسداد غیر قانونی سرگرمیاں قانون (UAPA) ہے، جسے عدالتوں نے بارہا “سخت” اور “آسانی سے غلط استعمال ہونے والا” قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے 2021 میں واتالی کیس میں یو اے پی اے کی دفعات کو تشویشناک قرار دیا تھا کیونکہ اس کے تحت ضمانت لینا تقریباً ناممکن بنا دیا جاتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسی بین الاقوامی تنظیموں نے بھی اپنی رپورٹس میں کہا ہے کہ ہندوستانی حکومت UAPA کا استعمال اختلاف رائے دبانے اور حکومت مخالف آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب پوری دنیا اس قانون کے استحصال کی نشاندہی کر رہی ہے، تو عدلیہ کیوں اس پر آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے؟
دہلی فسادا کا المیہ یہ ہے کہ اشتعال انگیزی اور نفرت پھیلانے والے بیانات سب کے سامنے ہیں۔ “گولی مارو …” جیسے نعرے لگانے والے حکومتی لیڈران آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں، ان پر نہ کوئی مقدمہ ہے نہ گرفتاری۔ لیکن شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والے طلبہ اور سماجی کارکن برسوں سے جیل میں ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن (OHCHR) نے بھی اس پر اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان میں حکومت مخالف مظاہرین کو “غیر متناسب طور پر” نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کیا یہ برابری اور انصاف کے وہی اصول ہیں جن پر ہمارا آئین ناز کرتا ہے؟
عدالت سے عوام کی سب سے بڑی توقع یہی ہے کہ وہ حکومت کی منشا سے آزاد ہو کر فیصلے دے۔ لیکن جب عدالتیں بار بار ضمانت کی عرضیوں کو خارج کرتی ہیں، اور وہ بھی ان مقدمات میں جہاں ٹرائل برسوں تک مکمل نہیں ہوتا، تو عوام کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا عدالتیں واقعی “آئین کی محافظ” ہیں یا پھر “سیاسی حکم کی مہر”۔ یہی کیفیت بنانا ریپبلک کی ہوتی ہے جہاں انصاف محض طاقتور کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 2022 رپورٹ اور فریڈم ہاؤس کی سالانہ رپورٹ دونوں میں ہندوستان کو “جزوی طور پر آزاد” (Partly Free) قرار دیا گیا ہے، اور اس کی ایک بڑی وجہ عدلیہ کی کمزور کارکردگی اور حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف سخت رویہ بتایا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے صاف کہا ہے کہ ہندوستان میں “Rule of Law” کی جگہ “Rule by Law” قائم ہو رہا ہے، جہاں قانون عوام کو انصاف دینے کے بجائے انہیں دبانے کا ہتھیار بن چکا ہے۔ آج اگر عمر خالد، شرجیل امام اور دوسرے ملزمین کے ساتھ یہ رویہ اپنایا جا رہا ہے، تو کل عام شہری کو بھی اسی انجام کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ڈاکٹر بی۔ آر۔ امبیڈکر نے آئین ساز اسمبلی میں خبردار کیا تھا کہ “آئین جتنا بھی اچھا ہو، اگر اسے نافذ کرنے والے ادارے برے ہوں تو آئین بھی ناکام ہو جائے گا۔” آج کی صورت حال اس انتباہ کی عملی تصویر بن چکی ہے۔
یہ فیصلہ صرف چند افراد کی ضمانت کا مسئلہ نہیں، بلکہ ہندوستانی جمہوریت اور آئین کی ساکھ کا سوال ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کے اس رویے نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہندوستان میں انصاف صرف ہونا ہی نہیں بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی نہیں آ رہا۔ آج آئین عدالت میں شرمندہ کھڑا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جب عدلیہ اپنے فرض سے منہ موڑ لیتی ہے تو جمہوریت کی جڑیں اندر ہی اندر کھوکھلی ہو جاتی ہیں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com