خورشید عالم داؤد قاسمی
حضرت پیر صاحبؒ سے پہلی شناسائی
غالباً سن 2006ء کی بات ہے کہ راقم الحروف کو محبوبُ العلماء حضرت مولانا حافظ پیر ذوالفقار احمد نقشبندی رحمہ اللہ کا سفرنامہ “لاہور سے تا خاکِ بخارا و سمرقند” پڑھنے کا موقع ملا۔ جونہی اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا، پڑھتا ہی چلا گیا۔ اس سفرنامے نے نہ صرف علمی و فکری ذوق کو جِلا بخشی؛ بلکہ مصنف کی روحانی بصیرت اور فکری پختگی نے بھی گہرا اثر چھوڑا۔ اسی مطالعے کے بعد احباب اور دوستوں کی محفلوں میں بھی حضرت پیر صاحبؒ کا ذکرِ خیرسننے کو ملا۔ ہمارے ہی حلقۂ احباب میں سے کسی نے بتایا کہ حضرت پیر صاحبؒ ماہِ رمضان المبارک میں اعتکاف کی غرض سے افریقی ملک زامبیا تشریف لے جاتے ہیں، جہاں ان کے خلفاء، مریدین اور عوام و خواص کی بڑی تعداد ان کی معیت میں اعتکاف کرتی ہے۔ یہ بات سن کر دل میں ان کی دینی خدمات اور روحانی اثرات کا احساس مزید گہرا ہو گیا۔
زامبیا آمد اور حضرت پیر صاحبؒ سے ملاقات کا شوق
پھر اللہ تعالیٰ کی مشیت سے یہ راقم دسمبر 2009ء میں دینی خدمات کی نسبت سے مون ریز ٹرسٹ اسکول، مپلنگو، زامبیا سے منسلک ہوا۔ زامبیا آمد کے بعد یہ معلوم ہوا کہ حضرت پیر صاحبؒ ہر سال ماہِ رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف، زامبیا کے دارالخلافہ: لوساکا میں واقع “مسجدِ عمر” میں فرمایا کرتے ہیں۔ یہ اطلاع میرے لیے غیر معمولی مسرت کا باعث بنی؛ کیوں کہ جن کی تحریروں سے پہلے ہی قلبی وابستگی پیدا ہو چکی تھی، اب ان کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا امکان قریب دکھائی دینے لگا۔ اس انکشاف نے دل میں شوقِ ملاقات کی ایک نئی کیفیت پیدا کر دی۔
رمضان 2010ءکے اعتکاف کی تیاری
سن 2010ء کے ماہِ رمضان المبارک میں راقم الحروف اپنے ادارے کے چند اساتذہ کے ہمراہ حضرت پیر صاحبؒ کی معیت میں، اعتکاف کی نیت سے لوساکا پہنچا۔ جب ہم مسجدِ عمر پہنچے؛ تو ایک غیر معمولی دینی اور روحانی منظر دیکھنے کو ملا۔ لوساکا کے ہندوستانی نژاد باشندے، مسجد کے منتظمین اور حضرت پیر صاحبؒ کے محبین نہایت جوش، محبت اور نظم و ضبط کے ساتھ تیاریوں میں مصروف تھے۔ مسجد میں معتکفین کے قیام کے لیے ہمہ جہت انتظامات جاری تھے۔ کوئی صاحب بستر اور آرام کی ضروریات مہیا کرنے میں مصروف تھے، کوئی ساؤنڈ سسٹم کی ترتیب و تنصیب میں لگے ہوئے تھے اور کہیں حضرت پیر صاحب اور اکابر علماء کے لیے مخصوص قیام گاہ کو آراستہ کیا جا رہا تھا۔ غرض یہ کہ دن بھر ہر شخص اپنی اپنی ذمہ داری اخلاص اور لگن کے ساتھ نبھاتا رہا اور مسجد معتکفین کے استقبال کے لیے ایک روح پرور مرکز کا منظر پیش کر رہی تھی۔
پہلی زیارت:
نمازِ عصر کے کچھ ہی دیر بعد حضرت پیر صاحبؒ تشریف لائے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے حضرت کی بالمشافہ زیارت نصیب ہو رہی تھی۔ آپ نصف ساق تک بغیر کالر کا ڈھیلا ڈھالا سفید جبہ زیبِ تن کیے ہوئے تھے، ٹخنوں سے اوپر تک پیجامہ، سر پر بڑا سا سفید عمامہ، ہاتھ میں ایک موٹا عصا جو تقریباً آپ کے قد کے برابر، چہرے پر سفید اور گھنی داڑھی اور آنکھوں پر چشمہ۔ آپ کا یہ سراپا وقار، سادگی اور سنت کا عملی مظہر تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب ہم نے حضرت پیر صاحبؒ کو آمنے سامنے دیکھا اور پہلی ہی نظر میں دل پر گہرا اثر ثبت ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی شخصیت میں ایسی مقناطیسی کشش ودیعت فرما رکھی تھی کہ جو بھی ایک نظر دیکھ لیتا، وہ بے اختیار آپ کی طرف کھنچتا چلا جاتا اور دل ہی دل میں آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔
اعتکاف کا مرتب نظام الاوقات
حضرت پیر صاحبؒ کے مسجد میں تشریف لاتے ہی معتکفین کی آمد کا سلسلہ باقاعدہ طور پر شروع ہو گیا۔ معتکفین میں امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، یورپ، برصغیر ہند و پاک اور متعدد افریقی ممالک سے آنے والے حضرات شامل تھے؛ جب کہ ایک بڑی تعداد زامبیا کے معتکفین کی بھی تھی۔ مغرب کی اذان سے قبل ہی مسجد مکمل طور پر بھر چکی تھی اور ہر سمت ایک روحانی اجتماع کا سماں بندھ گیا تھا۔ معتکفین کے لیے ایک منظم نظام الاوقات مرتب تھا، جس کی پابندی کی جاتی۔ سحری، تہجد، نمازِ فجر، فجر کے بعد درسِ حدیث، پھر اشراق و چاشت، اس کے بعد درسِ تفسیر، عصر کے بعد حضرت پیر صاحب کے کسی ایک خلیفہ کا اصلاحی بیان اور پھر نمازِ تراویح کے بعد خود حضرت پیر صاحب کا خطاب، یہ سب اوقات نہایت نظم و ضبط کے ساتھ مقرر تھے۔ معتکفین ان معمولات کے مطابق اعتکاف کے ایام حضرت پیر صاحبؒ کی براہِ راست نگرانی اور روحانی سرپرستی میں گزارتے تھے۔
جس سال راقم الحروف کو اعتکاف میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی، اس سال حضرت پیر صاحبؒ نے سورۂ یوسف کی پُراثر اور دل نشیں تفسیر بیان فرمائی۔ حضرت کے بیانات اور درسِ تفسیر کو سننے کے لیے نہ صرف معتکفین؛ بلکہ شہر کے نوجوان و بزرگ، علماء و طلبہ اور عوام و خواص کی بڑی تعداد روزانہ مسجد کا رخ کرتی اور مسجدِ عمر ایک زندہ علمی و روحانی مرکز کا منظر پیش کرتی تھی۔
زامبیا میں اعتکاف کا بابرکت سلسلہ
حضرت پیر صاحبؒ نے زامبیا میں تقریباً پندرہ برس تک اعتکاف کا یہ مبارک سلسلہ جاری رکھا، جو ہر اعتبار سے نہایت بابرکت اور سعادت بخش ثابت ہوا۔ اس دوران بے شمار علماء، طلبہ اور عام افراد نے حضرت کے دستِ حق پرست پر بیعت ہو کر، اپنے باطن کی اصلاح کی اور روحانی تربیت سے فیض یاب ہوئے۔ خواتین اور نوجوان لڑکے بھی شوق سے حضرت کے بیانات سنتے اور ان سے رہنمائی حاصل کرتے۔ بہت سے وہ حضرات جو کچھ حالات کے باعث حضرت پیر صاحبؒ سے ان کے وطن جا کر براہِ راست استفادہ نہیں کر سکتے تھے، انھیں زامبیا میں ہی بیعت اور صحبت کا موقع میسر آیا۔ اس طرح حضرت پیر صاحب کے فیوض و برکات اور روحانی انوار کا یہ روشن سلسلہ رفتہ رفتہ ہندوستان تک پھیلنے لگا۔ متعدد ممتاز ہندوستانی علماء؛ بلکہ دارالعلوم دیوبند کے کئی اساتذۂ کرام بھی حضرت کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے اور آپ کی جانب سے خلافت و اجازت سے سرفراز فرمائے گئے۔ یوں حضرت پیر صاحبؒ کی دینی و روحانی خدمات ایک عالمگیر تحریک کی صورت اختیار کر گئیں، جس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
حضرت پیر صاحبؒ کے دو امتیازی صفات:
حضرت پیر صاحبؒ کی شخصیت میں دو اوصاف نہایت نمایاں اور خصوصیت کے حامل تھے۔ ان میں سے ایک وصف اللہ تعالیٰ سے گہری محبت اور دوسرا وصف رسولِ اکرم ﷺ کی سنت کا کامل اتباع۔ آپ اکثر ذکر و اذکار میں مشغول رہتے، باقاعدگی سے مراقبہ فرمایا کرتے اور اپنے سالکین کو بھی روزانہ مراقبہ کرنے کی تلقین فرماتے تھے۔ آپ کے نزدیک اصلاحِ باطن کا یہ عمل روحانی ترقی کی بنیاد تھا۔
جہاں تک اتباعِ سنتِ رسول ﷺ کا تعلق ہے؛ تو ان کی زندگی کا ہر پہلو اس کا عملی نمونہ تھا۔ ان کا کھانا پینا، سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا اور لباس و پوشاک: سب سنتِ نبوی ﷺ کے مطابق ہوتا۔ اس سلسلے میں ایک نہایت قابلِ ذکر واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت پیر صاحبؒ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھے؛ تو ایک دن جامعہ اشرفیہ لاہور کے جلیل القدر عالم، حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مفتی صاحب نے دریافت فرمایا: “کس غرض سے آئے ہو؟” حضرت نے نہایت سادگی سے عرض کیا: “میں سنت کا شیدائی ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ زندگی کا ہر کام سنت کے مطابق کروں؛ اسی لیے آپ کی خدمت میں آیا ہوں کہ آپ مجھے بتائیں اور میں اس پر عمل کروں۔” یہ سن کر مفتی صاحبؒ بے حد خوش ہوئے۔ اس کے بعد کھانے پینے، لباس و پوشاک، سونے جاگنے اور دیگر سنتوں پر تفصیلی گفتگو ہوئی، جو تقریباً ڈھائی گھنٹے تک جاری رہی۔ گفتگو کے اختتام پر مفتی صاحبؒ نے حضرت سے فرمایا کہ آپ کو میرے پاس آنے کی اجازت ہے؛ جب چاہیں تشریف لائیں، دارالافتاء میں بیٹھ جائیں، میں فارغ ہو کر آپ کو بلا لیا کروں گا۔ اس کے بعد حضرت پیر صاحبؒ باقاعدگی سے مفتی صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے اور نماز، وضو، طہارت اور دیگر عملی مسائل میں ان سے رہنمائی لیتے اور اس پر عمل کرتے۔ مفتی جمیل صاحبؒ کی اسی صحبت اور رہنمائی نے حضرت کے دل میں علمائے دیوبند کی محبت راسخ کر دی اور یوں وہ علمائے دیوبند کے سچے عاشق اور شیدا بن گئے۔ پھر مستقبل میں آپ کی تقریر و تحریر میں علمائے دیوبند چھائے رہے۔
پیر صاحب کا علمی و فکری ارتقا:
پیر صاحبؒ عصری درسگاہوں کے تعلیم یافتہ الیکٹریکل انجینئر تھے۔ بظاہر وہ اس میدان سے وابستہ نہ تھے جس میں بعد ازاں انھوں نے نمایاں خدمات انجام دیں؛ مگر اللہ تعالیٰ جس سے چاہیں اپنے دین کی دعوت و تبلیغ اور بندوں کی اصلاح کا کام لیتے ہیں اور اسے اس کے لیے موزوں بنا دیتے ہیں۔ پیر صاحبؒ کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔ پیر صاحبؒ خود اپنے بارے میں بیان فرمایا کرتے تھے کہ وہ اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے کہ ایک مرتبہ موسمِ گرما کی چھٹی میں ایک حافظ صاحب کے پاس قرآنِ کریم کے چھ سیپارے حفظ کیے۔ جب اسکول کھلا تو بڑے بھائی انھیں دوبارہ اسکول لے جانا چاہتے تھے؛مگر پیر صاحبؒ اس کے لیے آمادہ نہ تھے اور مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند تھے۔ بھائی صاحب نے ان سے کہا کہ وہ اسکول کی تعلیم جاری رکھیں اور مدرسہ کی تعلیم کے لیے الگ سے کسی استاد کا انتظام کر دیا جائے گا۔ چناں چہ پیر صاحبؒ نے اسکول کے ساتھ ساتھ عالم کورس کی کتابیں فارغ اوقات میں پڑھنا شروع کر دیں۔ اس طرح انھوں نے شرح مائۃ عامل وغیرہ جیسی کتابیں پڑھیں۔
بعد ازاں جب لاہور یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کیا؛ تو کچھ عرصے کے لیے دینی تعلیم کے حصول میں تعطل آگیا؛ مگر انھوں نے کسی عالمِ دین سے رابطہ کر کے دوبارہ عالم کورس کی تعلیم شروع کر دی اور بخاری شریف جیسی عظیم حدیث کی کتاب کا درس بھی حاصل کیا۔ اسی دوران انھوں نے الیکٹریکل انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی اور یونیورسٹی کے زمانۂ تعلیم ہی میں قرآنِ کریم حفظ مکمل کرنے کی سعادت بھی حاصل کی۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ دو دینی اداروں: جامعہ رحمانیہ، جہانیاں منڈی اور جامعہ قاسم العلوم، ملتان نے آپ کو عالمیت کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔ حضرت پیر صاحبؒ نے سن 1972ء میں بی ایس سی الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی، جس کے بعد اسی شعبے میں عملی زندگی کا آغاز کیا اور ترقی کرتے ہوئے چیف الیکٹریکل انجینئر کے عہدے تک پہنچے۔
تصوف سے تعلق:
حضرت پیر صاحبؒ کا تصوف سے تعلق اس زمانے میں قائم ہوا جب وہ لاہور یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھے۔ ابتدا میں ان کا تعلق سلسلۂ نقشبندیہ کے ایک بزرگ، حضرت مولانا سید زوار حسین صاحبؒ سے قائم ہوا۔ پیر صاحبؒ نے ان سے مجددِ الفِ ثانی، شیخ احمد سرہندیؒ (1564 – 1624)کے مکتوبات کا مجموعہ سبقاً سبقاً پڑھا۔ ان کی وفات کے بعد، پیر صاحبؒ نے سن 1980ء میں حضرت مرشدِ عالم خواجہ غلام حبیب نقشبندی مجددیؒ سے اصلاحی تعلق قائم کیا۔ خواجہ صاحبؒ نے سن 1983ء میں پیر صاحبؒ کو خلافت سے سرفراز فرمایا۔ مرشدِ محترم کی وفات کے بعد، پیر صاحبؒ میدانِ تصوف میں خدمت انجام دینے لگے۔ اس حوالے سے انھوں نے دنیا کے متعدد ممالک کے دورے کیے اور ان تمام ممالک میں ان کے خلفاء اور مریدین موجود ہیں، جو ان کی روحانی نسبت اور اصلاحی سلسلے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
پیر صاحبؒ کا نمایاں کارنامہ:
حضرت پیر صاحبؒ کا ایک عظیم اور نمایاں کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ و طالبات، نیز عصری علوم سے وابستہ افراد کو دین کی طرف متوجہ کرنے میں نہایت مؤثر کردار ادا کیا۔ انھوں نے انھیں تصوف سے وابستہ کیا اور دینی تعلیم سے جوڑا۔ حضرت پیر صاحبؒ سے وابستہ ہونے کے بعد متعدد افراد نے علومِ دینیہ کے حصول کا آغاز کیا اور اس میدان میں نمایاں پیش رفت کی، جو آپ کی اصلاحی کاوشوں اور روحانی تربیت کا روشن ثبوت ہے۔
حضرت پیر صاحبؒ کی ولادت:
حضرت پیر صاحبؒ کی ولادت یکم اپریل 1953ء کو جھنگ، صوبۂ پنجاب، پاکستان میں ہوئی۔ آپ نے ایک دیندار اور صالح گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آپ کے والدین نہایت متقی، عبادت گزار اور دینی مزاج کے حامل تھے۔ والدہ محترمہ خصوصاً تلاوتِ قرآنِ کریم اور تہجد کی سخت پابند خاتون تھیں۔ ان کی روحانیت اور عبادت گزاری کا گہرا اثر حضرت پیر صاحبؒ کی شخصیت پر پڑا۔ بچپن ہی سے آپ کو دینی ماحول، نماز، ذکر اور اخلاقِ حسنہ سے رغبت حاصل ہو گئی تھی۔ آپ کی ابتدائی تربیت میں والدہ محترمہ کا کردار نہایت نمایاں رہا۔ انھوں نے نہ صرف دینی شعور بیدار کیا؛ بلکہ سادگی، تقویٰ اور تعلق مع اللہ کو آپ کی زندگی کا حصہ بنایا۔ یہی پاکیزہ تربیت آگے چل کر حضرت پیر صاحبؒ کی علمی، عملی اور روحانی زندگی کی مضبوط بنیاد بنی۔
آخری ایام اور وفات:
حضرت پیر صاحبؒ کچھ عرصے سے علیل تھے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران آپ کی طبیعت زیادہ ناساز رہنے لگی تھی اور ہفتے میں متعدد مرتبہ ڈائیلیسس کرانا پڑتا تھا۔ اس کے باوجود آپ صبر، شکر اور اللہ تعالیٰ پر کامل توکل کے ساتھ بیماری کے مراحل طے کرتے رہے۔ بالآخر وہ وقتِ موعود آچکا تھا؛ چناں چہ حضرت پیر صاحبؒ 14 /دسمبر 2025ء کی صبح اس دارِ فانی سے رخصت ہو کر اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔ آپ کی نمازِ جنازہ 15/ دسمبر 2025ء کو آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت مولانا حبیب اللہ نقشبندی حفظہ اللہ کی امامت میں ادا کی گئی، جس میں ملک و بیرونِ ملک سے علما، مشائخ، عقیدت مندوں اور محبین کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
اللہ تعالیٰ حضرت پیر صاحبؒ کی کامل مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور انھیں جنتُ الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، نیز ان کے پسماندگان اور متعلقین کو صبرِ جمیل نصیب فرمائے! آمین ! ••••






